’’آپریشن ردالفساد‘‘ اور دہشت گردی


(حسین جاوید افروز)۔

وطن عزیز آج کل ایک بار دہشتگردانہ حملوں کی زد میں ہے۔ گزشتہ ماہ مہمند ایجنسی، چارسدہ، سیہون شریف اور لاہور میں ہونے والے خود کش حملوں میں تقریباٰ سو سے زائد افراد جن میں پولیس حکام بھی شامل تھے جاں بحق ہوئے۔ دہشتگردوں کی جانب سے یہ بزدلانہ اقدامات ایک طویل عرصے بعد اٹھائے گئے جب ضرب عضب کے تحت ہونے والی کارروائیوں کے نتیجے میں ملک میں زندگی لوٹ آئی تھی اور ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ اب حالات پرامن ہوچکے ہیں۔ لیکن فروری کا مہینہ بلاشبہ خاصا بھاری ثابت ہوا لہذا اب مسلح افواج کی جانب سے آپریشن ردالفساد کا آغاز کیا جاچکا ہے تاکہ دہشتگردی کے عفریت کو لگام دی جائے۔ بلاشبہ آپریشن ردالفساد جنرل باجوہ کا ڈاکٹرائن ہے اور اس آپریشن کی کامیابی ریاستی رٹ کی برقراریت کے حوالے سے بے حد اہم ہے۔

دہشتگردی کی اس لہر کے پیچھے کئی محرکات کارفرما رہے ہیں۔ آئیے ان کا جائزہ لیتے ہیں۔ اگر تمام انٹیلی جنس رپورٹس کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو تمام انگلیاں افغانستان کی جانب اٹھتی ہیں۔ جہاں سے دہشتگرد سرحد عبور کرتے ہی مقامی سہولت کاروں کی اعانت سے اپنے ناپاک مشن کی تکمیل کے لئے کمر بستہ ہوجاتے ہیں۔ جس کے ہولناک نتائج ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان تمام سرگرمیوں کی بھنک ہماری ایجنسیوں کو نہیں تھی خصوصاٰ لاہور حملے کے متعلق نیکٹا نے پہلے ہی نشان دہی کر دی تھی۔ لیکن حکومت کی جانب سے ناکافی انتظامات نے فول پروف سیکورٹی کے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ لاہور حملے کے بعد صوبائی ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں فیصلہ لیا گیا کہ اب رینجرز پنجاب میں بھی آپریشنل کارروائیوں کا آغاز کریں گے تاکہ دہشتگردوں کی کمین گاہوں اور ان کے سہولت کاروں کا قلع قمع کیا جاسکے۔

بلاشبہ یہ ایک کٹھن کام ہے لیکن اس وقت معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے رینجرز کی خدمات حاصل کرنا ضروری ہوچکا ہے۔ پنجاب کے سرحدی اضلاع کی نگرانی کا فیصلہ بھی کیا جاچکا ہے۔ جبکہ دس اضلاع میں کومبنگ آپریشن بھی شروع ہوچکا ہے۔ انسداد دہشتگردی ایکٹ 97 کے تحت رینجرز کو اختیارات پنجاب میں دیے جا چکے ہیں۔ 2014 سے ہی نیشنل ایکشن پلان پر سول ملٹری قیادت یکسو ہوکر کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ آئیے اس پلان کے حوالے سے ہونے والی کارکردگی کا ایک جائزہ لیں۔ گزشتہ 26 ماہ کے عرصے میں ملک بھر میں سیکورٹی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک 5611 دہشتگرد گرفتار اور 1865 دہشتگرد جہنم واصل کیے گئے۔ ملک بھر میں کالعدم تنظیموں کے خلاف ایکشن لیا گیا اور پانچ تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی۔ ان تنظیموں کے 8309 سرگرم کارکنوں کو شیڈول 4 میں ڈالا گیا۔ ملک بھر میں 2052 مشتبہ افراد کی نقل و حرکت کو محدود کیا گیا ہے۔ کل 11 فوجی عدالتیں قائم کی گئیں اور ملک بھر سے190 کیسز ان میں منتقل کیے گئے۔ اور 414 مجرموں کو سزائے موت دی گئی۔ نفرت انگیز تقاریر کرنے کی پاداش 2465 افراد گرفتارکیے گئے اور لاؤڈ سپیکر کے غلط استعمال پر بھی 16709 افراد کو پابند سلاسل کیا گیا۔ دہشتگردی کی بیخ کنی کے لئے سپیشل ٹیر رازم فورس بھی قائم کی گئی ہے جو کہ 6038 اہلکاروں پر مشتمل ہے۔ جبکہ دہشت گردی کی معاونت کرنے کے شک میں سارے ملک میں 2327 مدارس بند کیے۔ علاوہ ازیں ضرب عضب کے نتیجے میں ہونے والی کامیابیاں اس کے علاوہ ہیں۔ لیکن پھر بھی یہ یورش کیوں برپا ہے؟

اس کا جواب ہمیں اپنے ہمسائے افغانستان سے ہی ملتا ہے جہاں ان تمام غیر ریاستی عناصروں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں جو ہمارے وطن کو آئے روز لہو لہان کرنے کی ناپاک جستجو لئے بیٹھے ہیں۔ پاکستان کو مطلوب بیشتر مفسد عناصر افغان صوبوں کنٹر اور ننگر ہار میں قیام پذیر ہیں۔ جن میں سانحہ آرمی پبلک سکول کا ذمہ دار فضل االلہ، منگل باغ، شہریار آفریدی اور احسان االلہ احسان شامل ہیں۔ بظاہر ان کو افغان انٹیلی جنس’’ این ڈی ایس‘‘ اور بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ’’ را ‘‘کی بھرپور معاونت اور سرپرستی میسر ہے۔ معاملہ ہتھیاروں کی سپلائی کا ہو یا مالی مدد کا، ان قاتلوں کو سب کچھ فی الفور فراہم کردیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے اس وقت پاک افغان تعلقات شدید تلخی کا شکار ہوچکے ہیں۔ جس کا بڑا مظاہرہ دسمبر میں امرتسر میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں ہوا۔ جب افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کی جانب سے دی جانے والی امداد کو حقارت سے ٹھکرا دیا۔ اور یہ پھبتی بھی کسی کہ پاکستان اسی رقم کو اپنے ہاں سے افغانستان میں دہشتگرد بھیجنے سے روکنے پر خرچ کرے۔

سیہون میں ہولناک دھماکے کے فوراٰ بعد آرمی چیف جنرل باجوہ نے افغان سفارتی عملے کو جی ایچ کیو طلب کیا اور انہیں پاکستان کو مطلوب 76 سے زائد دہشتگردوں کی فہرست فراہم کی۔ جو کہ افغانستان سے پاکستان میں کراس بارڈر ٹیررازم کے مرتکب قرار پائے گئے۔ افغانستان سے ملنی والی سرحد ڈیورنڈ لائن کو طور خم، غلام خان بارڈر اور چمن سے غیر معینہ مدت تک بند سیل کیا گیا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی اس وقت بھارت اور دوستم جیسے پاکستان دشمن اتحادیوں پر تکیہکیے بیٹھے ہیں۔ اشرف غنی کے مطابق پاکستان اب بھی افغان طالبان، حقانی نیٹ ورک پر گرفت رکھتا ہے اور طالبان افغانستان میں افغان سیکورٹی کے لئے ایک ہمالیائی چیلنج بنے بیٹھے ہیں۔ ہم نے حیدر گیلانی کو پاکستان کے حوالے کیا۔ کئی پاکستان دشمن عناصر کے خلاف کامیاب کارروائی بھی افغانستان میں کی۔ لیکن اسلام آباد طالبان کے حوالے سے ہمارے خدشات دور نہیں کرسکا۔

یہی وجہ ہے کہ اب اشرف غنی پاکستان کا سہارا لئے بغیر خود کو افغانستان میں مستحکم کرنے کی کوشش میں جٹ گئے ہیں۔ جس کا ثبوت حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کے ساتھکیے جانے والا معاہدہ بھی ہے۔ جس کے تحت حکمت یار اور ان کی تنظیم کو افغان معاشرے اور سیاست میں قبول کر لیاگیا ہے۔ افغان امور کے ماہر رحیم االلہ یوسف زئی کے مطابق بھارت اب افغانستان میں اپنی بھاری سرمایہ کاری کی بدولت اہم کھلاڑی بن چکا ہے۔ افغان انٹیلی جنس’’ این ڈی ایس‘‘ اور ’’ را ‘‘ کا گتھ جوڑ بھی پاکستان میں عدم استحکام کا سبب بن رہا ہے۔ علاوہ ازیں اس وقت افغان فوج کے محض 6 کیڈٹ، کاکول اکیڈمی میں زیر تربیت ہیں۔ جبکہ بھارتی ملٹری اکیڈمی میں افغان کیڈٹوں کی تعداد 1100 ہے۔

بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول، افغانستان میں بھارتی ایجنٹوں کے ہاتھوں کھلم کھلا اینٹی پاکستان عناصر کی سرپرستی کر رہے ہیں اور ان کا بنیادی فوکس بلوچستان اور کے پی میں دہشتگردی کو فروغ دینا ہے۔ جبکہ امریکہ جو پہلے تو 1980 کی دہائی میں مجاہدین کی سوویت یونین کے خلاف محاذآرائی میں کھل کر مدد کرتا رہا۔ مگر نائن الیون کے بعد کل کے اثاثے اب معتوب ٹھہرے۔ اس پالیسی اور اکتوبر 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے نے پاک افغان خطے کو ایک طویل بد امنی اور بے یقینی سے دوچار کیے رکھا ہے۔ اور اس کے اثرات اسلام آباد اور کابل آج تک بھگت رہے ہیں۔ اب امریکہ، وارسا میں ہونے والے نیٹو اجلاس کے بعد مزید دس سال تک کابل پر بدستور فوکس رکھنے کا فیصلہ کرچکا ہے۔ ساتھ ہی امریکہ کو پاک چین سی پیک منصوبہ بھی بری طرح کھٹک رہا ہے۔ جبکہ چین کے لئے افغانستان اور پاکستان میں امن اس کی اپنی انرجی ضروریات اور یغور علیحدگی پسندوں پر قابو پانے کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اسی طرح ایران بھی افغانستان میں نہایت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اور اسے طالبان اور افغان حکومت دونوں کا اعتماد حاصل ہورہا ہے۔

سیہون حملے کے بعد داعش فیکٹر بھی ریاست پاکستان کے لئے شدیدخطرہ بن کر ابھرا ہے۔ داعش کو اس وقت کالعدم ٹی ٹی پی خصوصاٰ پنجابی طالبان کی بطور سہولت کار حمایت بھی میسر آ رہی ہے۔ اور داعش دھیرے دھیرے افغانستان میں بھی اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس اور چین داعش کے خطرے کو بھانپتے ہوئے ہوشیاری سے اپنے پتے افغانستان میں کھیل رہے ہیں۔ جبکہ ملا عمر اور ملا منصور کے بعد افغان طالبان ملا ہیبت االلہ کی زیر قیادت اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تو ہیں۔ مگر درحقیقت ملا ہیبت االلہ کا فیلڈ کمانڈروں پر وہ کنٹرول نہیں ہے جو کہ ملا اختر منصور کے زمانے میں تھا۔ پہلی افغان جنگ کے بعد کئی ایسے جنگجو جو ازبک، تاجک النسل تھے وہ پاکستان کے قبائلی علاقے میں ہی بس گئے۔ ان کی تعداد 1997 کی ایک رپورٹ کے مطابق دس ہزار کے قریب تھی۔ لیکن اس وقت کی حکومت نے ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ یوں مسائل بڑھتے گئے اور انتہا پسندی پھیلتی گئی۔ اس پر ستم یہ کہ نائن الیون کے بعد بھی طالبان حکومت کے انہدام کے بعد افغانستان سے کئی جنگجوؤں نے شمالی وزیرستان کو ہی اپنا مسکن بنا لیا۔ یوں حکومتی اغلاط کے سبب دہشتگرد یہاں منظم ہوتے گئے جن کو غیر ملکی ہاتھ کی پشت پناہی بھی ملتی رہی۔

پاکستان اور افغانستان کو کچھ تلخ حقائق کو سمجھنا ہوگا کہ تمام تر مسائل اور اختلافات کے باوجود ان کو خطے میں ایک ٹیم کی طرح کام کرنا ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ حربی گہرائی کی بجائے دوستانہ گہرائی میں مل کر کام کیا جائے۔ تاکہ دونوں طرف سے شکایات کا ازالہ ہوسکے۔ حکومت پاکستان کو فوری طور پر وزیر خارجہ کا تقرر کرنا ہوگا جو کہ افغان امور پر دسترس رکھتا ہو۔ جبکہ افغان ٹرازٹ ٹریڈ کی پیچیدگیوں اور بارڈر منجمنٹ کو افغان حکومت کی مشاورت سے حل کرنا ہوگا۔ جبکہ افغان حکومت کو بھی بھارت کی مدد سے پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ کو لگام دینا ہو گی۔ پاکستانی میں افغان سفیر عمر زخیل وال کا یہ بیان کہ’’ پاکستان میں دہشتگردی جن افغان علاقوں سے کی جاتی ہے وہ ہمارے دائرہ کار سے باہر ہیں‘‘۔ اپنے آپ میں ایک غیر سنجیدہ روئیے کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس روئیے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ افغان مہاجرین کی پاکستان سے افغانستان واپسی کے عمل کو بھی دوستانہ فضا میں یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ داخلی محاذ پر’’ نیکٹا‘‘کی بطور ادارہ فعالیت اور فنڈز کی فراہمی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کیونکہ اگر نیکٹا کو توانا کیا جاتا ہے۔ تو یہی وہ پلیٹ فارم ثابت ہوگا جس سے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان تال میل اور روابط میں بہتری ہوگی اور دہشتگردی کے عفریت کا تدارک ہو سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).