جماعت اسلامی عروج سے زوال تک


کافی مدت بعد بانی جماعت اسلامی سید مودودی صاحب کی کتب کا ایک بار پھر مطالعہ کیا۔ ان کی سوچ اور ان کی جماعت کے منشور کو بغور پڑھا۔ ان کی انتخابی سیاست اور اتار چڑھاؤ کو دیکھا اور جو نتیجہ اخذ کیا وہ پیش خدمت ہے۔ اگر میں غلط ہوں تو اصلاح کیجئے اگر جماعت غلط ہے تو وہ اپنی اصلاح کرنے پر غور کرے۔ سید مودودی رحمہ اللہ کی زندگی کے کاموں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے تو بات سمجھنے میں زیادہ آسانی ہو گی۔

ہندوستان کے علماء جب کانگریس کے ساتھ مل کر انڈین نیشنل سیاست کر رہے تھے تو اس وقت سید مودودی نے قلم کے ذریعے میدان سنبھالا اور مسلمانوں کو مخاطب کیا۔ ان کی اول اول کی تحریریں متحدہ قومیت کی نفی اور کانگریسی علماء کی رد میں تھیں۔ انہوں نے پوری قوت سے کانگریسی فکر کا رد کیا۔ مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا ابوالکلام آزاد کی سوچ کو دلائل سے غلط ثابت کرنے کی بھرپور کوششیں کیں۔ انہوں نے ابوالکلام آزاد پہ ادبی جملے بھی کسے۔

ہندوستان کی آزادی کے لیے ہندوؤں کے ساتھ مل کر جو لوگ انگریز کے خلاف لڑ رہے تھے مولانا نے ان پہ بھی تنقید کی۔ وہ کہتے تھے انگریز بھی کافر ہے اور ہندو بھی۔ وطن کے لیے لڑنا اور پھر ایک کافر سے آزادی حاصل کر کے دوسرے کافر کی غلامی کرنے کے لیے جدوجہد کرنا فضول ہے۔ سید مودودی نے اسلام کا نعرہ بلند کیا۔ سید مودودی کی یہ تحریریں مسلم لیگی تحریک کے لیے روح کا درجہ رکھتی تھیں۔ مسلم لیگ والوں نے ان کی تحریریں اپنے جلسوں جلوسوں میں بانٹیں۔ مسلم لیگ والے سید مودودی کو اپنا سمجھتے رہے لیکن سیدی یہاں رکے نہیں انہوں نے اپنی کمانوں کا رخ مسلم لیگ کی طرف بھی کیا۔

انہوں نے جس طرح انڈین نیشنلسٹ سیاست کی نفی کی اسی طرح مسلم قوم پرستی کی بھی نفی کی۔

یہاں سے ان کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے۔

سیدی کا موقف تھا کہ مسلمان قوم نہیں بلکہ امت مسلمہ اور حزب اللہ ہیں۔ مسلم لیگی مسلمانوں کا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں اسلام کا نہیں۔ مسلم لیگی بھی قومی مفادات کے لیے لڑ رہے ہیں ان کی لڑائی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

انہوں نے تحریک پاکستان پر بھی اسی طرح تنقید کی جس طرح متحدہ قومیت پر کی۔ وہ کمال بے نیازی کے ساتھ تحریک پاکستان سے بھی دور رہے۔ انہوں نے مسلم لیگیوں سے بھی دوری اختیار کی اور اپنا منشور بنا کے اس پہ چل پڑے۔

سن اکتالیس میں اپنی جماعت بنا کے نئے طریقے سے کام شروع کیا۔ انہوں نے پوری نوع انسانیت کو مخاطب کیا وہ اسلام کی ہمہ گیریت کے قائل تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ دنیا کے موجودہ مسلمان صرف کاغذی مسلمان ہیں اور دنیا کے غیر مسلم کاغذی غیر مسلم ہیں، ان دونوں کو دعوت دے کر اسلام کی طرف پکارا جائے۔ ان کی اخلاقی علمی اور فکری تربیت کر کے حکومت الہیہ قائم کی جائے۔ ان کا نقطہ نظر تھا کہ اسلام مکمل غلبہ چاہتا ہے۔ مسلمان حزب اللہ اور امت مسلمہ ہیں۔ ان کو تیار کر کے انقلاب لایا جائے۔

(یاد رہے کہ یہی سوچ عسکری تنظیموں کی بھی ہے وہ آج کے مسلمان کو حقیقی مسلمان کی بجائے کاغذی مسلمان سمجھتا ہے اسی لیے وہ ان کا قتل بھی جائز سمجھتا ہے)

سید مودودی اسلامی نعروں کے ساتھ میدان میں اتر کے کام کرنے لگ گئے اس دوران پاکستان بن گیا پاکستان بننے کے بعد ان کا تیسرا دور شروع ہوتا ہے۔

پاکستان بننے کے بعد جماعت اسلامی سیاست کے میدان میں اترتی ہے۔ پاکستان بننے تک جو موقف اپنایا گیا اب اس کے رد کا وقت بھی شروع ہو گیا۔ سید مودودی سیاست کی طرف کیوں آئے؟ کیا ٹھوس وجوہات ہیں اس کا علم نہ ہو سکا؟ اتنے اعلی نعرے کیوں چھوڑ کے یکدم جمہوری سیاست کی طرف آ گئے؟ بہرحال یہ سوال جواب مانگتا ہے مجھے آج تک اس سوال کا جواب نہیں ملا۔ حکومت الہیہ آخر میں قائم کرنے والے جمہوریت کے راستے سے پہلے پہل کیوں نمودار ہوئے؟

چلیں اس سوال کو رہنے دیں آگے بڑھتے ہیں۔

یہاں میں اپنے قارئین کی دلچسپی کے لیے سن 51 کے الیکشن کی تھوڑی سی تفصیل بھی رکھنا چاہتا ہوں۔

جب اکیاون کا الیکشن ہوا تو جماعت نے عجیب نظام وضع کیا۔ جماعت نے پنچایتی سسٹم بنایا، امیدوار بننے کے عمل کو حرام کہا، اپنے لیے ووٹ مانگنا بھی حرام ٹھہرا اور الیکشن کا خرچہ بھی ممنوع قرار پایا۔ سارا کام پنچایت کے ذمے لگایا گیا۔ جماعت کو اپنے پروں پہ اڑنے کا کتنا ناز تھا؟ آپ اندازہ لگائیں کہ جماعت نے یہاں بھی کمال بے نیازی دکھائی۔ سیدی نے کسی جماعت سے اتحاد نہیں کیا۔ جن لوگوں نے اتحاد کا کہا ان کو جواب دیا کہ آپ کا اور ہمارا اتحاد ہو ہی نہیں سکتا۔ آپ کسی اور راستے کے مسافر ہیں اور ہم کسی اور راستے کے۔ روایتی نظام سے ہٹ کے چلنے کی بھرپور کوشش کی۔ خود کو ناگزیر سمجھنے کی بڑی غلطی کی۔ لیکن پاکستانی قوم بھی پاکستانی قوم ہے، یہ جلسوں میں کانوں کی عیاشی پوری کرنے کے لیے تو آتی ہے لیکن ووٹ کسی اور کو دیتی ہے۔ قوم نے بھی بےاعتنائی برتی۔ قوم نے ایک امیدوار بھی کامیاب نہیں کیا۔ جی ہاں ایک امیدوار بھی۔

جب ہوش ٹھکانے آ گئے تو بعد میں سیدی نے انہی لوگوں سے ہاتھ ملایا جن کے ساتھ اتحاد سے انکار کیا تھا۔ اور بعد ازاں فاطمہ جناح کا ساتھ دیا اور بحالی جمہوریت کی مہم شروع کر دی۔ ایوب خان کے دور میں ہی جماعت اسلامی ایک روایتی پارٹی بن چکی تھی۔ وہ مشن وہ علم جو سید مودودی لے کر اٹھا تھے اسے چھوڑ کر اپنی زندگی میں ہی روایتی سیاست شروع کر دی۔

بعد ازاں حال یہ ہوا کہ کبھی ضیاءالحق کا ساتھ دیا اور کبھی نوازشریف کا۔ آج کل ایک جگہ نوازشریف کے ساتھ اتحاد ہوتا ہے تو دوسری جگہ عمران خان کے ساتھ۔ خود کو زندہ رکھنے کے لیے کبھی افغان جہاد کا چورن بیچا کبھی کشمیر کا۔ کبھی دھرنا سیاست کی اور کبھی آمروں کی چھتری تلے پناہ ڈھونڈنا چاہی۔ آج جماعت اسلامی ایک کنفیوز جماعت بن چکی ہے۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کریں؟

جماعت کے پاس لکھنے والے لوگ بھی نہیں اور سیاسی دماغ والے افراد بھی نہیں۔ ہاں جماعت فلاحی کام اچھا کرتی ہے۔ قوم ان کو چندہ تو دیتی ہے مگر ووٹ نہیں۔

سید مودودی نے جن لوگوں کو تنقید کا نشانہ بنایا وہ کمال مستقل مزاجی کے ساتھ ایک طرف کھڑے ہوئے تو پوری ایمانداری سے کھڑے ہوئے۔ انہیں غدار ایجنٹ تو کہا گیا لیکن ان کے موقف میں نرمی نہیں آئی۔ سید کے موقف بدلنے کے پیچھے وجوہات کیا تھیں مجھے علم نہیں۔ اگر میں یوں کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ جماعت کا انتخابی میدان میں اترنا ہی غلط تھا۔ ان کے نعرے پرکشش تو تھے لیکن ان کا موجودہ دور کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا اس لیے کہ عروج و زوال کے اصول الگ الگ ہوتے ہیں۔ کہاں آزادی کہاں غلامی؟ بہرحال سید مودودی نے جو سوچ اپنائی وہ قابلِ العمل نہ تھی۔

اس لیے اگر میں منیر نیازی کی زبان میں کہوں تو بے جا نہ ہو گا

تھا منیرؔ آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط
اس کا اندازہ سفر کی رائیگانی سے ہوا

االلہ کرے جماعت کو سفر کی رائیگانی کا اندازہ ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).