ہم اپنی دھرتی ماں کی چاہت کیسے بیچیں؟


1854 میں جب امریکی حکومت نے سرخ فام انڈین قبائل کو ان کی زمینیں بیچنے کی دعوت دی تو سوکوامش SQUAMISH قبیلے کے سردار چیف سئیٹلCHIEF SEATTLE نے مندرجہ ذیل جواب بھیجا:
’ اے واشنگٹن کے سفید فام سردار ! ہمیں پیغام آیا ہے کہ تم ہماری زمینیں خریدنا چاہتے ہو۔ تم نے اپنی دوستی کا ہاتھ بھی بڑھایا ہے۔ یہ تمہاری مہربانی ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تمہیں ہماری دوستی کی بہت کم ضرورت ہے۔ ہم تمہاری دعوت پر غور کریں گے۔ ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ اگر ہم نے اپنی زمینیں نہ بیچیں تو تم اپنی بندوقیں لے کر آ جائو گے اور ان پر قبضہ کر لو گے۔
ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ ہم اپنے آسمان کی وسعت اور اپنی دھرتی ماں کی چاہت کیسے بیچیں؟ یہ خیال ہمارے لیے نیا ہے۔ اگر ہم خود بھی اپنی ہوا کی تازگی اور پانیوں کی لطافت کے مالک نہیں ہیں تو تم ہم سے وہ کیسے خرید سکتے ہو؟
ہماری دھرتی ماں ہمارے لیے مقدس ہے۔ اس کی گھاس کا ہر تنکا‘ اس کی ریت کا ہر ذرہ‘ اس کے جنگلوں کا ہر درخت اور اس کی فضائوں کا ہر پتنگا ہمارے لیے محترم ہے۔ جب درختوں کے پتے ہوائوں میں جھومتے ہیں تو ماضی کی سب یادیں‘ جو ہمارے ذہنوں میں محفوظ ہیں‘ تازہ ہو جاتی ہیں۔
سفید فام قوم کے مردے جب ستاروں کی سیر کرنے جاتے ہیں تو اپنی دھرتی کو بھول جاتے ہیں لیکن ہمارے بزرگ اسے یاد رکھتے ہیں کیونکہ وہ اسے اپنی ماں سمجھتے ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ ہم دھرتی ماں کا حصہ ہیں نہ کہ وہ ہماری ذات کا حصہ ہے۔ اس دھرتی کے خوشبودار پھول ہماری بہنیں ہیں۔ اس دھرتی کی چھاتی پر چلنے والے ہرن اور گھوڑے اور اس کی فضائوں میں اڑنے والے شہباز اور کبوتر ہمارے بھائی ہیں۔ ہم سب ایک ہی خاندان کا حصہ ہیں۔
اے واشنگٹن کے سردار ! تم نے جو ہماری دھرتی ماں کی چاہت اور خوشبو خریندے کا پیغام بھیجا ہے کیا تم جانتے ہو کہ تم کس چیز کا سودا کر رہے ہو؟ تم کہتے ہو کہ تم نے ہمارے لیے ایک علاقہ مخصوص RESERVE کر رکھا ہے تا کہ ہم آرام اور سکون کی زندگی بسر کر سکیں۔ تم چاہتے ہو کہ تم ہمارے باپ بن جائو اور ہم تمہارے بچے۔ ہم تمہاری دعوت پر غور کریں گے مگر یہ مرحلہ آسان نہ ہوگا کیونکہ ہم اپنی دھرتی ماں کا بہت احترام کرتے ہیں۔ ہماری ندیوں اور دریائوں میں جو پانی بہتا ہے وہ پانی نہیں ہے بلکہ ہمارے آبا و اجداد کا خون ہے۔ اگر ہم اپنی زمینیں بیچ دیں تو تمہیں اپنے بچوں کو یہ وصیت کرنی ہوگی کہ وہ ان کا احترام کریں۔ ہماری جھیلوں کے پانی کی شفاف سطح پر جو سائے لہراتے ہین وہ ہمارے بزرگوں کی یادوں کی پرچھائیاں ہیں اور ان کے پانی کی آواز ہمارے بزرگوں کی سرگوشیاں ہیں۔ ہماری دھرتی کے دریا ہمارے بھائی ہیں جو ہماری پیاس بجھاتے ہیں۔ یہ دریا ہماری کشتیوں کو سہارا دیتے ہیں اور ہمارے بچوں کی بھوک مٹاتے ہیں۔ اس لیے اگر تم نے یہ دریا خرید لیے تو تمہارے بچوں کو ان کا ایسا ہی خیال رکھنا ہوگا جیسے کوئی اپنے بھائی کا خیال رکھتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ماضی میں قبائلی لوگ سفید فام لوگوں کے آگے ایسے ہی پسپا ہوتے آئے ہیں جیسے سورج کی روشنی کے آگے پہاروں کی دھند پسپا ہوتی ہے۔ ہم ان زمینوں کا احترام کرتے ہیں کیونکہ ان میں ہمارے آبا و اجداد کی راکھ دفن ہے۔ ہمارے لیے ان کی قبریں‘ پہاڑ اور درخت سب محترم ہیں لیکن سفید فام انسان ہمارے نقطہِ نظر اور فلسفہِ حیات کو نہیں سمجھتے۔ ان کے لیے زمین کا ایک حصہ دوسرے حصے کی طرح ہے۔ وہ اس اجنبی کی طرح ہیں جو رات کی تاریکی میں آتا ہے اور زمین سے جو چاہے لے جاتا ہے۔ ہم اپنے آسمانوں کی وسعت اور اپنی دھرتی ماں کی چاہت کیسے بیچ سکتے ہی؟ یہ تصور ہمارے لیے بالکل نیا ہے۔
سفید فام انسان زمین کو اپنا دوست سمجھنے کی بجائے اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ وہ جب اسے فتح کر لیتا ہے تو آگے بڑھ جاتا ہے۔ وہ اپنے باپ دادا کی قبریں پیچھے چھوڑ جاتا ہے اور ان کا خیال نہیں رکھتا۔ وہ دھرتی ماں سے اس کے بچے چھین لیتا ہے۔ وہ اپنے بزرگوں اور اپنے بچوں کے بارے میں بالکل نہیں سوچتا۔ وہ زمین اور آسمان کو بھیڑ بکریوں اور لعل و جواہر کی طرح خریدتا اور بیچتا ہے۔ وہ اپنی بھوک اور لالچ کی وجہ سے سر سبز و شاداب کھیتوں کو صحرا میں بدل دیتا ہے۔
اے واشنگٹن کے سردار ! ہمارے اور تمہارے نقطہِ نظر اور طرزِ زندگی میں بہت فرق ہے۔ نہ ہم تمہیں سمجھ پائے اور نہ تم ہمیں۔ جب ہم تمہارے شہروں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں بہت دکھ ہوتا ہے۔ ان میں خاموشی کا فقدان ہے۔ وہاں اتنا شور ہوتا ہے کہ انسان بہار میں پتوں کے سرسرانے اور پتنگوں کے پھڑپھڑانے کی آوازیں نہیں سن پاتا۔ تمہارے شہروں کا شور ہمارے کانوں کو مجروح کرتا ہے۔ اگر انسان جانوروں کی کراہ یا تالاب کے گرد مینڈکوں کے مباحثے کو بھی نہ سن سکے تو اس کی زندگی کا کیا فائدہ؟ قبائلی لوگ جھیل کے رخساروں کو سہلاتی ہوا کے لمس اور بارش میں دھلے ہوئے پھولوں سے معطر فضا سے محظوظ ہونے کے عادی ہیں۔ ہمیں ہماری ہوا بہت عزیز ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ انسان‘ جانور اور درخت ایک ہی فضا میں سانس لیتے ہیں۔ سفید فام انسان اس ہوا کا خیال نہیں رکھتا جس میں وہ سانس لیتا ہے۔ اس کی کیفیت اس مرتے ہوئے انسان کی سی ہے جس کی ناک اپنے جسم کی بدبو اور تعفن سے بے حس ہو چکی ہو۔
