لڑکیوں کو مرضی کی شادی کی اب اجازت ہے


آف کورس نجمہ کو اپنی مرضی کی شادی کی اجازت ہے۔ جہالت کے وہ زمانے گئے جب لڑکیوں کو اپنی مرضی کی شادی کرنے کی اجازت نہیں ہو تی تھی اور ان کے والدیں یا گھر کے مرد خود ہی فیصلہ کر کے ان سے پوچھے بغیر کسی بھی کھونٹے سے باندھ دیتے تھے۔ پھر لڑکیوں کو اپنی زندگی ایک عذاب کے طور پر ایک ایسے مرد کے ساتھ گزارنی پڑتی تھی جو ان کی مکمل پسند نہیں ہوتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اور پھر ہم پڑہے لکھے لوگ ہیں انسانی حقوق سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اور یہ بھی سمجھتے ہیں کہ عورتوں کو نہ صرف اپنی مرضی کی شادی کا حق ہے بلکہ اپنی ساری زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزارنے کا حق ہے۔

لیکن زبیر یا اس کے خاندان کو تو ہم جانتے تک نہیں ہیں۔ وہ محض اس کا کلاس فیلو تھا۔ ایسے لڑکوں کا کیا پتا کہ وہ کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔ ویسے بھی ایک دفعہ عذرا کی امی اس کی یونیورسٹی گئی تھیں اور انہوں نے اس کی کلاس کے مختلف لڑکوں کو دیکھا تھا۔ عام سے ہی لوگ تھے سارے۔ یہ زبیر بھی کوئی انہی میں سے ہی ہوگا۔ اور وہ اگر عام سا نہ بھی ہو تو کلاس فیلو سے شادی کا تو پکا مطلب ہے نا کہ شادی مشکوک ہے۔ اس سے نہ صرف خاندان کی بدنامی ہو گی بلکہ عذرا کے اپنے کردار پر داغ لگے گا اور اس معاشرے میں کوئی بھی اس شادی کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھے گا۔ ہمیں کیا پڑی ہے کہ بیٹھے بٹھائے اس مشکل میں اپنے آپ کو ڈال لیں۔

اور کلاس فیلو کی شادی میں تو شاید برداشت کر لوں مگر ہمارے بڑے داماد تو بالکل بھی خوش نہیں ہوں گے اور عذرا کی بڑی بہن کی زندگی عذاب بن جائے گی۔ ہمارے بڑے داماد کا خاندان تھوڑا مذہبی اور روایتی سا ہے۔ وہ لوگ خواتین کی حقوق کو ذرہ اور ہی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ پہلے بھی عذرا کے یونیورسٹی جانے پر انہیں کچھ عجیب سا لگا تھا اور انہوں نے دبے لفظوں میں کئی دفعہ اس بات کا ذکر بھی کیا۔ اب پھر اس بات کو پکا کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ لڑکی کا ایسی یونیوسٹی میں جانا ٹھیک نہیں تھا جس میں لڑکے بھی پڑھتے ہوں۔ اسے کہو باقیوں کی زندگی کا تو کچھ خیال کر لے۔ خاموش ہی رہے تو اچھا ہے۔

ناہیدہ کو مرضی کی شادی کی بالکل اجازت ہے۔ فیصل ساتھ کے گاؤں کا رہنے والا ضرور ہے اور ہم اس کے خاندان کو بھی جانتے ہیں مگر پرابلم یہ ہے کہ ان کی ذات ہم سے مختلف ہے اور سچی بات کہ ہم سے کم تر بھی ہے۔ اور ہمارے خاندان کی یہ روایت رہی ہے کہ ہم اس ذات میں شادی بالکل نہیں کر سکتے۔ جی آپ نے ٹھیک کہا کہ عذرا کی چچی بھی زبیر کی ذات سے ہی تعلق رکھتی ہیں مگر وہ ہماری طرف سے تو لڑکا تھا نا اس لئے گزارہ ہو گیا۔ خاندان کے کچھ لوگوں نے اس شادی کی بھی مخالفت کی تھی اور یقین مانیں میں خود بھی اپنے بھائی کی اس بات سے اتنا خوش نہ تھا لیکن بہرحال ہم لڑکے والے تھے اس لئے مسئلے کی نوعیت کچھ اور تھی۔ سچی پوچھیں تو میں تو ذات پات بالکل قائل نہیں ہوں اور ماشااللہ سے ہمارا مذہب تو انسانوں کی برابری کا قائل ہے لیکن ہم نے لڑکی کا رشتہ اس ذات میں کر دیا تو ہم خاندان میں بے عزت ہو جائیں گے اور یہ پھر ناہیدہ کے لئے بھی تو اچھا نہیں ہو گا۔ اصل میں زیادہ بدنامی تو ناہیدہ کی ہی ہو گی۔ ہمارے پاس کوئی بہانہ نہیں ہے کہ ہم اس شادی کو قبول کر سکیں۔ اس لئے ہمیں اس بدنامی سے بچنا ہو گا۔ ہماری اور ناہیدہ کی عزت اسی میں ہے کہ وہ فیصل کا سوچنا چھوڑ دے اور آئندہ اس کا ذکر بھی نہ کرے۔

رابعہ کو اپنی مرضی کی شادی کی اجازت ہے۔ ہاں لیکن الیاس بہت غریب ہے۔ محض ایک رکشہ ڈرائیور۔ اب ایک رکشہ ڈرائیور کے ساتھ اپنی لڑکی کا رشتہ کر کے ہم اپنے خاندان کی ناک تو نہیں کٹوا سکتے۔ تم ماں ہو، تمہارا کام ہے اسے سمجھاؤ۔ سمجھ جائے گی۔ ہم سارے لگے ہوئے ہیں نا کوئی اچھا رشتہ ضرور آ جائے گا۔

سدرہ کو اپنی مرضی کی شادی کی اجازت ہے مگر اہل تشیع میں تو شادی نہیں ہو سکتی نا۔ جہالت کے وہ دن گئے جب میاں بیوی میں ایک سنی اور ایک شیعہ ہو سکتا تھا، اب ایسا ممکن نہیں۔ اب اگر ایسا کر دیا تو مجھے تو مسجد کے امام صاحب مسجد سے ہی بے دخل کر دیں گے۔ اور پھر اس کے لئے حسن رضا کے علاوہ کوئی لڑکا نہیں بچا۔ مرضی کی شادی کی اجازت ضرور ہے پر میں اس شادی پر ہاں نہیں کر سکتا۔

او بھئی میں کب انکار کر رہا ہوں بیٹیوں کو بھی ضرور مرضی کی شادی اجازت ہونی چاہیے لہذا فروا کو بھی مرضی کی شادی کی اجازت ہے۔ لیکن فیاض میں آخر کمی کیا ہے کہ فروا اسے ناپسند کرتی ہے۔ وہ ہمارے خاندان کا سب پڑہا لکھا لڑکا ہے۔ اتنا اچھا روزگار ہے۔ بہت ہی فرمانبردار قسم کا بچہ ہے اور پھر اس کے ماں باپ کے ساتھ ہمارے اتنے اچھے تعلقات ہیں۔ میں نے بڑی اماں کو کہا ہوا ہے وہ کسی وقت ان کے گھر میں غیر محسوس طریقے سے بات چلائیں گی کہ وہ ہماری فروا کو اپنی بہو بنا لیں۔ مجھے پکی امید ہے کہ وہ یہ بات ضرور مان جائیں گے۔ بڑی اماں کی بات وہ ٹالیں گے نہیں۔ اور ہاں اگر فیاض اور اس کی امی یہ مطالبہ کریں کہ فروا نوکری چھوڑ دے تو پھر اس میں آخر حرج ہی کیا ہے۔ مزے سے گھر بیٹھے اور اپنے میاں اور سسرال کی خدمت کرے۔ کیا ضرورت ہے نوکری کے دھکے کھانے کی۔

اب نیا زمانہ ہے لڑکیوں کو مرضی کی شادی کی اجازت بہرحال ہے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik