دبلا پن خوبصورتی کا معیار نہیں ہے


دنیا میں موجود ہر چیز خوب صورت ہے، سراہنے اور دیکھنے والی آنکھ کی ضرورت ہے۔ یہ چینی دانشور کنفیوشس نے کہا تھا۔ بات درست ہے لیکن خوب صورتی ہمارے نزدیک وہ رہ جاتی ہے جو ہمارے معیار پر مکمل اترے اور کائنات کی حسین ترین چیز انسان ہے، مرد ہے، عورت ہے۔

مرد کے لیے دل کشی کا معیار بہت سادہ سا ہے۔ مناسب قد ہو، ناک نقشہ درمیانہ سا ہو، رنگ کھلتا ہو یا دبتا ہو کوئی پرواہ نہیں اور بہت ہوا تو پیٹ تھوڑا اندر ہو۔ وہ باہر بھی ہو تو کوٹ یا شلوار قمیص کسی حد تک اسے کور کر لیتے ہیں۔ سو باتوں کی ایک بات سننے کو یہ ملتی ہے کہ مرد کی شکل نہیں اس کی آمدنی دیکھی جاتی ہے۔ قصہ ختم! ہاں ماڈلنگ اور فلموں کا عروج اپنے ساتھ پلاسٹک کے بنے ترشے ترشائے مرد بھی لے کر آیا ہے لیکن انہیں ایک حد تک ہی قبول کیا گیا، مردانہ وجاہت کے اصول بہت وسیع یا ڈھیلے ڈھالے سے رہے۔ کوئی خاص پیمانہ بن نہ سکا۔

عورت کی بات کیجیے تو ایک دو صدی پہلے تک عورت بہت ہی نارمل اور صحت مند قسم کی مخلوق ہوتی تھی جسے باقاعدہ پسند بھی کیا جاتا تھا۔ منی ایچر تصاویر دیکھ لیجیے یا مغربی کلاسیک پینٹینگز دیکھ لیجیے، خواتین مکمل بھری پری اور صحت مند نظر آئیں گی۔ بازو اچھے سڈول ہوں گے، پیٹ عین ویسا ہو گا جیسا کسی گرہستن کا ہو سکتا ہے، کمر مناسب سائز کی ہو گی، ٹانگیں مکمل بھری ہوئی پائیں گے، کندھے، سینہ غرض پورا جسم ایک نارمل عورت کا ہو گا جسے بھوک یا فاقے کہیں چھو کر نہیں گذرے۔ گال پھولے ہوئے سے ہوں گے، چہرہ عموماً گول ہو گا یا تھوڑا بیضوی، بال غیر معمولی چمک دار نہیں ہوں گے، چہرے کی سرخی بس اک گلابی سی ہو گی، پلکیں اتنی کہ خوبصورت لگیں، ابرو بھی خاص کھنچے نہیں ہوں گے، مجموعی طور پر یہ وہ عورت ہو گی جو اب گاؤں دیہات میں بھی ڈھونڈے نہ ملے۔

فیشن انڈسٹری کے نسل انسانی پر بہت احسانات ہیں۔ لباس کی تراش خراش میں جدت بلاشبہ خوب صورتی کو چار چاند لگاتی ہے لیکن اس سب کے ساتھ ایک نقصان یہ ہوا کہ عورت فاقہ زدہ ہو گئی۔ گذشتہ صدی کے شروع میں یہ رجحان کچھ شروع ہوا اور تقریباً سو برس بعد خوب صورت اور صحت مند عورت کا وجود نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔

اگر آپ کے گال پچکے ہوئے ہیں، آنکھیں باہر کو نکلی ہیں، ہونٹ ابلے پڑتے ہیں، کالر بونز (ہنسلی کی ہڈیاں) نظر آتی ہیں، کمزوری ایسی ہے کہ خم کھائے کندھے تھوڑے اندر کی طرف ہو گئے ہیں، کمر ایک مٹھی برابر ہے، پسلیاں انگلی پر گنی جا سکتی ہیں، بازو اور ٹانگیں اس قدر کمزور ہیں کہ ہڈیاں باقاعدہ نظر آئیں، گھٹنوں اور کہنیوں کے جوڑ علیحدہ سے نظر آتے ہیں اور آپ دونوں پیر جوڑ کر کھڑی ہوں اور ٹانگیں کیا رانیں بھی بوجہ دبلا پن جڑ نہ پائیں تو آپ ایک کامیاب ماڈل اور خوب صورت عورت ہیں۔

خوب صورتی کی یہ تعریف سوائے بیماری اور شرمندگی کے آج تک کچھ نہیں دے پائی۔ فاقے کرنا، الٹی سیدھی دوائیں کھانا، دن رات ورزشیں کرنا اور سائز زیرو پر آ جانا عین ممکن ہے لیکن کب تک؟ کیا انسان صرف اس لیے زندہ رہ سکتا ہے کہ اسے دوسروں کے آگے ہمیشہ اچھا دکھنا ہے؟ جو لڑکی ایک پاؤ جلیبی یا پچاس روپے کے پکوڑے اس خوف کے مارے کھا نہ پائے کہ موٹاپہ چڑھ جائے گا تو کیا فائدہ ایسی زندگی کا؟ اور رئیل لائف میں یہ سب کچھ واقعی آپ کے ہمارے آس پاس ہو رہا ہے۔ مائیں اپنے پیٹ سے شرمندہ ہیں، بیٹیاں اپنی کمریں غائب کرنا چاہتی ہیں، بہنیں ہر دوسرے مہینے فاقوں اور ورزش والے کریش کورسز کرتی ہیں، گھر والیاں ایک سے دوسری روٹی نہیں کھاتیں کہ حجم بڑھا نہیں اور خصم چلا نہیں، پوری دنیا کی نصف آبادی باقاعدہ خود کو مٹا دینے کے ایک جنون میں مبتلا ہے۔

اس پورے فوبیا کو محسوس کرتے ہوئے چند ممالک نے تو اینورکزیا (دبلے پن کی بیماری) کی شکار ماڈلز پر باقاعدہ پابندی عائد کی ہے لیکن ابھی رفو کا بہت کام باقی ہے۔ اور اس کام میں ایک بڑا حصہ مرد کا ہے۔ جب آپ دل بھر کے کھائیں اور پیٹ پر ہاتھ پھیر کر الحمد للہ کے ساتھ ایک بڑی سی ڈکار لیں، اسی وقت بہنوں، بیٹیوں، گھر والیوں، دوستوں یا کولیگز کو بھی تھوڑا کھانے کا حوصلہ دے دیجیے۔ انہیں جتلا دیں کہ بھئی کرینہ کپور اگر بھوکی گھومتی ہیں تو وہ سال کے ارب دو ارب روپے کماتی ہیں جو اس محنت کی قیمت ہے۔ عام لڑکی بے چاری کیوں اس لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈالے۔ کھاؤ، پئیو، صحت مند رہو، دنیا کے کام کرو، اپنے پیروں پر جیو، اپنے پیروں پر مرو! پیٹ پچکانے یا گال گلانے سے حاصل کیا ہے۔ اتنا کرو کہ بس خود کو اچھے لگو، اپنے آپ پر بھروسہ ہے تو دنیا بے شک اپنی ہے!

یہی معاملہ میک اپ یا چہرے کے مسائل کا ہے۔ ہمیں نہایت سنجیدگی سے اس بات پر سوچنے کی ضرورت ہے کہ چھائیاں، کیل، مہاسے، جسم پر سٹریچ مارکس، یہ وقت کی نشانی ہیں یا بدصورت دھبے ہیں۔ وہ چھائیاں جن کے پیچھے کڑی مشقت بھرے دن رہے ہوں یا وہ سٹریچ مارک جو ماں بننے کی یادگار ہوں ان سے کوئی شرمندہ کیسے ہو سکتا ہے؟ چہرے پر کیل مہاسے جسم میں کسی بھی چیز کی زیادتی یا کمی کی وجہ سے ہو سکتے ہیں، ماہانہ نظام میں گڑبڑ اس کی وجہ ہو سکتی ہے لیکن اس کو باقاعدہ خوب صورتی پر دھبہ سمجھنا اور خوف زدہ رہنا ظلم نہیں تو اور کیا ہے۔ وہ نفسیاتی دباؤ جو اشتہار اور فیشن کے رسالے صاف شفاف جلد کے نام پر ڈالتے ہیں، کیا اسے کسی منظم تحریک کے ذریعے کم نہیں کیا جا سکتا؟ تحریک نہ چلائیے، اپنے گھر سے یا اپنے آس پاس کے ماحول میں ہر مرد ہر عورت اس بات پر بحث شروع کر سکتے ہیں، زندگی آسان کرنا مقصد ہے اور بس۔

میک اپ کرنا، خوب صورت لگنا ہر خاتون کا حق ہے اور یہ وہ سو فیصد خود کو خوب صورت دکھائی دینے کے لیے کرتی ہیں۔ اس پر اعتراض کرنا ہی نہیں بنتا۔ ہاں میک اپ کی زیادتی جلد کو کس طرح نقصان پہنچا سکتی ہے، اس پر بات کی جا سکتی ہے۔ باربی ڈول اور ایک عام پیاری لڑکی میں کیا فرق ہوتا ہے، یہ بتایا جا سکتا ہے۔ خود اعتمادی میک اپ یا زیور سے زیادہ طاقت ور چیز ہے، یہ سکھلایا جا سکتا ہے۔ یہ پورا جسم آپ کا اپنا ہے، برسوں کی کمائی ہے، اس سے شرمندہ ہونا خود کو ضائع کرنے والی بات ہے، یہ احساس دلایا جا سکتا ہے۔ لیکن پہل کون کرے، فیصلہ آپ کا ہے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain