رور بھائی کا نعرہ، پاکستان ہمارا


خدا جانے کیا تحریک چلی تھی، کسی این جی او کا نعرہ تھا یا سیاسی جماعت کا سلوگن تھا، پشاور شہر کی دیواروں پر یہ جملہ لکھا بار بار نظر آتا تھا، “رور بھائی کا نعرہ، پاکستان ہمارا / رور بھائی کا نعرہ، امن، محبت، بھائی چارہ۔” پھر وقت گزرنے کے ساتھ یہ نعرہ تھوڑا مختصر ہو گیا، صرف رور بھائی لکھا دکھائی دیتا تھا۔ اب خبر نہیں لکھا ہوتا ہے یا مٹ گیا، یا مٹا دیا گیا۔

تو ان دنوں عادت یہ ہوتی تھی کہ جب بھی کسی شہر جانا ہوتا، وہاں کی دکانوں پر لگے سائن بورڈ اور دیواروں کے اشتہار جلدی جلدی پڑھنے کی مشق شروع کر دی جاتی۔ یہ بہرحال دماغی خلل تھا یا دوسرے بچے بھی ایسا کرتے ہیں، اس بارے میں کوئی علم نہیں۔ بس میں سفر ہو، گاڑی میں ہو، ٹرین میں ہو، جہاں رفتار ذرا دھیمی ہوتی کچھ پڑھنے کے چکر میں باہر جھانک کر دیواریں، دروازے، بورڈ، نیون سائن جو بھی ملتا اس پر غور و فکر شروع ہو جاتا۔ تھوڑا بڑے ہونے پر یہی شوق ذرا سا تبدیل ہوا۔ اب اکٹھے سفر کرتے تو چھوٹے بھائی کے ساتھ گاڑیوں کے نمبر پڑھنے کا مقابلہ ہوتا تھا۔ کراچی کی مختلف سیریز کے نمبر چھوڑ کر باقی تمام جگہوں کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہو گیا تھا۔ ہم لائل پور جا رہے تھے۔ گاڑی کے نمبر پڑھ کر شہر بوجھنے کا مقابلہ جاری تھا۔ سامنے ایک ٹرک کا نمبر ایل ایس نظر آیا۔ بھائی سے پوچھا، ایل ایس سے کیا بنتا ہے؟ اسے معلوم نہیں تھا، ہار مان لی، تو بتا دیا کہ لسبیلہ کا نمبر ہے۔ اب بوجھنے کی باری تھی۔ بھائی نے کہا، اچھا اے ایل کہاں کا نمبر ہے۔ بہت سوچا، بڑا زور دیا دماغ پر، کچھ یاد نہیں آیا۔ کبھی پہلے اے ایل نمبر پلیٹ کی گاڑی دیکھی ہی نہیں تھی۔ ابا سے پوچھا، وہ بھی کافی سوچ کر ہار مان گئے۔ جواب آیا، “البیلا” اب ہم لوگ بے ساختہ ہنسے بلکہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے۔ لاجک یہی تھی کہ جب ایل ایس لسبیلہ ہو سکتا ہے تو اے ایل سے البیلا کیوں نہیں ہو سکتا!
رور بھائی کا بھی سین ایسا ہی نہ نکل آئے، اس وجہ سے بہت عرصہ نہیں پوچھا۔ کیا خبر عام سا اردو کا لفظ ہو، یا کوئی مزاحیہ محاورہ ہو، یا کچھ بھی، تو بس مذاق اڑنے کا ڈر رہتا تھا۔ عمر کتنی ہو گی، یہی دس گیارہ برس، ایک دن ابا سے پوچھا۔ انہوں نے بتایا اس کا مطلب ہے بھائی۔ یعنی رور پشتو میں بھائی کے لیے استعمال ہوتا ہے اور ساتھ اردو میں بھائی اس لیے لکھا گیا کہ پشتو بولنے والے اور جو دوسرے اردو بولنے والے ہیں، وہ بھائی بھائی ہیں۔ تو یہ کچھ سمجھ آ گیا۔ پھر بھول بھال گیا۔ بڑے ہو کر سیر میں پکنی کتنی ہیں، سوائے اس کے یاد کیا رہتا ہے۔
آج کل اخبار، ریڈیو، ٹی وی، انٹرنیٹ، سب جگہ پٹھان بھائیوں کے ساتھ پیش آنے والے مسائل کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ پنجاب میں رہنے والے کسی بھی عام آدمی کا پہلا تعارف زیادہ تر شاگرد پیشہ پٹھانوں سے ہوتا ہے۔ گرمیوں میں شربت کی ریڑھی لگانے والے ہوں، مکئی کے دانے یا کالے چنے بیچنے والے ہوں، موچی ہوں، ڈرائے فروٹ بیچنے والے ہوں، کمپیوٹر اور الیکٹرانکس کا سامان کمر پر لادے دس بندوں کے برابر مزدوری کرتے پٹھان ہوں، افغان جنگ میں کسی بارودی سرنگ سے ہاتھ پاؤں اڑوا لینے والے فقیر ہوں یا آپ کا “چوکیدارا” کرنے والے ہوں، آس پاس کے منظر میں یہ سب کردار گھومتے پھرتے نظر آئیں گے۔ یہ کبھی ایک کام نہیں کریں گے۔ ہر ممکن محنت کرنا، دو تین نوکریاں کرنا اور بالاخر اپنے کسی بھی چھوٹے موٹے کاروبار تک پہنچ جانا ہر دوسرے پٹھان محنت کش کی ایسی خوبی ہے جسے ہم شہروں کی آسائش میں پلتے ہوئے کبھی جان ہی نہیں سکتے۔ اکثر کسی بھی علاقے میں ایک آدھ پٹھان موچی ضرور ملے گا۔ لوگ دوسروں کو چھوڑ کر اس کے پاس جائیں گے کہ یار وہ جوتا بہترین چمکاتا ہے۔ کبھی اس سے پوچھا جائے تو اس نے موبائل کارڈ بھی رکھے ہوں گے، نسوار کی پڑیاں بھی بیچتا ہو گا، عین ممکن ہے ایزی لوڈ کا سامان بھی ہو، تو یہ سب کیا ہے؟ یہ وہ ملٹی ٹاسکنگ اور مشقت ہے جو پٹھانوں کی خوبی ہے۔ پٹھانوں کی جان توڑ محنت بہرحال لوکل مزدوروں کو خوف میں مبتلا کرتی ہے، یہ ان سیکیورٹی ہمیشہ ایسے معاملات کے پیچھے نظر آئے گی۔
ایک کابلی والا ٹیگور کا تھا، وہ بھی ایسے ہی خشک میوے بیچتا تھا، ہزاروں میل دور پہاڑوں سے اترا، کولکتہ پہنچا اور یہ کام شروع کر دیا۔ وہاں ایک بچی اسے اپنی بیٹی جیسی لگی تو اس سے رک کر باتیں کر لیتا، کچھ کھانے کو دے دیتا۔ بچی کی ماں کابلی والے کو پسند نہیں کرتیں تھیں۔ کسی بے ایمان گاہک سے جھگڑے پر کابلی والے کو جیل ہو گئی۔ جس دن رہا ہوا اس دن منی کی شادی تھی۔ منی وہ چھوٹی سی بچی تھی جس میں کابلی والے کو اپنی بیٹی کی شباہت ملتی تھی۔ منی کے باپ لوگوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کابلی والے کو منی سے ملواتے ہیں اور اسے دیکھ کر وہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ میلوں دور بیٹھی اس کی اپنی بیٹی بھی شادی کی عمر میں ہو گی۔ رخصت ہوتے ہوئے منی کے باپ اسے کچھ پیسے دیتے ہیں کہ وہ جا کر اپنی بیٹی کو آرام سے رخصت کر سکے۔ تو بیٹیاں اس یادگار افسانے میں ایک سانجھ تھیں۔ اب شاید ہم اتنے کابلی والے دیکھ چکے ہیں کہ ان کی دربدری کا خیال تک نہیں آتا۔
ایسے ہی ایک کابلی والا مشتاق احمد یوسفی کا تھا۔ یہاں ایک اور پٹھان یاد آ گیا، وہ کابلی نہیں تھا، وہ بونیر والا تھا۔ وہ جس دن سے دفتر میں آیا تھا، ہر چیز صاف ستھری ملتی تھی، چائے وقت پر، پانی ایک بار کہنے پر، اور ایک دم اٹین شن آدمی تھا۔ وہ پشتو لہجے میں پنجابی بولتا بڑا معصوم لگتا تھا۔ بھاگ بھاگ کے ہر کام کرتا تھا۔ گرمیوں میں شدید بے حال ہو جاتا اور بتاتا کہ ادھر پہاڑوں میں اب بھی لوگ چادر لے کر سوتے ہوں گے۔ دو چار گرمیاں گزارنے کے بعد اس کے منہ پر مستقل چھائیاں ہو گئی تھیں۔ پھر وہ کچھ چڑچڑا بھی ہونے لگا تھا۔ لیکن برابر محنتی آدمی تھا، لگا رہتا۔ اب فرینکنس ہو گئی تھی۔ کبھی کوئی بے وقت کی چائے مانگ لیتا تو باقاعدہ ڈانٹ دیتا، “حسنین صیب، چے نی اے، چینی نی اے، بازار سے لائے گا یا ادر برابر ہوٹل سے منگا لئو۔” ایک دن باتوں باتوں میں کہنے لگا کہ پچھلی بار گیا تھا تو بیٹی تیسری جماعت میں تھی، اب پانچویں میں ہو گی۔ دماغ اپنی بیٹی کی طرف چلا گیا، جسے پیار کیے بغیر سونا مشکل تھا۔ بونیر بہت دور ہے، یا بونیر والے کے پاس شدید محنت کے باوجود اتنے پیسے نہیں ہوتے، یا اسے چھٹی نہیں ملتی، مسئلہ یہ نہیں تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ بیٹی تیسری سے پانچویں میں چلی گئی اور بونیر والا ادھر تھا، اور بس ذرا چڑچڑا ہو گیا تھا اور ہم سب، دفتر کے باقی لوگ، روزانہ شام کو اپنے بچوں کے ساتھ ہوتے تھے اور بونیر والا وہاں دفتر میں چھت پر چارپائی ڈال کر لتا کے گانے سنتا ہوا سو جاتا تھا۔
تو وہ جو رور بھائی کا نعرہ تھا، وہ اب بھی زندہ ہو سکتا ہے بس تھوڑا احساس مانگتا ہے۔ راہ چلتے کسی بھی آدمی کی پکڑ دھکڑ اس کی عزت نفس سے کھیلنے والی بات ہے۔ پانچوں انگلیں برابر کدر ہوتی ہیں صیب، مٹھی بند کرے گا تو سب ادھری برابر ہو جاویں گی!
رور بھائی کا نعرہ، پاکستان ہمارا!
(بشکریہ روزنامہ دنیا)
حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain