گلزار…. فلم سے ادب تک (3)


\"Haiderمعرکوں کے مختلف مراحل کی تفصیل میں جانے کا یہ محل نہیں ہے لیکن ان تین اشعار سے تین مختلف مقامات کا اندازہ ضرور کیا جا سکتا ہے۔ اپنا معاملہ صندل کی لکڑی کے برادے والا رہا ہے۔ اس تمہید طولانی کا مقصد در اصل گلزار کی اس مختصر نظم تک لانا تھا:

٭٭٭اُس کے گیٹ پہ ’چندن‘کا اک پیڑ کھڑا ہےجب بھی اس کے گیٹ میں داخل ہوتا ہوںاک شاخ اُوپر سے جھک کر آنکھ پہ آجاتی ہےجتنی بار ہٹایا ہےکان پہ ایک خراش بچی ہےچندن کے بدن میں خوشبو ہےچندن پر پھول نہیں آتے!!(اُس کے گیٹ پہ ۔۔۔)

مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ چندن کے درخت پر پھول نہیں آتے،البتہ چندن کا پورا درخت مہکتا ہے۔

گلزار کی تین نظمیں ایک ساتھ پیش کرتا ہوں۔ یہ نظمیں الگ الگ ہوتے ہوئے بھی جیسے زندگی کی داستان کو مربوط کرکے بیان کرر ہی ہیں۔

٭٭٭ٹہنی پر بیٹھا تھا وہ۔۔۔!نیچے تھا تالاب کا پانی،اور،تالاب کے اندرآسمان تھاڈوبنے سے ڈر لگتا تھانہ تَیرا،نہ اُڑا،نہ ڈوباٹہنی پر ہی بیٹھے بیٹھے بالآخر وہ سو
کھ گیا!

ایک اکیلی شاخ کا پتّہ(ٹہنی پر بیٹھا تھا وہ۔۔۔۔)

٭٭٭پانی کی عادت ہے بہنا،بہتے رہنا۔۔۔۔۔۔پَیر نہیں ٹکتے دریا کےدوڑ دوڑ کے چٹّانوں سےجھرنے کودتے رہتے ہیںآبشار پہاڑ پکڑ کے نیچے اترتا ہےتھک جاتا ہے دوڑتے بھاگتے بہتا پانیجھیل میں جا کر نیند آتی ہے پانی کو!!(پانی کی عادت ہے بہنا۔۔۔)

٭٭٭مجھے مرا جسم چھوڑ کر بہہ گیا ندی میں!ابھی اسی دن کی بات ہے میں نہانے اترا تھا گھاٹ پر جب ٹھٹھر رہا تھا۔۔ وہ چھو کے پانی کی سرد تہذیب ڈر گیا تھا۔۔۔۔میں سوچتا تھا بغیر میرے وہ کیسے کاٹے گا تیز دھاراوہ بہتے پانی کی بے رُخی جانتا نہیں ہے وہ ڈوب جائے گا۔ سوچتا \"gulzar-759\"تھا!۔۔۔۔۔اب اُس کنارے پہنچ کے مجھ کو بلا رہا ہے میں اِس کنارے پہ ڈوبتا جا رہا ہوں پیہم میں کیسے تیروں بغیر اس کے! ۔۔۔۔ مجھے مرا جسم چھوڑ کر بہہ گیا ندی میں!! (مجھے مرا جسم چھوڑ کر بہہ گیا ندی میں)

اردو شاعری میں ترقی پسندوں کی انقلابی شاعری کا اپنا ایک مقام ہے اور اس تحریک کے شروع ہونے سے کہیں پہلے علامہ اقبال نے بھی غریبوں کے حق میں کلمہ انقلاب بلند کیا تھا۔

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روٹی اُس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

لیکن تمام تر انقلابی نعروں کے باوجود زمینی حقائق کیا کہتے ہیں۔ گلزار کی دو نظموں میں دیکھئے۔ ایک نظم میں اقبال کے حوالے سے جب کہ دوسری نظم میں فیض کے حوالے سے نئی صورت ِحال بتائی گئی ہے۔

٭٭٭ذرا علامہ کو کوئی خبر کر دےکہ جن کھیتوں سے دہقاں کو میسر نہ ہوئی روٹی کسی نے کھیت میں جا کر جلایا بھی نہیں گندم کے خوشوں کو۔۔۔ کہیں کوئی نہیں اُٹھا، نہ کوئی انقلاب آیا۔۔۔۔جنازے اُٹھ رہے ہیں گاوں گاوں سے یہ سب کے سب جنازے ہیں کسانوں کےجنہوں نے قرض کی مٹی چبا کر خوشی کر لی (ذرا علامہ کو کوئی خبر کر دے )
٭٭٭قفس اُداس ہے یارو۔۔!ہری مرچی کا اک ٹکڑا پڑا ہےکٹوری پانی کی خالی ہے، اوندھی ہو گئی تھی پرندہ جا چکا کب کا، قفس میں کچھ نہیں ہے!!(قفس اُداس ہے یارو)
ایک اور نظم میں گلزار نے انقلاب ے سے بڑے پتے کی بات کی ہے۔
٭٭٭سلاخوں کے پیچھے پڑے انقلابی کی آنکھوں میں بھیراکھ اُترنے لگی ہے!دہکتا ہوا کوئلہ دیر تک جب نہ پھونکا گیا ہوتو شعلے کی آنکھوں میں بھیموتیے کی سفیدی اتر آتی ہے(راکھ)
اپنے تمام ترجدید لب و لہجے کے باوجود گلزار کے اندر بھی ایک چھوٹا سا انقلابی کہیں نہ کہیں موجود ہے،یہ انقلابی کہیں ترقی پسندوں کے انداز میں اور کہیں علامہ اقبال کی بات سے ملتے جلتے ہوئے الفاظ میں بات کہنا چاہتا ہے لیکن شاید زیادہ ہمت نہیں رکھتا، اس لیے اپنے غصہ کا اظہار کرکے رہ جاتا ہے تاہم برہمی کا ایسا اظہار بھی اپنی جگہ کچھ نہ کچھ اہمیت رکھتا ہے۔ان دو نظموں سے میری بات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے
٭٭٭کہیں جانا نہیں ہے،بس یونہی سڑکوں پہ گھومیں گے کہیں پر توڑیں گے سگنل کسی کی راہ روکیں گےکوئی چلّا کے گالی دے گا کوئی ’ہورن‘بجائے گا!۔۔۔۔ ذرا احساس تو ہوگا کہ زندہ ہیں ہماری کوئی ہستی ہے!!(کہیں جانا نہیں ہے۔۔۔)
٭٭٭میں سگریٹ تو نہیں پیتا۔۔۔۔ مگر ہر آنے والے سے بس اتنا پوچھ لیتا ہوںکہ”ماچس ہے؟“بہت کچھ ہے جسے میں پھونک دینا چاہتا ہوں مگر ہمت نہیں ہوتی!
(میں سگریٹ تو نہیں پیتا۔۔۔۔)
\"Gulzarخالقِ کائنات کے بارے میں گلزار کے تصورات کو میں ان کے عقیدہ کی آزادی کا حق سمجھتا ہوں، لیکن گلزار کی ایسی نظموں کو پڑھتے ہوئے مجھے کئی بار یہ خیال آیا ہے کہ اپنے عقائد اور تصورات کے ساتھ  گلزار نے”او مائی گاڈ!“جیسی کوئی فلم کیوں نہیں بنائی؟ مجھے گلزار کی اس موضوع پر لکھی گئی ساری نظموں سے زیادہ ”او مائی گاڈ!“جیسی فلم زیادہ دلچسپ اور بڑی تخلیق محسوس ہوتی ہے۔ خدا کرے کہ صحت اجازت دے اور گلزار ہمت سے کام لیں تواس موضوع کی بنیاد پر ابھی بھی ایک نئی فلم بنا ڈالیں۔
گلزاراپنی نظموں میں اپنی جنم بھومی دینہ کی یاد میں ایک عمرنہیں، ساری عمریں گزار دیتے ہیں۔ جنم بھومی کی اتنی شدید یاد گلزارکے اندر کا دراوڑی رویہ ہے۔ جنم بھومی سے نکالے گئے،ابوکی ناراضی کے باعث گھر سے نکالے گئے، لیکن دینہ کی یاد ہو یا ابو کی یاد دونوں ہی گلزار کے اندر دھونی رما کر بیٹھی ہوئی ہیں۔ وہ اپنے حال سے گزرتے ہوئے ماضی کی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہاں بوسکی کی صورت میں انہیں یادوں کے سحر سے نکل کرمستقبل کی طرف جانے کے لیے مواقع ملتے رہے ہیں۔گلزار کو بھی اس کا ادراک ہے۔
اس ادراک کی ایک جھلک اس نظم میں دیکھئے:

٭٭٭ابھی نہ پردہ گراو ٹھہرو،کہ داستاں آگے اور بھی ہے ابھی نہ پردہ گراو ٹھہرو۔۔۔ ابھی تو ٹوٹی ہے کچی مٹی، ابھی تو بس جسم ہی گرے ہیں ابھی تو کردار ہی بجھے ہیں ابھی سلگتے ہیں روح کے غم ابھی دھڑکتے ہیں درد دل کےابھی تو احساس جی رہا ہےیہ لَو بچا لو،جو تھک کے کردار کی ہتھیلی سے گر پڑی ہے یہ لَو بچا لو، یہیں سے اُٹھے گی جستجو پھر بگولا بن کریہیں سے اُٹھے گا کوئی کردارپھر اسی روشنی کو لے کرکہیں تو انجام و جستجو کے سرے ملیں گےابھی نہ پردہ گراو ٹھہرو!(ابھی نہ پردہ گراو ۔۔۔)

عام طور پر جو شعراء نظم اور غزل دونوں میں طبع آزمائی کرتے ہیں،ان کی نظموں پر بھی غزلیہ انداز تھوڑا بہت حاوی ہوجاتا ہے۔ لیکن گلزار کی نظمیں اتنی بھرپور ہیں کہ ان کی غزلوں پر بھی نظمیت سی چھائی ہوئی ملتی ہے۔تاہم جہاں کہیں وہ نظمیت کے اثر سے باہر آتے ہیں، ان کی غزلیں ایک نئی چھب کے ساتھ دکھائی دینے لگتی ہیں۔ان کی غزل کے اس نوعیت کے چند خوبصورت اشعار یہاں پیش کررہا ہوں۔

کائی سی جم گئی ہے آنکھوں پر سارا منظر ہرا سا رہتا ہے

جسم اور جاں ٹٹول کر دیکھیں یہ پٹاری بھی کھول کر دیکھیں

کوئی اٹکا ہوا ہے پل شاید وقت میں پڑ گیا ہے بل شاید

خون نکلے تو زخم لگتی ہے ورنہ ہر چوٹ نظم لگتی ہے

\"f15064e065ca6c42b16b8f2478e46123\"پھول نے ٹہنی سے اُڑنے کی کوشش کی اک تتلی کا دل رکھنے کی کوشش کی
کتنی لمبی خاموشی سے گزرا ہوں ان سے کتنا کچھ کہنے کی کوشش کی

جانے کس کا ذکر ہے اس افسانے میں درد مزے لیتا ہے جو دوہرانے میں

صبر ہر بار اختیار کیا ہم سے ہوتا نہیں،ہزار کیا
عادتاََ تم نے کر دئےے وعدے عادتاََ ہم نے اعتبار کیا
ہم نے اکثر تمہاری راہوں میں رُک کے اپنا ہی انتظار کیا

مجھے اندھیرے میں بے شک بٹھا دیا ہوتا مگر چراغ کی صورت جلا دیا ہوتا

کتاب بند کی اور اُٹھ کے چل دیا تمام داستان ساتھ لے گیا

تجھ کو دیکھا ہے جو دریا نے ادھر آتے ہوئے کچھ بھنور ڈوب گئے پانی میں چکراتے ہوئے

ہرایک غم نچوڑ کے، ہر ایک رس جیے دو دن کی زندگی میں ہزاروں برس جیے

زمیں سا دوسرا کوئی سخی کہاں ہو گا ذرا سا بیج اسے دوتو پیڑ دیتی ہے

آکے ہم آستاں پہ بیٹھ گئے چل چلاو کا وقت ہے بھائی
آدمی خود ہی دوڑے جاتا ہے خود ہی چابک بدست ہے بھائی

گرم لاشیں گریں فصیلوں سے آسماں بھر گیا ہے چیلوں سے
پیاس بھرتی رہی مرے اندر آنکھ ہٹتی نہیں تھی جھیلوں سے

سہ مصری شاعری میں ہائیکو، ماہیا، ثلاثی اور تروینی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ گلزار تروینی کے بانی ہیں اور میں ماہیا کا محض خدمت گزار۔ (اردوماہیا کے بانی ہمت رائے شرما ہیں)۔ مذکورہ بالا چاروں شعری اصناف میں سے ماہیا واحد صنف ہے جس کی جڑیں اپنی دھرتی میں پیوست ہیں اور جس کے ذریعے ہمارا مقامی کلچراز خود اُگ کر آجاتا ہے۔
اس لحاظ سے ماہیا کے اندر اپنی مقامیت اور اپنی ثقافت کے امکانات کسی بھی دوسری سہ مصرعی صنف سے کہیں زیادہ ہیں۔ یوں تو ہر شاعر کو حق حاصل ہے وہ جس صنف میں چاہے اپنا اظہار کرے۔تاہم مجھے کبھی کبھی یہ احساس ہوتا ہے کہ اگر گلزارجیسے ایک دو شاعروں نے ماہیا کو مس کیا ہوتا تو یہ صنف اردو میں کہیں زیادہ مستحکم ہو گئی ہوتی۔  گلزار کی تروینی میں بھی کچھ خاص بات ضرور ہے۔

وہ میرے ساتھ ہی تھا دور تک، مگر اک دن
جو مُڑ کے دیکھا تو وہ دوست میرے ساتھ نہ تھا

پھٹی ہو جیب تو کچھ سکے کھو بھی جاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ ہر سحر کا وہ جھگڑا نہ شب کی بے چینی
نہ چولھا جلتا ہے گھر میںنہ آنکھیں جلتی ہیں

میں کتنے امن سے گھر میں اداس رہتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں بس میں بیٹھا ڈھونڈنے لگا مڑ کے
نہ جانے کیوں یہ لگا، تم وہیں کہیں پر ہو

تمہار ا’سینٹ‘ کسی اور نے لگایا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے بکھرے ہیں رات دن،جیسے
موتیوں والا ہار ٹوٹ گیا

تم نے مجھ کو پرو کے رکھا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جہاں تک گلزار کے فلمی گیتوں کا تعلق ہے،اپنے الگ ذائقہ کے باعث یہ مجھ جیسے بے شمار سننے والوں کو ہمیشہ اچھے لگے ہیں، اچھے لگتے رہیں گے۔ میں نے شروع میں گلزار کے امر گیت ”ہم نے دیکھی ہے ان آنکھوں کی مہکتی خوشبو“ کا اور تازہ گیت”سُریلی اکھیوں والے۔۔۔۔۔“کا ذکر کیا ہے۔ایسے گیت جن کے درمیان فلم آندھی اور موسم کے شاہکار گیت ہوں۔ اور ایسے ہی اور بہت سارے گیت ہوں، بندہ کس کس گیت کا ذکر کرے؟ اس کے لیے ایک الگ مضمون درکارہوگا کہ ایسے گیتوں کے ساتھ خود ہماری اپنی یادیں بھی وابستہ ہوتی ہیں اور ہر گیت ہماری ایک کہانی اپنے دامن میں لیے ہوتا ہے۔ہاں یہاں میں یہ وضاحت ضرور کروں گا کہ ہماری ادبی دنیا میں بعض لوگ ادب کے نام پر فلموں کے لیے لکھے گئے گیتوں کو ہی کم تر نہیں قرار دیتے، فلمی گیت لکھنے والے اچھے سے اچھے شاعر کو بھی اچھا شاعر ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ یہ در اصل ادب کے نام کی آڑ لے کر ہماری بعض ادبی شخصیات کا اپنا احساسِ کمتری ہوتا ہے۔ جس طرح ادبی دنیا میں بے شمار شاعرہیں۔ ان میں سے بعض بہت عمدہ ہیں، بعض اوسط درجہ کے ہیں، بعض معمولی ہیں اور بہت سارے معمولی سے بھی کم تر درجہ کے ہیں، ایسے ہی فلمی دنیا میں بھی درجہ بندی کی جا سکتی ہے۔اگر کوئی شاعر اچھا ہے تو وہ فلم کے لیے بھی لکھے گا تو گیتوں میں جان ڈال دے گا۔ اگر کوئی اچھا شاعر نہیں ہے تو بے شک وہ فلموں کے لیے نہ لکھتا ہو، (یا لکھنے کے لیے ترستا رہتا ہو) تو فلمی گیت نہ لکھنے کے باوجود وہ بُرا شاعر ہی رہے گا۔

گلزارفلمی شاعر ہو کر بھی نہایت عمدہ ادبی شاعر ہیں۔ پاکستان اور انڈیا دونوں طرف ادبی لحاظ سے ان کا خاص حلقہ احباب ان بزرگوں پر مشتمل ہے جن سے میرا مزاج نہیں مل سکا۔ ایسے ادبی احباب کا پس منظر رکھنے والے گلزار کے لیے میں نے یہ مضمون اتنی ادبی چاہت کے ساتھ لکھا ہے تو یہ دراصل گلزار کی شاعری کا جادو ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گلزار کی نظموں کے کئی پہلو میں نے نظر انداز کیے ہیں، ان پر ابھی مزید لکھنے کی بہت ساری گنجائش موجود ہے۔غزلیں اور تروینیاں بھی ایک ایک الگ مضمون کا مزید تقاضا کرتی ہیں۔اور گیتوں کے بارے میں پہلے ہی اقرار کر چکا ہوں کہ ان کے لیے ایک الگ مضمون درکار ہوگا۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ مجھے زندگی کی طرف سے اتنی مہلت نہیں مل پائے گی کہ میں یہ سارے کام کر سکوں۔ سو اسی ایک مضمون کے ذریعے اپنے پسندیدہ شاعر کے بارے میں اپنی بات کرکے اپنی ادبی محبت کا تھوڑا سا قرض ادا کررہا ہوں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments