شوکت تھانوی نے ایوب آمریت کی خوشامد کیسے کی؟


پاکستان کے آئین 1956ء کی رو سے ملک کے پہلے عام انتخابات فروری 1959 میں منعقد ہونا تھے۔ دستور پر دستخط کرنے والے صدر پاکستان سکندر مرزا نے سات اکتوبر 1958ء کو دستور کی بساط ہی لپیٹ دی۔ جمہوریت کا چراغ گل کر دیا۔ بیس روز بعد “وزیر اعظم” جنرل ایوب خان نے سکندر مرزا کو بھی چلتا کیا۔ ملک ننگی آمریت کی ذلت میں ڈوب گیا۔ اس موقع پر ہمارے دانشوروں اور صحافیوں نے آمریت کی خوشامد کا بدنما تماشا برپا کیا۔ ایک شاعر نے لکھا، “ہم نے صبر کیا، ہمیں ایوب ملا”۔ اس حمام میں بہت سوں نے اپنی آبرو کھوئی اور قوم کو گمراہ کیا۔ معروف مزاح نگار شوکت تھانوی روز نامہ جنگ میں “لاہوریات” کے عنوان سے کالم لکھتے تھے۔ دو جنوری 1959ء کو ان کا زیر نظر کالم نئے سال کے موقع پر فوجی آمریت کی خوشامد میں ایک نیا قصیدہ تھا۔ آئیے پڑھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ساٹھ برس پہلے ہم سرکار کے گن کیسے گاتے تھے اور اب سرکار کی پاپوش برداری میں کہاں تک پہنچے ہیں۔

٭٭٭٭     ٭٭٭٭

خس کم جہاں پاک ۔ کسی طرح ختم ہوا یہ 1958ء۔ ناک میں دم کر دیا تھا بخدا اس سال نے اور یہ تو ابھی نہ جانے کیا کیا کرتا ۔ وہ تو کہتے کہ اکتوبر کے پہلے ہفتے ہی سے اس کو مفلوج کر کے ڈال دیا گیا تھا ورنہ اس کا ارادہ تو یہ تھا کہ خود ختم ہونے کے بجائے ہم کو ختم کر کے رکھ دے گا اور پاکستان ہی کا مادہ تاریخ وفات لگوائے گا۔ 1958ء پر ذرا غور کیجئے کہ کیا کچھ نہ دکھایا اس مرحوم نے یکم جنوری سے سات اکتوبر تک ہم سب کو۔ یہ شروع کا 2/3 سال تو ایسے گڑبڑ میں گزرا ہے کہ پورا پاکستان ’گڑبڑستان‘ نظر آتا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ کچھ نیلام کنندہ ہیں جو ملک کو نیلام پر چڑھائے ہوئے نیلامی بولیاں بول رہے ہیں ۔ رات کو ایک وزارت کو برسراقتدار چھوڑ کو سوئے اور صبح اٹھ کر پتہ چلا کہ رات گئی بات گئی۔

وہ جو بیچتے تھے دوائے دل، وہ دکان اپنی بڑھا گئے

اب ان کی جگہ دوسرے براجمان ہیں۔ ہر طرف سیاسی اکھاڑے کھدے ہوئے تھے اور ایک سے ایک پہلوان لنگوٹ کستا نظر آتا تھا۔ اس دنگل کے لیے جس کا نام عام انتخابات رکھ چھوڑا تھا مگر ان میں سے بہت سے پہلوان بغیر کشتی لڑے ہی پچھڑ جاتے تھے۔ کچھ بغیر کشتی لڑے جیت جانے کی فکر میں تھے اور بعض پہلوان ملی ہوئی کشتیاں لڑنے کی بات چیت کرتے پھرتے تھے مگر سات اکتوبر کو ایک رستم پاکستان نے ایسا داﺅ چلایا کہ یہ سب زور کرنے والے پہلوان اس سرے سے اس سرے تک چت ہو کر رہ گئے اور 28 اکتوبر کو یہ رستم پاکستان بھی اپنا ہی ایک داﺅ خود ہی کھا کر چاروں شانے چت نظر آیا۔

1958 ءکا 2/3 تو یوں گزرا مگر باقی 1/3 تو ایسا گزرا ہے کہ پاکستان کی تاریخ اس کو کبھی نہ بھلا سکے گی۔ اس بقیہ 1/3 (1958ء) میں ایسے ایسے معجزات ہوئے ہیں کہ عقل حیران ہے۔ مچھلیاں جیل میں پھنسیں اور سونا جال میں۔ سرمایہ دار زمین دوز ہو گئے اور سرمایہ نمودار ہو گیا۔ جن سڑکوں پر اکنی اور دونی تک پڑی ہوئی نہ ملتی تھی انہی سڑکوں پر ایک سے ایک نئے ماڈل کی کاریں پڑی ہوئی ملنے لگیں۔ جن دکانداروں کو کاروباری چکر میں نیند نہ آتی تھی ، وہ دو گھوڑا اور تین گھوڑا بوسکی بیچ کر ایسے سوئے ہیں گویا واقعی گھوڑے بیچ کر سوئے ہیں۔ بازاروں میں ایسی ایسی نایاب اشیاء کوڑیوں کے مول فروخت ہوئی ہیں کہ ’لیڈی ہملٹن‘ مسماة وفاتن بن کر رہ گئی جن کو اپنی اہل خانہ کے لیے ’لال دوپٹہ ململ کا‘ نصیب نہ تھا۔ وہ شریک حیات کو نائلان کے ڈوپٹے اوڑھا اوڑھا لہرائے۔ بازار کے بھاﺅ ایسے گرے کہ ارزانی کی گرم بازاری نے ہر شہر میں اندرون خانہ کو بیرون خانہ کرکے رکھ دیا۔ دودھ سے پانی ایسا غائب ہوا کہ دودھوں نہانے والے جو پوتوں پھسل رہے تھے سخت پریشان ہوئے کہ اتنا خالص دودھ کہاں سے لائیں گے کہ اولاد کے لشکر کو سیراب کر سکیں۔ گھی ایسا خالص ہوا کہ موبل آئل موٹروں کے لیے عام طور پر ملنے لگا اور خالص گھی کے لیے قطاریں لگنے لگیں۔ اس لیے کہ چونکہ وہ خالص ہو گیا تھا لہٰذا کمیاب بھی ہو گیا مختصر یہ کہ ہر چیز اتنی ارزاں اور اتنی خالص ہو گئی کہ ہر طرف خلوص ہی خلوص بکھرتا ہوا نظر آنے لگا اور لوگ حیران رہ گئے کہ

یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا

جو کھوٹا تھا کل تک کھرا ہو گیا

مگر ایک طبقہ وہ تھا جس پر اس سے زیادہ نحس زمانہ شاید ہی کبھی گزرا ہو۔ یہ تھے وہ تاجر جو دکان کو سائن بورڈ کی حیثیت سے اور تہہ خانوں کو اصل دکان کی حیثیت سے استعمال کرتے تھے۔ یہ تھے وہ بیوپاری جو ملک کی دولت کو پار لگانے میں مصروف تھے۔ یہ تھے وہ رشوت خور سرکاری ملازم جو تنخواہ کو جیب خرچ اور بالائی آمدنی کو آمدنی سمجھتے تھے۔ یہ تھے وہ شورہ پشت جن کا واحد کاروبار یہی تھا کہ جو جس سے چاہا ہتھیا لیا۔ یہ تھے وہ جرائم پیشہ جن کا ذریعہ معاش ہی جرائم تھے اور جن کو رشوت خور حکام کی طرف سے عام اجازت تھی کہ

لوٹ پر لوٹ مچاﺅ تمہیں ڈر کس کا ہے

کس کی دولت ہے مری جان یہ زر کس کا ہے

اور وہ بھی راشی افسروں کے زیر سایہ خوشی کے ترانے گاتے تھے کہ

مورے سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا

ان چور چوکیداروں نے جن کے حوصلہ بڑھا رکھے تھے وہ اس دور سے کیوں کر خوش ہو سکتے ہیں۔

