پنڈت نہرو اور قائد اعظم جناح کے نام ایک طوائف کا خط


مجھے امید ہے کہ اس سے پہلے آپ کو کسی طوائف کا خط نہ ملا ہو گا۔ یہ بھی امید کرتی ہوں کہ آج تک آپ نے میری اور اس قماش کی دوسری عورتوں کی صورت بھی نہ دیکھی ہو گی۔ یہ بھی جانتی ہوں کہ آپ کو میرا یہ خط لکھنا کس قدر معیوب ہے اور وہ بھی ایسا کھلا خط مگر کیا کروں حالات کچھ ایسے ہیں اور ان دونوں لڑکیوں کا تقاضا اتنا شدید ہے کہ میں یہ خط لکھے بغیر نہیں رہ سکتی۔ یہ خط میں نہیں لکھ رہی ہوں، یہ خط مجھ سے بیلا اور بتول لکھوا رہی ہیں، میں صدق دل سے معافی چاہتی ہوں، اگر میرے خط میں کوئی فقرہ ناگوار گزرے اسے میری مجبوری پر محمول کیجئے گا۔

بیلا اور بتول مجھ سے یہ خط کیوں لکھوا رہی ہیں؟ یہ دونوں لڑکیاں کون ہیں اور ان کا تقاضا اتنا شدید کیوں ہے؟ یہ سب کچھ بتانے سے پہلے میں آپ کو اپنے بارے میں کچھ بتانا چاہتی ہوں، گھبرایئے نہیں۔ میں آپ کو اپنی گھناؤنی زندگی کی تاریخ سے آگاہ نہیں کرنا چاہتی۔ میں یہ بھی نہیں بتاؤں گی کہ میں کب اور کن حالات میں طوائف بنی۔ میں کسی شریفانہ جذبے کا سہارا لے کر آپ سے کسی جھوٹے رحم کی درخواست کرنے نہیں آئی ہوں۔

میں آپ کے درد مند دل کو پہچان کر اپنی صفائی میں جھوٹا افسانہ محبت نہیں گھڑناچاہتی۔ اس خط کے لکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو طوائفیت کے اسرار و رموز سے آگاہ کروں مجھے اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہناہے۔ میں صرف اپنے متعلق چند ایسی باتیں بتانا چاہتی ہوں جن کا آگے چل کر بیلا اور بتول کی زندگی پر اثر پڑ سکتا ہے۔

آپ لوگ کئی بار بمبئی آئے ہوں گے جناح صاحب نے بمبئی کو تو بہت دیکھا ہوگا مگر آپ نے ہمارا بازار کاہے کو دیکھا ہو گا۔ جس بازار میں میں رہتی ہوں وہ فارس روڈ کہلاتا ہے۔ فارس روڈ، گرانٹ روڈ اور مدن پورہ کے بیچ میں واقع ہے۔ گرانٹ روڈ کے اس پار لمنگٹم روڈ اور اوپر ہاؤس اور چوپاٹی میرین ڈرائیور اور ٖفورٹ کے علاقے ہیں جہاں بمبئی کے شرفارہتے ہیں۔ مدن پورہ میں اس طرف غریبوں کی بستی ہے۔ فارس روڈ ان دونوں کے بیچ میں ہے تاکہ امیر اور غریب اس سے یکساں مستفید ہو سکیں۔

گو فارس روڈ پھر بھی مدن پورہ کے زیادہ قریب ہے کیونکہ ناداری میں اور طوائفیت میں ہمیشہ بہت کم فاصلہ رہتاہے۔ یہ بازار بہت خوبصورت نہیں ہے، اس کے مکین بھی خوبصورت نہیں ہیں اس کے بیچوں بیچ ٹرام کی گڑگڑاہٹ شب وروز جاری رہتی ہے۔ جہاں بھر کے آوارہ کتے اور لونڈے اور شہدے اور بے کار اور جرائم پیشہ مخلوق اس کی گلیوں کا طواف کرتی نظر آتی ہے۔ لنگڑے، لولے، اوباش، مدقوق تماش بین، آتشک و سوزاک کے مارے ہوئے کانے، گنجے، کوکین باز اور جیب کترے اس بازار میں سینہ تان کر چلتے ہیں۔

غلیظ ہوٹل، سیلے ہوئے فٹ پاتھ، کچر ے کہ ڈھیروں پر بھنبھناتی ہوئی لاکھوں مکھیاں، لکڑیوں اور کوئلوں کے افسردہ گودام، پیشہ ور دلال اور باسی ہار بیچنے والے کوک شاتر اور ننگی تصویروں کے دکان دار چینی حجام اور اسلامی حجام اور لنگوٹے کس کر گالیاں بکنے والے پہلوان، ہماری سماجی زندگی کا سارا کوڑاکرکٹ آپ کو فارس روڈ پر ملتا ہے۔ ظاہر ہے آپ یہاں کیوں آئیں گے۔ کوئی شریف آدمی ادھر کا رخ نہیں کرتا، شریف آدمی جتنے ہیں وہ گرانٹ روڈ کے اس پار رہتے ہیں اور جو بہت ہی شریف ہیں۔

وہ ملبار ہل پر قیام کرتے ہیں۔ میں ایک بار جناح صاحب کی کوٹھی کے سامنے سے گزری تھی اور وہاں میں نے جھک کر سلام بھی کیا تھا بتول بھی میرے ساتھ تھی۔ بتول کو آپ سے (جناح صاحب) جس قدر عقیدت ہے اس کو میں کبھی ٹھیک طرح سے بیان نہ کر سکوں گی۔ خدا اور رسول کے بعد دنیا میں اگر وہ کسی کو چاہتی ہے تو وہ صرف آپ ہیں۔ اس نے آپ کو تصویر لاکٹ میں لگا کر اپنے سینے سے لگا رکھا ہے۔ کسی بری نیت سے نہیں۔ بتول کی عمر ابھی 11 سال ہے، چھوٹی سی لڑکی ہی تو ہے وہ۔ گو فارس روڈ والے ابھی سے اس کے متعلق برے برے ارادے کر رہے ہیں مگر خیر وہ پھر کبھی آپ کو بتاؤں گی۔

تو یہ ہے فارس روڈ جہاں میں رہتی ہوں، فارس روڈ کے مغربی سرے پر جہاں چینی حجام کی دکان ہے اس کے قریب ایک اندھیری گلی کے موڑ پر میری دکان ہے۔ لوگ تو اسے دکان نہیں کہتے مگر خیر آپ دانا آدمی ہیں آپ سے کیا چھپاؤں گی۔ یہی کہوں گی وہاں پر میری دکان ہے اور وہاں پر میں اس طرح بیوپار کرتی ہو ں جس طرح بنیا، سبزی والا، پھل والا، ہوٹل والا، موٹر والا، سینیماوالا، کپڑے والا یا کوئی او ر دکاندار بیوپار کرتا ہے اور ہر بیوپار میں گاہک کو خوش کرنے کے علاوہ اپنے فائدہ کا بھی سوچتا ہے۔

میرا بیوپار بھی اسی طرح کا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ میں بلیک مارکیٹ نہیں کرتی اور مجھ میں اور دوسرے بیوپاریوں میں کوئی فرق نہیں۔ یہ دکان اچھی جگہ پر واقع نہیں ہے۔ یہاں رات تو کجا دن کو بھی لوگ ٹھوکر کھا جاتے ہیں۔ اس اندھیری گلی میں لوگ اپنی جیبیں خالی کر کے جاتے ہیں۔ شراب پی کر جاتے ہیں جہاں بھر کی گالیاں بکتے ہیں۔ یہاں بات بات پر چھرا زنی ہوتی ہے۔ دو ایک خون دوسرے تیسرے روز ہوتے رہتے ہیں۔ غرض یہ کہ ہر وقت جان ضیق میں رہتی ہے اور پھر میں کوئی اچھی طوائف نہیں ہوں کہ پون جا کے رہوں یاورلی پر سمندر کے کنارے ایک کوٹھی لے سکوں۔

میں ایک بہت ہی معمولی درجے کی طوائف ہوں اور اگر میں نے سارا ہندوستان دیکھا ہے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے اور ہر طرح کے لوگوں کی صحبت میں بیٹھی ہوں لیکن اب دس سال سے اسی شہر بمبئی میں، اسی فارس روڈ پر، اسی دکان میں بیٹھی ہوں اور اب تو مجھے اس دکان کی پگڑی بھی چھ ہزار روپے تک ملتی ہے۔ حالانکہ یہ جگہ کوئی اتنی اچھی نہیں۔ فضا متعفن ہے کیچڑ چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے، گندگی کے انبار لگے ہوئے ہیں اور خارش زدہ کتے گھبرائے ہوئے گاہکوں کی طرف کاٹ کھانے کو لپکتے ہیں پھر بھی اس جگہ کی پگڑی مجھے چھ ہزار روپے تک ملتی ہے۔

اس جگہ میری دکان ایک منزلہ مکان میں ہے۔ اس کے دو کمرے ہیں سامنے کا کمرہ میری بیٹھک ہے۔ یہاں میں گاتی ہوں، ناچتی ہوں گاہکوں کو کو رجھاتی ہوں پیچھے کا کمرہ باورچی خانے، غسل خانے اور سونے کے کمرے کا کام دیتا ہے۔ یہاں ایک طرف نل ہے ایک طرف ہنڈیا ہے اور ایک طرف ایک بڑا سا پلنگ ہے اور اس کے نیچے ایک اور چھوٹا سا پلنگ ہے۔ اس کے نیچے میرے کپڑوں کے صندوق ہیں۔ باہر والے کمرے میں بجلی کی روشنی ہے لیکن اندر والے کمرے میں بالکل اندھیرا ہے۔

مالک مکان نے برسوں سے قلعی نہیں کرائی نہ وہ کرائے گا۔ اتنی فرصت کسے ہے میں تو رات بھر ناچتی ہوں گاتی ہوں اور دن کو وہی گاؤ تکیے پر سر ٹیک کر سو جاتی ہوں، بیلا اور بتول کو پیچھے کا کمرہ دے رکھا ہے۔ اکثر گاہک جب ادھر منہ دھونے کے لیے جاتے ہیں تو بیلا اور بتول پھٹی پھٹی نگاہوں سے انہیں دیکھنے لگ جاتی ہیں جو کچھ ان کی نگاہیں کہتی ہیں میرا یہ خط بھی وہی کہتا ہے۔ اگر وہ میرے پاس اس وقت نہ ہوتیں تو یہ گنہگار بندی آپ کی خدمت میں یہ گستاخی نہ کرتی۔

جانتی ہوں دنیا مجھ پر تھو تھو کرے گی، جانتی ہوں شاید آپ تک میرا یہ خط بھی نہ پہنچے گا۔ پھر بھی مجبور ہوں یہ خط لکھ کے رہوں گی کیونکہ بیلا اور بتول کی مرضی یہی ہے۔ شاید آپ قیاس کر رہے ہوں کے بیلا اور بتول میری لڑکیاں ہیں۔ نہیں یہ غلط ہے میری کوئی لڑکی نہیں ہے ان دونوں لڑکیوں کو میں نے بازار سے خریدا ہے۔ جن دنوں ہندومسلم فساد زوروں پر تھا، گرانٹ روڈ، فارس روڈ اور مدن پورہ پر انسانی خون پانی کی طرح بہایا جا رہا تھا۔

ان دنوں میں نے بیلا کو ایک مسلمان دلال سے تین سو روپے کے عوض خریدا تھا۔ یہ مسلمان دلال اس لڑکی کر دہلی سے لایا تھاجہاں بیلا کے ماں باپ رہتے تھے۔ بیلا کے ماں باپ راولپنڈی میں راجہ بازار کے عقب میں پونچھ ہاؤس کے سامنے کی گلی میں رہتے تھے۔ متوسط طبقے کا گھرانہ تھا، شرافت اور سادگی گھٹی میں پڑی تھی۔ بیلا اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی اور جب راولپنڈی میں مسلمانوں نے ہندوؤں کو تہ تیغ کرنا شروع کیا اس وقت بیلا چوتھی جماعت میں پڑھتی تھی۔

یہ بارہ جولائی کا واقعہ ہے بیلا اپنے سکول سے پڑھ کر گھر آرہی تھی کہ اس نے اپنے گھر کے سامنے اور دوسرے ہندوؤں کے گھروں کے سامنے ایک جم غفیر دیکھا۔ یہ لوگ مسلح تھے اور گھروں کو آگ لگا رہے تھے۔ لوگوں کو، ان کے بچوں کو، ان کی عورتوں کو گھروں سے باہر نکال کرانہیں قتل کر رہے تھے۔ ساتھ ساتھ اللہ اکبر کا نعرہ بھی بلند کرتے جاتے تھے۔ بیلا نے اپنی آنکھوں سے اپنے باپ کو قتل ہوتے ہوئے دیکھا۔ پھر اس نے اپنی آنکھوں سے اپنی ماں کو دم توڑتے ہوئے دیکھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments