قونیہ میں واردات اور نجات


ان دنوں مغرب میں رومی کا بہت چرچا ہے۔ علاوہ ازیں جرائم اور جاسوسی پر مبنی ناول بھی حد سے زیادہ مقبول ہیں۔ انھیں باتوں کو مدنظر رکھ کر ترکی کے احمت امیت (احمد امید) کو شاید یہ سوجھی ہوگی کہ ان دونوں، بظاہر متضاد، رویوں کو ملا جلا کر ناول کیوں نہ لکھا جائے ۔ تشدد کی گنجائش رومی کے احوال میں بھی نکل آئے گی کیوں کہ ایک روایت یہ ہے کہ رومی کی شمس سے روز افزوں یگانگت اور ہم دمی کو رومی کے بعض عقیدت مندوں نے پسند نہیں کیا اور شمس کو مار ڈالا۔ حقیقت جو بھی سہی، شمس کی گم شدگی راز ہی رہے گی۔

احمت امیت، جو 1960ءمیں پیدا ہوے، کوئی پندرہ سال ترکی کی کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم رکن رہے۔ 1990ء کے بعد اشتراکیت سے ان کی وابستگی کم زور پڑ گئی اور وہ جمہوری اقدار کے علم بردار بن گئے۔ بہت سے پرانے اشتراکی اب سرمایہ داری کی پشت پناہی کرنے والی مغربی جمہوریت کے قائل نظر آتے ہیں۔ اس تبدیلی کی تسلی بخش وضاحت وہ خود ہی کر سکتے ہیں۔

احمت امیت نے نظمیں اور افسانے لکھے ہیں۔ ان کے چھ ناول بھی شائع ہو چکے ہیں۔ ”بابِ اسرار“ غالباً ان کی پہلی تحریر ہے جس کا اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ غالباً اس لیے کہنا پڑا کہ ممکن ہے ان کا کوئی افسانہ اردو میں ترجمہ ہو چکا ہو اور تبصرہ نگار کو اس کا علم نہ ہو۔

ناول کی مرکزی کردار گرین وڈ (جس کا پورا نام کیرن کیمیا گرین وڈ ہے) انگلستان سے قونیہ آئی ہے۔ وہ ایک انشورنس کمپنی سے متعلق ہے۔ قونیہ میں واقع ایک ہوٹل آگ لگنے سے تباہ ہو گیا تھا۔ ہوٹل کی انشورنس ہو چکی تھی اور ہوٹل کا مالک تین ملین پاﺅنڈ کا مطالبہ کر رہا تھا۔ انگلستان سے آنے والی خاتون یہ معلوم کرنے آئی تھی کہ آگ حادثاتی طور پر لگی تھی یا انشورنس کمپنی کو ٹھگنے کے لیے لگائی گئی تھی۔ اگر ہوٹل کو نذرِ آتش کرنے کا عمل کسی دیدہ و دانستہ منصوبے کا نتیجہ ہوا تو انشورنس کمپنی رقم کی ادائیگی سے بچ جائے گی۔ اس بات کا ناقابلِ تردید ثبوت حاصل کرنا کہ آتش زدگی میں بدنیتی کا دخل تھا آسان کام نہ تھا۔

تاہم، یہ کہنا پڑے گا کہ اس تفتیش کی حیثیت ناول میں ثانوی ہے۔ گرین وڈ کی ماں انگریز اور باپ ترک ہے۔ باپ مدت پہلے اپنی بیوی اور بیٹی کو چھوڑ کر اپنے ایک پاکستانی روحانی دوست یا ہم راز کے ساتھ غائب ہو چکا ہے۔ درویش سلسلے سے وابستگی کے بعد اس طرح کی گم شدگی یا قطع تعلق عجیب تو نہیں لیکن قدرے ظالمانہ نظر آتا ہے۔

قونیہ میں قدم رکھتے ہی گرین وڈ عجیب و غریب واقعات سے دوچار ہوئی۔ ایک ناقابلِ یقین انداز میں اسے شمس کے روحانی وجود کے ذریعے سے تحفظ حاصل ہو گیا۔ آخر میں یہ تقریباً واضح ہو چلا کہ آگ جان بوجھ کر لگائی گئی تھی۔ مجرم گرین وڈ کو مار ڈالنے کے لیے اغوا کر لیتا ہے۔ نومیدی کے عالم میں شمس پھر نمودار ہوتے ہیں اور گرین وڈ کو بچا لیتے ہیں۔

ناول کو مختصر کیا جا سکتا تھا۔ خاص طور پر گرین وڈ کی انگلستان میں اپنے شوہر اور اپنی ماں سے بار بار ٹیلی فونی گفتگو غیر ضروری طور پر طویل ہے اور ناول کی تفہیم میں یا بیانیے کی روانی کو برقرار رکھنے میں ممد ثابت نہیں ہوتی۔ ناول میں پراسراریت کی فضا کچھ زیادہ ہی بوجھل ہو گئی ہے۔ کتنے ہی واقعات ناول کے فریم میں ٹھیک نہیں بیٹھتے۔ معاملات پوری طرح سمجھ میں نہیں آتے؛ گو یہ لازمی نہیں کہ کسی ناول میں ہونے والے واقعات کی منطقی توجیہہ کی جا سکے۔ آخر میں گرین وڈ سوچتی ہے: ”مجھے واقعی معلوم نہ تھا کہ وہ سب کچھ جو میرے ساتھ بیتا تھا ڈراﺅنے خوابوں کا جال اور دھوکا تھا یا ایک حقیقت۔ میں اب مزید یہ شناخت نہیں کر سکتی تھی کہ تخیل کہاں ختم ہوتا ہے اور اصل زندگی کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ کیا شمس میرے سامنے مادی وجود میں ظاہر ہوتا تھا یا روحانی طور پر؟ کیا واقعی میری ملاقات بابا سے ہوئی تھی اور میں نے انھیں معاف کر دیا تھا؟ مجھے اب کسی چیز پر کوئی یقین نہ رہا تھا لیکن عجیب بات یہ تھی کہ اب یہ مجھے تنگ نہیں کر رہا تھا۔ میں نے اپنے باطن میں ایک گھمبیر سکون، ایک مکمل سرور محسوس کیا۔“ اس نے تسلیم کیا کہ سرور لاعلمی کے باعث اور سکون فہم کی کمی کی وجہ سے تھا۔ یہی شاید ناول کا مرکزی نکتہ ہے۔ دنیا کی ہر بات کو سمجھنا ضروری نہیں اور نہ سمجھا جا سکتا ہے۔

ترجمہ ترکی سے براہِ راست نہیں کیا گیا۔ ناول کے انگریزی ترجمے کو سامنے رکھا گیا ہے۔ محمد شفیق اس میدان میں نووارد ہیں۔ اس سے پہلے انھوں نے کسی ناول کو انگریزی سے اردو میں منتقل نہیں کیا۔ نو مشقی کے باوجود وہ اچھا بھلا ترجمہ کرنے میں کام یاب رہے ہیں۔ چند ایک غلطیاں کہیں کہیں نظر آتی ہیں جنھیں نظرِ ثانی کے بعد آسانی سے ٹھیک کیا جا سکتا تھا۔ شاید اس کا موقع نہیں مل سکا۔

بابِ اسرار از احمت امیت

ناشر: جمہوری پبلی کیشنز، لاہور

صفحات، 415 ؛ 980 روپیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).