ان میں سے کسی نے سونا غرق دریا کیا تو کسی نے نوٹوں کی گڈیاں جلائیں ، کسی نے شیورلٹ پر ٹولٹ کی تختی لگائی تو کوئی یونہی نئے ماڈل کی کار چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا کہ کار جاتی ہے تو جائے جان بچی لاکھوں پائے۔ کوئی بیٹھ گیا اپنی آمدنی کے گوشوارے بنانے اور کوئی بیٹھ گیا جو کچھ بنایا تھا اس کو ڈھانے۔ کی نے منہ چھپایا اور کسی نے جیل کا کونہ جا بسایا۔ مگر حکومت وقت نے یہ سراسیمگی دیکھ کر اعلان کر دیا کہ اب تک جو کچھ ہوا وہ ہوا خیریت اسی میں ہے کہ 31 دسمبر تک کھایا پیا سب ایمانداری سے اگل دو تاکہ تم سے کچھ باز پرس نہ کی جائے البتہ اس کے بعد اگر تم مجرم ثابت ہوئے تو دونوں کانوں کے بیچ میں سر کر دیا جائے گا۔اور پھر تم کسی رعایت کے مستحق نہ ہو گے۔ چنانچہ دسمبر کا پورا مہینہ اسی میں ان دھنوانوں نے گزارا ہے کہ جب دیکھئے بیٹھے روپیہ آنہ پائی کر رہے ہیں اور ننانوے کے پھیر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مثل مشہور ہے کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پیسے جاتے ہیں لہٰذا بے چارے چھوٹے چھوٹے ملازمت پیشہ بھی اسی چکر میں رہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ آمدنی انکم ٹیکس کے حدود میں چپکے سے آگئی ہو اور ان کو خبر نہ ہوئی ہو اور کہیں تنخواہ کے علاوہ کوئی اور آمدنی تو نہیں ہو گئی تھی جس کا بعد میں پتہ چلے اور دھر لیے جائیں۔ مگر سیاسی بحرانوں کے بعد یہ بحران بھی 31 دسمبر کی رات کو بارہ بجے ختم ہو گیا اور اب سب کے سب سبکدوش بنے بیٹھے ہیں۔

نئی حکومت کا پروگرام غالباً یہ تھا کہ نئے سال کے ساتھ نیا معاشرہ پیدا کیا جائے جس میں سب کے سب یہ محسوس کریں کہ گویا ازسرنو ایک پاکبازانہ، دیانت دارانہ اور ہر جرم سے پاک زندگی بسر کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور پھر سب کے سب ایسی بے داغ زندگی بسر کریں کہ کسی قسم کی بددیانتی کا کوئی شائبہ نہ ہو، صاف ، سچی اور کھی زندگی ہو سب کی، جو انسان سے شیطان بن چکے تھے وہ پھر انسانیت کے جامے میں آجائیں اور پاکستان ایک مثالی ملک بن کر دنیا کے سامنے آئے۔ یہ پروگرام بڑی حد تک کامیاب ہو چکا ہے۔ کافی چھپی ہوئی دولت سامنے آگئی ہے۔ اس رعایت سے جس جس کو بھی فائدہ اٹھانا تھا وہ اٹھا چکا ہے۔ اب تو صرف وہی لوگ رہ گئے ہوں گے جن کو خود آزادی کا شوق ہے ، جو خطروں سے کھیلنے میں لطف لیتے ہیں، ان کی حیثیت ان عالی مرتبت نشہ بازوں کی ہے جو سانپ سے اپنے کو ڈسوا کر سرور حاصل کرتے ہیں۔ اب وہ ہیں اور ان کی شامت ان کے ساتھ ان کی دولت وہی سلوک کرے گی جو قارون کے ساتھ اس کی دولت نے کیا تھا۔

ہم ہر چند کہ اس سال کو اپنا سال نہیں سمجھتے اور یہ نو روز نہیں ہے مگر چونکہ رائج الوقت سنہ یہی ہے لہٰذا اس کے نوروز کی مبارکباد دینا زیادہ بے محل بھی نہیں ہے اگر اس کو نوروز کی مبارکباد سمجھ کر آپ قبول کرنا نہ چاہیں تو بھی یہ اس غسل صحت کی مبارکباد تو ضرور ہے جو کل رات کو بارہ بجے ہم سب نے کیا ہے اور اب ہم ایک صحت مند قوم کی طرح زندگی کے حقوق حاصل کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔ یہ بات بجائے خود مبارکباد کی مستحق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).