گستاخ ملحدین اور شدت پسندوں کا توڑ کیسے کر سکتے ہیں؟


پاکستان کی اکثریتی مسلم آبادی میں ملحدین کے لئے عدم برداشت کی روش و رویہ کی بنیادی و اصولی وجوہات میں سے ایک وجہ ملحدین کا متشددانہ اور متعصبانہ رویہ بھی ہے۔ اکابرین اسلام اور اسلاف کے بارے نازیبا اور سخت سست کلمات کا استعمال نچلے طبقے کے ملحدین میں بالکل اسی شدومد کے ساتھ پایا جاتا ہے جس تعصب و تنگ نظری کا مظاہرہ مولوی حضرات اپنے عقائد کے دفاع اور دوسرے فرقے کے عقائد کی مخالفت میں استعمال کرتے ہیں۔

جس طرح شدت پسند مولوی حضرات نے تعصب اور اشتعال انگیزی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اسی طرح ملحدین کی صف میں بھی بعض افراد نے محض اسلام دشمنی، ہتک اکابرین اور گالم گلوچ کو اپنا نصب الحیات بنا لیا ہے۔

خدا کا انکار کرنا، مذہب سے بیزار ہو جانا یا کسی بھی عقیدے پر کاربند ہونا ہر شخص کا ذاتی و انفرادی فعل ہوتا ہے جسے دوسروں پر زبردستی تھوپنا، اس کا بہ جبر پرچار کرنا اور اس ضمن میں نفرت و بدمزگی کو ہوا دینا کسی بھی طور جائز نہیں ہے۔ آپ اگر اپنا نظریہ جو کہ کچھ بھی ہے، دوسرے شخص تک پہنچانا چاہتے ہیں تو اس کے لئے بنیادی اہم بات اس بات کا ادراک رکھنا ہے کہ مذکورہ عقیدہ، سوچ، شخصیت یا رائے دوسرے شخص کے لئے اتنی ہی اہم اور معتبر ہو سکتی ہے جتنی آپ کے لئے غیر اہم اور غیر معتبر۔

دوسری جانب مسلمین میں اکابرین و عقائد کے بارے میں اختلافی رائے سن کر آگ بگولا ہو جانا، عدم برداشت کا مظاہرہ کرنا یا گالم گلوچ گلوچ پر اتر آنا بھی ایک عام، انتہائی غیر مناسب اور ناشائستہ عمل ہے۔ مکالمہ کے میدان میں اترنے کے لئے موضوع کا بنیادی و جزوی علم اشد ضروری اور کلی علم ہونا مستحسن عمل ہے۔ اگر آپ کا علم درجہ صفر یا معمولی ہے تو مقصد سیکھنا ہونا چاھئیے نا کہ اختلاف و نزاع پیدا کرنا۔ جبکہ یہاں صورت حال یہ ہے کہ تقابل ادیان کے اصول و ضوابط تو درکنار، اسلام کا سطحی علم تک نا رکھنے والے لوگ غیر مسلمین و ملحدین کو اسلام سمجھانے و سکھانے میں جت جاتے ہیں جس کا نتیجہ مزید بگاڑ کی صورت میں نکلتا ہے۔

ہمیں ان تمام عناصر کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے جو جہالت پر ڈٹے رہ کر دانش کدہ کا ماحول بگاڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔ انبیاء و اکابرین اسلام ہوں، دیگر مذاہب کے اسلاف و پیشوا ہوں یا سائنس کے بڑے نام، ہم پر سب کی عزت و تکریم واجب ہے تاکہ فریق متکلم کی دل شکنی نہ ہو اور وہ ہماری بات توجہ سے سنے۔ ہر طرح کا سوال و اشکال اٹھانے کی کھلی آزادی حاصل ہونی چاہیے مگر سوال کا مقصد و منشاء حصولِ معرفت و تحصیلِ علم ہو نا کہ علمی بارود اکٹھا کرنا یا علمی بم مار کر پھٹ پڑنا۔

جن لوگوں نے امام رازی کی تفسیر رازی کا مطالعہ کیا ہے وہ بخوبی جانتے ہوں گے کہ امام صاحب نے خود وجود باری تعالی پر بحث کے دوران کس قدر دقیق اعتراضات اٹھائے اور ان کا جواب بھی دیا ہے اور اس طرح ان لوگوں کی راہنمائی کی ہے جو کہ تشکیک کی جانب گامزن ہو رہے تھے۔ چارلس ڈارون کی اوریجن آف سپیشیز میں کسی بھی مذہب کے اکابرین کو گالی نہیں دی گئی۔ سٹیفن ہاکنگ وقت کی تاریخ میں کہیں بھی دشنام درازی کرتے نظر نہیں آتے۔ رچرڈ ڈاکنز نے دی گاڈ ڈیلوژن میں کسی بھی جگہ غیر اخلاقی رویہ نہیں اپنایا۔ پیر کرم شاہ الازہری ضیاءالنبی میں مستشرقین کے جواب دیتے وقت کہیں بھی آپ کو متشدد یا حقارت آمیز کلمات ادا کرتے نظر نہیں آئیں گے۔

علم سیکھنے کی چیز ہے اور جس نے جو سیکھا ہے اس کو اس پر کوئی بھی بنیاد کھڑی کرنے کا مکمل حق حاصل ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ آپ جو پڑھ بیٹھے ہیں اور جو سمجھے ہیں اسے دوسرے پر مسلط کرنے کا تہیہ کر کے نکل پڑیں۔ ہمیں پاکستان کے علمی انحطاط کے ماحول میں نئی پنیری لگانے کی بنیاد ڈالنا ہو گی۔ ہمیں ایک ایسا معاشرہ اور علمی فضا قائم کرنا ہو گی جس میں تمام افراد کو اپنے عقائد پر کاربند رہنے کی مکمل آزادی فراہم کرتے ہوئے مذہب کو ذاتی معاملہ قرار دینا ہو گا۔ عقیدے اور نسل کے تمام بکھیڑوں سے نکل کر ایک تعمیری نہج کے معاشرے کے قیام کی جانب عملی قدم رکھنا ہو گا۔ تنگ نظر مولوی، شدت پسند ملحدین اور مادرپدر آزاد لبرلز کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے ایسا ماحول قائم کرنا ہو گا جہاں پر ملحد کو مذہب پر اپنے اشکال بیان کرنے اور اسے کھوجنے کی آزادی اور علمائے اسلام کو اس کا علمی دفاع کرنے کا حق حاصل ہو مگر عوام الناس کو اس مکالمے میں دخل اندازی کی اجازت فقط سیکھنے سمجھنے کی حد تک ہو۔ ۔ ہم مکالمے کی ایسی فضا قائم نہیں کریں گے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہمارے نوجوان انٹرنیٹ پر ملحدین یا مذہبی شدت پسندوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔ وہ اپنی فکری الجھن بیان کرتے ہوئے ڈریں گے اور ان کے ذہن میں ایسا الجھاؤ پیدا ہو گا جس سے وہ بظاہر تو عام سے مسلمان دکھائی دیں گے مگر یہ تشکیک ان کو اندر سے ایک ملحد یا انتہاپسند دہشت گرد بنا ڈالے گی۔ کیا یہ صورت حال قابل قبول ہو گی؟ اہل علم کو نوجوانوں سے مکالمے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ کسی بھی فرد کی پکڑ اس کے ذاتی عقیدے پر نا ہو بلکہ شعائر اسلام اور دوسرے کے عقیدے کے بارے استہزائیہ اور توہین آمیز رویہ اپنانے پر ہو۔

راقم کی نظر میں مستحکم پاکستان کی بنیاد اسی صورت میں نظر آتی ہے جب گلگت سے گوادر تک بسنے والے تمام شہریوں کی ایک ہی پہچان ہو کہ وہ پاکستانی ہیں اور انسان ہیں۔

ابن حیدر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).