بریکنگ نیوز، نامعلوم افراد، حکومت اور انتظامیہ


بنارس ٹاون میں دیدہ زیب بنارسی کپڑا مناسب دام مل جاتا ہے۔ مرد حضرات کے لیے خواتین کے خریداری مراکز جانے کے لیے آمادہ ہونا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن خواتین اس گر سے آشنا ہوتی ہیں کہ مردوں کو کیسے راضی کیا جائے۔ ہم بھی مان گئے اور ہفتے کے دن بنارس ٹاون جانے کی حامی بھر لی۔ بازار ہمارے گھر سے 45 کلومیٹر دور ہے اس لیے گھر سے نکلنے سے پہلے مناسب جانا کہ ٹی وی دیکھ لیا جائے تاکہ شہر کی تازہ ترین صورتحال کا پتا لگ جائے۔ ایک چینل پر فوری خبر (بریکنگ نیوز) چل رہی تھی کہ شاہ فیصل کالونی میں بھینس نالے میں گرگئی ہے اور لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اس کو نکالنے کی تدبیریں کررہے ہیں۔ دوسرے چینل کی اہم خبر تھی کہ ٹریفک کانسٹیبل کی ایک شہری نے مشتعل ہو کر پٹائی کر دی، جواب میں مضروب کانسٹیبل نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ، شہری کی مناسب خاطر تواضع کی اور دونوں تھانے میں ایک دوسرے کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کے لیے ٹی وی کیمرہ مین کے ساتھ موجود ہیں۔

چند غیر اہم خبریں بھی ٹکر کی صورت میں چل رہی تھیں کہ گاڑی والا راہ گیر کو ٹکر مار کر فرار ہوگیا اور زخمی ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی دم توڑ گیا۔ ایک چینل کا ٹکر تھا کہ بچوں کی بڑی تعداد تعلیم سے دور ہے اور ایک سرکاری سکول جس کا عملہ 31 افراد پر مشتمل ہے، وہاں 22 بچے زیر تعلیم ہیں۔ چینلز کے نزدیک یہ سب سے غیر اہم خبریں تھیں۔ اس لیے ٹکر کی صورت میں چل رہی تھیں۔ بھینس کے گرنے اور کانسٹیبل اور شہری کے جھگڑے کا واقعہ اہم تھا اس لیے ٹی وی سکرین پر نمایاں تھا۔ صبح کا وقت تھا تو زیادہ تر چینلز مارننگ شوز میں قد لمبا کرنے، رنگ گورا کرنے، شادی کی رسومات اور تیاریاں کیسے کی جائیں؟ ساس وبہو کے تعلقات کیسے بہتر ہوسکتے ہیں؟ کے متعلق خواتین کو مشورے دے رہے تھے۔

بہرحال کوئی ایسی خبر نہ ملی جو مفر کا باعث بنتی۔ جیسے ہی گاڑی نیشنل ہائی وے پر آئی تو ہائی وے پر بھاری بھرکم ٹریلروں اور بھوسے سے بھرے ٹرکوں کا راج ملا۔ پورٹ قاسم موڑ تک ہائی وے کے دونوں اطراف آئل ٹینکرز معمول کے ساتھ کھڑے ملتے ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔ کیا آئل ٹینکرز کھڑے کرنے کی یہی جگہ ہے؟ جو یقینا نہیں ہے تو پھر ہائی وے کے دونوں اطراف کیوں موجود رہتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر سفر کے دوران ہمارے ذہن میں گونجتا ہے۔ لیکن کس سے پوچھیں؟ مقامی ممبر قومی اسمبلی اپنی نصف سے زیادہ مدت بطور ممبر اسمبلی نواز لیگ میں گزار کر، پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں اور ضمنی انتخاب بھی جیت چکے ہیں۔

یقینا، اب ان کے مسائل حل ہورہے ہوں گے۔ پورٹ قاسم موڑکے بعد ہائی وے کے دونوں اطراف توڑ پھوڑ اور استرکاری کا کام بیک وقت ہوتا نظر آیا (واضح رہے کہ ایک، دو ماہ قبل ہی قائد آباد سے سٹیل مل تک استر کاری ہوئی تھی) دوبارہ کیوں کی جارہی ہے؟ اس سوال کا جواب کون دے گا؟ یہ تو ہمیں بھی معلوم نہیں! سڑک کی یہ توڑ پھوڑ اور استر کاری کا کام ایئر پورٹ تک بغیر کسی تعطل کے کئی سال سے جاری ہے۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ شہریوں کو کیوں ا ذیت میں مبتلا کیا ہوا ہے؟ ایک دفعہ ہی ٹھوس منصوبہ بندی کرکے کام کیوں نہیں مکمل کرلیا جاتا؟ یہ وہ سوال ہیں، جو اس روٹ کو استعمال کرنے والے ہر شہری کے ذہن میں ہیں لیکن جواب کون دے گا۔ یہ کسی کو معلوم نہیں! تمام راستے جگہ جگہ ٹریفک جام ملا۔

ٹریفک پھنسنے کی وجہ، ٹریفک اہل کاروں کی کمی کے علاوہ، شہریوں میں اس شعور کی بھی کمی ہے۔ گاڑی کیسے چلائیں کہ کسی دوسرے کو تکلیف نہ ہو۔ ہر پل کے آغاز میں اور اختتام پر شہری بس اور منی بس کے انتظار میں کھڑے ہوتے ہیں۔ متعین بس سٹاپ پر کھڑے ہونا، شہری اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ٹیکسی اور رکشے والے جہاں چاہیں، اپنے خالی رکشے اور ٹیکسی لیے سڑک پر کھڑے ہوتے ہیں۔ کوئی ان قانون توڑنے والوں سے پوچھنے والا نہیں ہے۔ کون قانون پر عمل درآمد کروائے گا؟ انتظامیہ کہاں ہے؟

ان سوالات کا جواب کون دے گا؟ یہ بھی معلوم نہیں!

تقریبا ًدو گھنٹے بعد بازار پہنچے۔ خریدار ی میں مگن تھے اور کافی ساری کر بھی چکے تھے کہ ایک لڑکا ہانپتا کانپتا دکان میں داخل ہوا اور کہا، بھائی جان دکان جلدی سے بند کریں۔ اورنگی ٹاون میں ہنگامہ ہورہا ہے اور پولیس کی فائرنگ سے ایک بزرگ شہری ہلاک ہوگیا ہے۔ لوگ مشتعل ہیں اور جلوس کی شکل میں بازار کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ہم نے بھی جلدی سے سارا سامان سمیٹا اور گھر کی راہ لی۔ واپسی میں بھی سڑکوں اور ٹریفک کی صورتحال ابتر ہی ملی۔ جب ملیر کے پاس پہنچے تولوگ اپنی اپنی گاڑیاں گھبراہٹ کے عالم میں موڑ کر ملیر کورٹ کی بغل والی گلی میں جارہے تھے۔ ہم بھی اسی راہ ہولیے۔ ایک سپیڈ بریکر پر، جب گاڑی کی رفتار مدھم تھی۔ ہم نے برابر والی گاڑی میں سوار ایک شخص سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ ٹریفک یہاں سے کیوں جارہا ہے؟ تو وہ صاحب بولے نامعلوم افرادکی فائرنگ سے ٹریفک کانسٹیبل جاں بحق ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹریفک اس جانب موڑ دیا گیا۔

خیر سے ہم گھر تو پہنچ گئے۔ لیکن تما م راستے یہی سوچتے آئے کہ کراچی کے شہری عرصہ دراز سے بریکنگ نیوز میں یہی سنتے آرہے ہیں کہ نامعلوم افراد نے یہاں فائرنگ کردی، وہاں فائرنگ کردی اور اتنے نامعلوم افراد مارے گئے۔ جب سے بریکنگ نیوز کی روایت پڑی ہے۔ شہری ’نامعلوم افراد‘ لفظ سے ایسے آشنا ہوگئے ہیں کہ سوچنے لگے ہیں کہ نامعلوم افراد کی طرح صوبے کی حکومت اور انتظامیہ بھی نامعلوم اور لاپتا ہے۔ شہر میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر پڑے ہیں۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ اسی لیے شہر میں نامعلوم وجوہ سے ٹریفک جام رہتا ہے اور نامعلوم افراد کی وجہ سے شہر کا امن خطرے میں رہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).