اے سفید فام سردار ! اگر ہم نے یہ زمینیں بیچ دیں تو تمہیں ان ہوائوں کا خیال رکھنا ہوگا کیونکہ وہ ہمیں بہت عزیز رہی ہیں۔ یہ ہوائیں زندگی کا تحفط کرتی ہیں۔ ان ہوائوں نے ہمارے آباو اجداد کا پہلی سانس سے آخری سانس تک ساتھ دیا تھا۔ یہی ہوائیں ہمارے بچوں کو بھی زندگی دیں گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ ہوائیں تازہ اور معطر رہیں تا کہ سفید فام انسان بھی ان کی خوشبوئوں سے محظوظ ہو سکے۔ اگر ہم نے یہ زمینیں بیچنے کا فیصلہ کیا بھی تو اس شرط پر کہ سفید فام انسان دھرتی کے جانوروں کو بھی بھائی سمجھیں گے۔ ہم قبائلی لوگ جانوروں کو بھی عزیز رکھتے ہیں۔ ہم نے سفید فام انسانون کو پہاڑوں اور وادیوں سے گزرتی ہوئی ریل گاڑی کی کھڑکی سے ہزاروں بھینسوں پر گولیاں برساتے دیکھا ہے۔ ہم ان کی ذہنیت کو نہیں سمجھتے۔ ہم سوچتے ہیں کہ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے معصوم جانوروں کا قتل کیسے روا ہو سکتا ہے؟ ہماری نگاہ میں انسانوں اور جانوروں کی زندگی میں گہرا رشتہ ہے۔ اگر سب جانور ختم ہو گئے تو انسان تنہا رہ جائے گا۔ جو مصیبتیں آج جانوروں پر گزرتی ہیں وہ کل انسانوں پر بھی گزریں گی۔ اس زندگی میں سب چیزیں آپس میں مربوط ہیں۔
اے سفید فام سردار ! تمہیں اپنے بچوں کو سکھانا ہوگا کہ وہ جس زمین پر قدم اٹھاتے ہیں اس کے نیچے ان کے آبا و اجداد کی راکھ دفن ہے۔ انہیں اس دھرتی کا احترام کرنا ہوگا کیونکہ اس کی آغوش میں ہمارے بزرگوں کے خزانے دفن ہیں۔ ہماری طرح تمہیں بھی اپنے بچوں کو یہ درس دینا ہوگا کہ دھرتی ہماری ماں ہے۔ اس دھرتی ماں پر جو بھی آفت آئے گی وہ اک دن اس کے بچوں کو بھی متاثر کرے گی۔ جو انسان اس دھرتی کے چہرے پر تھوکتے ہیں وہ دراصل اپنے چہرے پر تھوک رہے ہوتے ہیں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ ہم دھرتی کے مالک نہیں وہ ہماری مالک ہے۔ انسان نے زندگی کا جال نہیں بنا وہ صرف اس جال کا ایک دھاگہ ہے۔ وہ اس جال کے ساتھ جو سلوک کرتا ہے وہ دراصل اپنے ساتھ وہی سلوک کر رہا ہوتا ہے۔
اے واشنگٹن کے سردار ! ہم تمہاری دعوت پر غور کریں گے اور مخصوص علاقوں میں جا کر بسنے کے بارے میں سوچیں گے۔ اب ہمیں اس کی پرواہ نہیں کہ ہم اپنی زندگی کے آخری دن کہاں گزاریں۔ ہمارے بچوں نے اپنے بزرگوں کو شکست کھاتے دیکھ لیا ہے۔ ہمارے بہادروں نے جنگ میں ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ اب وہ اپنی بقایا زندگی اور اپنے جسموں کو میٹھے کھانوں اور تیزابی شراب کے زہر سے بھرنے میں گزاریں گے۔ ہماری زندگیوں کے آخری دن آ گئے ہیں۔ ہماری نسل ختم ہو جائے گی۔ ہمارے بچے اپنے بزرگوں کا ماتم نہ کر سکیں گے۔ وہ کبھی نہ جان پائیں گے کہ ایک وہ زمانہ تھا جب ان کے آباو اجداد بھی سفید فام انسانوں کی طرح طاقتور اور پر امید تھے۔
ہم اپنے آپ سے پوچھتے ہیں کہ آ خر ہم اپنے بزرگوں کے مرنے سے غمزدہ کیوں ہیں؟ قبائل انسانوں سے بنتے ہیں اور انسان فانی ہیں۔ وہ سمندر کی لہروں کی طرح آتے اور جاتے ہیں۔ سب قوموں کی منزل ایک ہی ہے۔ سفید فام انسان بھی ہمارے بھائی ہیں۔ ایک دن انہیں اندازہ ہوگا کہ ہم سب کا خدا ایک ہی ہے۔ وہ چاہے سمجھیں کہ ان کا خدا زمین کی طرح ان کی ملکیت ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ وہ سب انسانوں کا خدا ہےْ وہ سفید فام اور سرخ فام سب انسانوں کا پالنہار ہے۔ اس کی نگاہ میں ہماری دھرتی بہت قیمیتی ہے وہ اس کی تذلیل پسند نہیں کرتا۔
ہم جانتے ہیں کہ سفید فام قوم بھی باقی قوموں کی طرح نیست و نابود ہو جائے گی شاید اس سے بھی پہلے۔ جو شخص بھی اپنے بستر کو آگ لگاتا ہے آخر ایک رات اس کے دھئویں میں اس کا اپنا دم گھٹنے لگتا ہے۔
اے سفید فام قوم کے سردار ! جب ہمارا سورج غروب ہو جائے گا تو تمہارا سورج طلوع ہوگا۔ خدا نے تمہیں طاقت دی ہے اور کسی خاص مقصد کے لیے سرخ فام قوم پر حاکمیت بخشی ہے۔ ہم اس کے کاموں کے راز نہیں جانتے۔ ہم نہیں جانتے کہ بھینسوں کو قتل کرنے‘ گھوڑوں کو رام کرنے اور جنگلوں کے اوپر پیغامات کی ترسیل کے لیے تاروں کا جال بچھانے میں کیا مصلحت ہے؟ ہم نہیں جانتے کہ جانوروں اور پرندوں کی زندگیاں اجیرن کرنے کا کیا فائدہ ہے؟
ہم تمہاری دعوت پر غور کریں گے۔ اگر ہم نے اسے قبول بھی کر کیا کہ وہ اس لیے ہوگا کہ ہم اپنے مخصوص علاقوں میں اپنی زندگیوں کے آخری دن اپنی مرضی سے گزار سکیں۔ جب آخری سرخ فام انسان مر جائے گا اور اس کی یاد ایک بادل کا سایہ بن کر پہاڑوں اور وادیوں سے گزرے گی تب ان جنگلوں اور ساحلوں میں ہمارے بزرگوں کے خواب دھڑکن بن کر زندہ رہیں گے کیونکہ انہیں اس دھرتی سے ایسی ہی محبت ہے جیسے ایک نوزائدہ کو ماں کے دل کی دھڑکن سے ہوتی ہے۔
اے سفید فام سردار ! اگر ہم نے اپنی دھرتی ماں بیچ دی تو تم اس کی یادوں کو ذہن میں محفوظ کرنا اور ان کا احترام کرنا۔ اس سے اسی طرح محبت کرنا جیسے خدا ہم سب سے محبت کرتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا خدا ایک ہے اور ہم سب ایک ہی منزل کے مسافر ہیں۔ سفید فام قوم بھی ہماری طرح اپنے مقدر سے نہ بچ سکے گی۔
ہم اپنے آسمان کی وسعت اور اپنی دھرتی ماں کی چاہت اور خوشبو کو بیچنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کریں گے لیکن یہ تصور ہمارے لیے نیا ہے۔
تقریر۔۔۔چیف سئیٹل CHIEF SEATTLE ترجمہ۔۔۔ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail