ڈاکٹر قلندر محمود کی روحانی سائنس


 صاحب ہماری کیا پوچھتے ہیں۔ ربع صدی پہلے قدرت اللہ شہاب کے انتقال پرملال کے بعد سے ہم ادھر پچھاڑیں کھا رہے ہیں ، قوم ادھر پٹخنیاں کھا رہی ہے۔ بابا نائٹی (90) عرف نوے سالہ نوجوان ایک مدت سے مفقود الخبر ہیں۔ معلوم نہیں اب ایوان صدر یا جہاں بھی اس ملک کی تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں وہاں تک امریکا کے ایوان ابیض کا منشا پراسرار طور پر اڑتے کاغذ کے پرزوں کی صورت کون پہنچاتا ہے۔ دادو لوہار بھی پرلوک سدھارے۔ اب ہمیں سرزمین پاک پہ الٹے سیدھے جملوں کی مدد سے کائنات کے اسرار اور سیاست کے رموز سمجھانے والے مخبوط الحواس بابوں کی خبر کون دے۔ بٹالہ کے کٹرہ مفتیاں کا ممتاز سپوت (سکنہ علی پور ثم الکھ نگری) بھی ایک مدت سے بینکٹھ میں نوخیز دیو داسیوں کو فرائیڈ کے نکتہ ہائے دقیق سمجھا رہا ہے ۔ اب ہمیں ستاروں کی زبانی آسمانی بندوبست کا منشا کیسے معلوم ہو؟

اقبال نے تو کہا تھا ’ستارا کیا مری تقدیر کی خبر دے گا؟‘ لیکن صاحب اقبال کی سند نہیں۔ یہ بات طے ہے کہ ہمیں بانگ درا اور مطالعہ پاکستان (مرتبہ تنظیم اساتذہ ) سے پرے اقبال تسلیم نہیں، بال جبریل سزا وار انکار اور ضرب کلیم مضروبہ  سرکار ہے۔ اور رہے اقبال کے خطبات تو نرے سوختنی ہیں۔ ’ہمیں تو ایک بیضہ مور آسماں ہے‘۔ ہمیں اتنا ہی اقبال قبول ہے جو خودکاشتہ نظریہ پاکستان کی تنگنائے میں سما سکے۔ نظریاتی اصابت کے جس کاخ بلند پہ اقبال کو بار نہیں، وہاں امرتسر کے اس درویش ظہیر کاشمیری کا کیا مذکور جس نے لکھا تھا ”آسمانوں میں اندھیروں کے سوا کچھ بھی نہیں“۔

خیر گزری کہ افلاک سے نالوں کا جواب آیا۔ ایک موقر ترین وزیرآبادی روزنامے میں ڈاکٹر قلندر محمود کا بصیرت افروز کالم بعنوان ”ذکر آسمانی باتوں کا“ نظرنواز ہوا۔ ڈاکٹر قلندر محمود اقلیم پاکستان میں اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ لباس، رجحان طبع اور علمی اشغال میں افرنگی میلان پایا جاتا ہے۔ البتہ جادہ خیال کا رخ پہل قدمی کی بجائے عقب پیما اور رجعت پسند رہا کہ سرزمیں پاک میں دنیوی ترقی کے دروازے اسی اسم اعظم سے کھلتے ہیں۔ اسی مشق لاحاصل میں ریاضت کا حق ادا کر دیا۔ اور حق تو یہ ہے کہ ڈاکٹر قلندر محمود کے مقدر کا ستارہ ہمیشہ آمریت اور آمریت کے حاشیہ نشینوں کے ادوار میں چمکا۔ ڈاکٹر موصوف نے مذکورہ کالم میں ایک چھوڑ، دو، دو عارفین زماں، سالکین جادہ  فنا کی زبانی وطن عزیز کے مستقبل کے بارے میں بد خبریوں کی لین ڈوری باندھ دی ہے۔ البتہ انوار کی ان پڑیوں کے نام بیان کرنے کی زحمت نہیں کی جیسے ’ہدایت نامہ خاوند‘ کے مصنف پوری کتاب میں اس امر لذیذ کا ذکر نہیں کرتے تھے جو شائقین کی بے آب و گیاہ آنکھوں کو تراوت بخشتا۔

ہم نے لاہور میں روحانیات کے پروفیسر امریطس خواجہ بوجھم سے دریافت کیا۔ محکمہ معلومات باطنیہ کے قدیمی شناور ہیں۔ قریہ لاہور کے صحافیوں نیز مذہب پسند طالب علموں میں قطعہ ہائے اراضی اور سکہ رائج الوقت کی تقسیم کی روایت آپ ہی کے مبارک ہاتھوں سے صدور ہوئی۔ انہوں نے آسمان کی طرف انگشت شہادت سے اشارہ کیا اور پھر ایک تین سو برس پرانی نامحرم باکرہ کھوپڑی پر ہاتھ رکھ کے راز دار لہجے میں انکشاف کیا کہ کینیڈا والے صاحب عرفان بھی ڈاکٹر قلندر محمود ہیں اور لاہور والے شاہ صاحب بھی حسنِ اتفاق سے ڈاکٹر قلندر محمود ہی ہیں بلکہ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے درجات بلند کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ مسلم لیگ کی تاریخ اور نظریہ پاکستان پر ڈیڑھ درجن کتابوں کے مصنف بھی ڈاکٹر قلندر محمود بنفس نفیس خود ہی ہیں۔ اس کی شہادت میں انہوں نے پنجاب کے ایک معروف دانشور کا اسم گرامی پیش کیا۔ ہم نے خواجہ بوجھم کے ہاتھ چوم لیے اور عرض کیا کہ آپ جیسے غواصِ روحانیت کے ہوتے ہمیں مزید تصدیق کی کیا ضرورت ہے۔

اپنے ممدوحین کے ملفوظات سے قارئین کو آگاہ کر نے سے پہلے ڈاکٹر صاحب نے ایک اچھے انشا پرداز کی طرح قیاس آرائی کے علم دریاﺅ پر روشنی ڈالی ہے ۔ ’اے روشنی ¿ طبع، تو بر من بلا شدی‘۔ فرمایا ڈاکٹر قلندر محمود نے کہ ’علم نجوم ایک مکمل سائنس ہے‘۔ خیر گزری کہ اردو کی عالمی خواندگی کا دائرہ کچھ ایسا وسیع نہیں ورنہ اہل اردو اور پاکستان کی بہت بھد اڑتی۔ سائنس تو علت و معلول کی قابل تصدیق دریافت کے ایک معروضی علمی منہاج کا نام ہے جو ایسا شفاف ہے کہ چھوٹا، بڑا، کالا، گورا، روسی، امریکی، مصری، ویت نامی جو چاہے اپنی تجربہ گاہ میں سائنسی بیان کی تصدیق کر لے۔ ادھر ڈاکٹر قلندر محمود کی مزعومہ سائنس کا یہ حال ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو اس ’سائنس‘ کے عاملین کے نام بتانے میں بھی عار ہے۔ اور انہیں خود یقین نہیں کہ ان کے ممدوحین کے بیانات کا منبع علم نجوم ہے یا روحانی القا۔ ڈاکٹر موصوف خود شرما شرما کر بیان کرتے ہیں کہ ان اصحاب کے بیانات کبھی درست نکلتے ہیں تو کبھی نہیں۔ ’سائنس‘ نہ ہوئی ’معنی شعر فی بطن شاعر‘ کا مضمون ہو گیا۔ صاحب اگر زمین پہ جملہ اچھی بری تبدیلیاں آفاق کی وسعتوں میں پریشاں ستاروں کی نقل و حرکت کے تابع ہیں تو انسانی سعی اور تفکر کی کیا ضرورت ہے۔ ایک گرد آلود دوربین آنکھوں پہ رکھے ستاروں کی چال دیکھتے رہیے۔ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ، گھبرائیں کیا ؟

کوئی پان سو برس پہلے پندرہویں صدی میں ارباب علم نے علم نجوم کو رد کر کے علم ہیئت کا دامن تھام لیا تھا۔ علم نجوم جہالت اور علم ہیئت سائنس قرا رپایا تھا۔ قبلہ ڈاکٹر قلندر محمود کبھی بسم اللہ کے گنبد بے در سے باہر قدم رنجہ فرمائیں تو انہیں علم ہو کہ زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔ لیکن صاحب علمی آفاق کی باد پیمائی کریں ڈاکٹر قلندر محمود کے دشمن۔ ان کا مقصد علمی تحقیق تو ہے نہیں۔ ان کا منشا تو عوام کو گمراہ کرنا ہے ۔ ان کے نیم خواندہ ذہنوں میں اپنی نیم پختہ سیاسی آرزوﺅں کا تخم بونا ہے ۔

ڈاکٹر قلندر محمود فرماتے ہیں کہ ’نجوم کی سائنس کے ماہرین بہت کم ہیں‘۔ صاحب یہ تو آپ کے علمی منہاج کا المیہ ہے۔ آپ کی طب عقیم ، آپ کا علم نجوم سقیم۔ آپ تو صاحب رسوخ ہیں۔ کچھ ایسی تگڈم لڑائیے کہ ملک کی جملہ یونیورسٹیوں میں اسی ’سائنس‘ کی تعلیم کی جائے۔ کیونکہ ڈاکٹر قلندر محمود کی مرتبہ تاریخ پڑھنے والے تو کم بخت ڈھنگ کے نجومی بھی نہیں۔ سچ پوچھیے تو ہمارے نزدیک ڈاکٹر قلندر محمود نے وہ کتابیں تاریخ ندامت کی، وہ دفتر جہل مرکب کے اسی لیے تصنیف کیے تھے کہ ان کے پڑھنے سے ایسا ذہن تشکیل پا جائے جسے سیاست کے نام پر کہ مکرنیاں سنا کے کینیڈا کے مہربان اور لاہور کے شاہ جی (مزید) اُلّو بنا سکیں ۔

ڈاکٹر قلندر محمود فرماتے ہیں کہ ”بدقسمتی سے یہ علم (نجوم) دکانداروں کے ہتھے چڑھ گیا ہے“ ۔ لاحول ولا …. دکانداروں پہ ایسا بہتان۔ صاحب اُ ٓپ کے خداوندانِ سیاست کا تو کاروبار ہی طبقہ تجار سے بندھا ہے۔ متشرع اور متدین دکاندار جو پاکستان کی دارالحرب ریاست کو ٹیکس نہیں دیتے ، البتہ قبول صورت بیواﺅں کو جنت کا بیعنامہ اور کر یہہ الصوت ملاﺅں کو قتل خلق کی سپاری دینا عین اسلامی سمجھتے ہیں۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).