پنجاب یونیورسٹی، فوجی آمر، اعزازی ڈاکٹریٹ اور قومی صحافی


صحافی کا قلم بذات خود قیمتی نہیں ہوتا۔ اس سے لکھے گئے الفاظ قلم کی قیمت متعین کرتے ہیں۔ آزادی اظہار کے لئے اور روشنائی درکار ہوتی ہے۔ فروختنی تحریر کی سیاہی مختلف ہوتی ہے۔ ایک نامور صحافی کی چار عشرے پرانی ایک تحریر کا اقتباس پیش خدمت ہے۔  1978  میں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاالحق نے پنجاب یونیورسٹی کے کانووکیشن کی صدارت کی تھی۔ اس موقع پر یونیورسٹی کی طرف سے فوجی آمر کو ڈی ایل ایل کی اعزاری ڈگری بھی عطا گئی تھی۔ ذیل میں اس تقریب کے آنکھوں دیکھے احوال کی ایک جھلک پیش کی جا رہی ہے۔ یہ تحریر ہفت روزہ زندگی میں شائع ہوئی۔ مصنف (الطاف حسن قریشی) آج بھی میدان صحافت میں ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔

٭٭٭    ٭٭٭

ہماری قومی زندگی کا ایک حصہ روایت شکنی میں گزرا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی پر بھی فصل خزاں آئی اور چھائی رہی۔ طلبہ اور طالبات امتحان پاس کرتے تھے مگر انہیں جلسہ تقسیم اسناد میں شرکت کا موقع نصیب نہیں ہوتا۔ ایشیا کی عظیم ترین یونیورسٹی نو برس تک ان حیات افروز لمحات سے محروم ری۔ آخری بار اردن کے سربراہ شاہ حسین جلوہ گر ہوئے تھے۔

ایک طویل جمود کے بعد درباب شوق کھلا۔

اس بار چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مہمان خصوصی تھے۔ ان کو ڈاکٹریٹ کی آنریری ڈگری ملنے والی تھی ۔ آسمان نے یہ منظر دیکھا تو حیرتیں مسکرا اٹھیں۔ کہاں تلوار کی زبان اور کہاں علم کی زبان۔ تلوار علم کے سامنے بارہا جھکی ہے ، مگر علم نے تیغ و سناں کو سلام کم ہی کیا، مگر آج تو ارباب علم آنکھیں بچھانے والے تھے۔

نیوکیمپس کا وسیع و عریض آڈیٹوریم ماہ سال کے گرد و غبار سے اور بھی تاریخی نظر آتا تھا۔ فضا روشنیوں سے معمور تھی اور ٹھیک نو بج کر 55 منٹ پر اپنی مخصوص قباﺅں میں اہل علم کا قافلہ ہال میں داخل ہوا۔ یہ منظر نہایت روح پرور تھا۔ متانت اور وقار کی رفتار ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ چانسلر ، وائس چانسلر، سنڈیکیٹ اور سینٹ کے اراکین، یونیورسٹی کے ممتاز اساتذہ…. اور ان سب کے پیچھے جنرل ضیاالحق سفید شیروانی میں ملبوس …. نگاہوں نے آنے والوں کی بلائیں لیں اور تمناﺅں نے جھک جھک کر سلام کیا۔ رنگ اور خوشبوئیں کہیں جدا ہوئیں اور کہیں بغلگیر ۔۔۔ عالم شوق میں شاید ایسا ہی ہوتا ہے۔

جنرل ضیاالحق جونہی سٹیج پر آئے، فوٹو گرافر ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے خیال سے لپکے اور پھر لپکتے ہی چلے گئے۔ میں سوچ رہا تھا کہ ان کا یہ ذوق شوق کبھی مسٹربھٹو کے لئے ہوا کرتا تھا…. اور آج انگلیوں میں اضطراب کسی اور کے لئے ہے۔ اقتدار میں خود بہت بڑی کشش ہے مگر جنرل ضیاالحق اپنی کشش جدا رکھتے ہیں۔

تلاوت قران کے بعد جناب وائس چانسلر نے یونیورسٹی کا حال اردو زبان میں بیان فرمایا۔ جناب ڈاکٹر خیرات محمد ابن رسا اپنے طویل نام کے حوالے سے ادیب نظر آتے ہیں مگر وہ ہیں سائنس کے آدمی اس لئے ان کے لب و لہجے میں ادبی رچاﺅ سے زیادہ سائنسی آہنگ موجود تھا۔

اس مختصر سی مدت میں جنرل صاحب نے اپنا لباس تبدیل کیا۔ شیر وانی کی بجائے اب وہ فوجی وردی میں ملبوس تھے۔ پولیس اور فوج کا وجود یونیورسٹی کے اندر برداشت نہیں کیا جاتا ۔ مگر جنرل صاحب غیر معمولی حالات میں یہاں آئے تھے۔ دراصل نوجوانوں کا بے پایاں جوش و خروش ان کا حقیقی محافظ تھا۔

جناب وائس چانسلر اپنی رپورٹ ختم کر چکے تو اعلان ہوا کہ اب ڈگریاں حاصل کرنے والے امیدوار پیش کیے جائیں گے۔ امیدوار کا لفظ دانش کدے کی فضا میں اجنبی سا لگا اور انتخابات کے پس منظر میں کچھ اور زیادہ مضحکہ خیز ہو گیا۔ میرے خیال میں ’امیدوار‘ کی بجائے حقدار کا لفظ شاید مناسب ہوتا۔

جب جنرل ضیاالحق صاحب کو اعزازی ڈگری عطا کی گئی اور سرخ قبا پہنائی گئی تو آڈیٹوریم رشک ارم بن گیا۔ جنرل ضیاالحق کے خطبہ تقسیم اسناد سے پہلے پرو چانسلر جناب ڈاکٹر محمد رفیق نے جنرل موصوف کی توصیف بیان فرمائی۔ دکھ ہوا کہ اتنے بڑے ادارے کی اتنی عظیم تقریب میں توصیف کا اس قدر ذوق سے ہٹا ہوا رنگ بھرا گیا۔ وہ دماغ جس نے جنرل موصوف کا تعارف لکھا تھا، خاصا کھوکھلا تھا، ورنہ اس قدر بے معنی باتیں اس قدر با معنی شخصیت کے ساتھ ہرگز منسوب نہ کی جاتیں۔

جنرل ضیاالحق جب خطبہ تقسیم اسناد پڑھنے کے لئے ڈائس پر آئے تو نوجوانوں کے جذبات کا عالم قابل دید تھا۔ بے اختیار جذبات…. بے ساختہ جذبات۔ جیسے دل کے غنچے چٹک رہے ہوں جیسے چاہتوں کے دریچے وا ہو رہے ہوں۔

یہ خیر مقدم بے محابا تھا…. والہانہ تھا۔ مسٹربھٹو اپنے عہد اقتدار میں اس خیر مقدم کے لئے ہر طرح کے جتن کرتے رہے، لیکن طلبہ نے قاتل جمہوریت کو اس مقدس سرزمین میں قدم نہ رکھنے دیا۔ اور آج جنرل ضیاالحق طالب علموں کے دید ہ و دل میں بسے جاتے تھے…. اترے جاتے تھے۔ اسلامی انقلاب کی گونج بہت دیر تک سنائی دیتی رہی۔ جذبوں کا اظہار لہروں کی طرح ابھر رہا تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے جوانوں کو اپنا آئیڈیل مل گیا ہو۔

جنرل ضیاالحق نے خطبے کا آغاز خالص اسلامی رنگ میں کیا۔ اللہ تعالی کی حمد اور اس کے محبوب پر درود و سلام ان کے لہجے میں صفائی اور محبت تھی۔ ان کا خطبہ تکلف سے بے نیاز اور تصنع سے ماورا تھا۔ یوں نظر آتا تھا کہ جنرل صاحب نے پیشہ وارانہ خطبے کی بجائے دل کی باتیں تحریر کر دی تھیں۔ وعظ و نصیحت کا بھاری بھر کم انداز نہ تھا ، بلکہ زندگی کی حقیقتیں سادگی سے بیان ہوئی تھیں۔

تقریب ختم ہوئی تو جنرل صاحب اہل علم کے قافلے میں ایک بار پھر شریک ہو گئے۔ اس کے بعد طلبہ میں گھل مل گئے۔ پندرہ بیس منٹ بے تکلف باتیں ہوئیں اور پھر حفاظت کے تمام حصار ٹوٹ گئے۔ جنرل صاحب کی روانگی کے وقت طلبہ نے ایک بار پھر اپنے جذبات کا بھرپور اظہار کیا۔ نعرے اور فلک شگاف نعرے، خوشی مسر ت اور احترام ۔ طلبہ نے اپنے سچے جذبات نچھاور کر دئیے تھے اور تاریخ اس انتظار میں ہے کہ جنرل صاحب ان کی توقعات کا کیا جواب دیتے ہیں۔

جنرل صاحب چلے گئے اور اپنے پیچھے شاندار روایات کا ایک سلسلہ چھوڑ گئے۔ انہوں نے طلبہ سے محبت اور شفقت کی زبان میں گفتگو کی اور طلبہ نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا استقبال ان کے لیے بہت بڑا چیلنج تھا۔ یونیورسٹی میں ایک مختصر سا حلقہ موجود تھا جو اس تقریب کے حق میں نہ تھا۔ اس عنصر نے ایک سابق طالب علم کے نام پر ایک رٹ دائر کی جس کا مقصد جنرل صاحب کو یونیورسٹی میں آنے سے روکنا تھا۔ یہ حلقہ جو ساﺅتھ ایشین انسٹی ٹیوٹ میں مورچے کھودے ہوئے ہے، ’کانووکیشن کا بائیکاٹ کر دینا چاہتا تھا مگر اس کی ہمت نہ پڑی۔ پھر اس نے ہنگامہ بپا کرنے کا پروگرام بنایا مگر وہ بھی اخلاقی جرات نہ ہونے کی وجہ سے ناکام رہا۔ یہ چند اساتذہ وہی ہیں جو سول چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر (ذوالفقار علی بھٹو کی طرف اشارہ ہے۔ مدیر) کی دل و جان سے پوجا کرتے تھے۔ اس وقت انہیں یونیورسٹی کے تقدس کا ذرا خیال نہ آیا۔

نوجوانوں نے اس روز یہ سارے جھوٹے بت توڑ ڈالے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).