کیا آپ گیبو سے حسد کرنا پسند کریں گے


پہلی دفعہ میں نے اس سے حسد کیا۔ جب مجھے میرے دو سو یا تین سو دوستوں کے سوا کوئی نہ جانتا تھا۔ آج شاید یہ تعداد پانچ سو ہو گئی ہو۔ مجھے لگتا کیا اس کے سوا دنیا میں کچھ قابل ذکر نہیں رہا۔ اس کا ذکر ساری دنیا کی انسان فراموشی ہے، یہ جنونیت تھی۔ جہاں اس کا ذکر ہونے لگتا، میں ناگواری کے انداز میں اٹھ جاتا۔
مجھے یاد ہے میں نے اس کا نام دوسرے سمیسٹر میں سنا تھا۔ مجھے ماریو ورگاس لوسا کے ناولوں کے نام اچھے لگتے تھے۔ ہیرو کا وقت( The Time of Hero)  اینڈز میں موت  (Death in the Andes )اور کہانی کار (The Storyteller ) میں انہیں پڑھنے لگا تھا۔

میں “ہیرو کا وقت” اٹھائے کلاس میں داخل ہوا۔ مجھے لگا میں Jaguar ہوں یا اسی کا کوئی دوسرا کردار۔ یہ ناول نوجوان طالب علموں کی کہانی تھی جنہوں نے ملٹری اکیڈمی میں بغاوت کی بنیاد رکھی۔ جنہوں نے پرچے چرائے اور عشق کئے۔ اکثر جب آپ ناول پڑھتے ہیں تو خود کو اس کا کوئی کردار سمجھنے لگتے ہیں۔ جیسے جان لینن کے قاتل “مارک ڈیوڈ چیپمین” نے خود کو سمجھا۔ اس نے جان لینن کو مارا اور ( The Catcher in the Rye )  پڑھنے لگا۔
میں کمرہ میں داخل ہوا جب میرے استاد نے اسے دیکھا، اس کی پشت پر درج ماریو کے لاطینی پس منظر کو پڑھا اور بولے :تم نے مارکیز کو پڑھا ہے؟ میں نے پوچھا آپ نے ماریو کو پڑھا ہے۔ واقعات ایسے ہی جنم لیتے ہیں۔
اگلی بار مجھے اس سے خلش ہوئی۔ آپ بلا وجہ کسی سے حسد نہیں کر سکتے۔ میں نے “وبا کے دنوں میں محبت” پڑھنا شروع کر دیا۔ مجھے محسوس ہوا محبت کے نزدیک کوئی سرحد وجود نہیں رکھتی۔ فاصلے کی، قسمت کی، فطرت کی، عمر کی۔ یہی تو رومانوی ناول کا مقصد ہوتا ہے۔
ڈاکٹر فاؤسٹ کے مخصوص پلاٹ کی مانند جس میں شیطان ہمیشہ پہلے فریاد سنتا ہے، بلاوجہ کی نفرت محبت میں بدلنے لگی۔ اگلی باری “تنہائی کے سو سال” کی تھی۔ اس کے اندر ایک کردار، جس کا جب جی چاہتا وزن بڑھاتا یا کم کر لیتا، نے دنیا کا سفر چار دن میں طے کیا تو میں ہنسا اور کتاب بند کر دی۔ اسی رات گیبو مر گیا۔ اسی رات میری محبت عقیدت میں بدل گئی۔
گیبو نے ایسے ہی زندگی گزاری۔ ابتداء سے انتہاء تک۔ کبھی کسی نے اسے لکھنے کے علاوہ کچھ دوسرا کرنے کا مشورہ دیا تو کبھی انہی لوگوں نے اس کا ایک ایک لفظ چھاپنے کی خاطر قطاریں بنائیں۔ جس نے مرتے وقت آخری الفاظ یہ لکھے کہ دوسری زندگی میں وہ وہی کچھ نہیں لکھے گا، جو سوچے گا۔ وہ سادہ کپڑے پہنے گا اور پوری دنیا کو اپنی محبت کا یقین دلائے گا۔
گیبرئیل گارشیا مارکیز جسے آپ گیبو کہیں یا نوجوان بوڑھا، حسد کریں یا نفرت کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آخر وہ ان تمام کے مقابل آپ کی خود سے محبت آراستہ کر لے گا، عقیدت بن جائے گا۔
جس نے لاطینی ادب کو نیا جنم دیا، جس نے جادو کو حقیقت میں بدل دیا، جس نے سلطنتوں سے وسیع ماکونڈو بسایا، جس سے نوبل انعام کی قدر اور بڑھ گئی اور جس کی پیدائش نے 6 مارچ 1927 کو تاریخ کے جدول میں ہمیشہ کے لئے امر کر دیا۔ جو آج نوے برس کا ہو گیا ہوتا۔ کیا آپ اس سے حسد کرنا پسند کریں گے؟ الفت وہ خود ہی پیدا کر لے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).