ہم سوتیلے والدین سے کیسے پیش آئیں؟


حال ہی میں میری ایک عزیزہ ف نے اپنی سوتیلی بیٹی کے بیاہ میں ہمیں مدعو کیا۔ اس  شادی کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ف کا پورا خاندان بھی شریک تھا، اور ان کی سوتیلی بیٹی کی سگی والدہ اور ان کا پورا خاندان بھی شامل تھا۔ یہ بچی والدین کی طلاق کے بعد اپنے والد اور ان کی دوسری بیوی یعنی ف اور اپنی سگی والدہ، سب کے ساتھ وقت گزارتی تھی اور ف نے پچھلے پندرہ سال سے اس سوتیلی بیٹی کی پرورش میں اپنے شوہر اور ان کی سابقہ اہلیہ کے شانہ بشانہ حصہ لیا، اپنے جذبات سے بھی، رویے سے بھی اور اپنے روپے پیسے سے بھی۔ نتیجتاً وہ سوتیلی بیٹی نہ صرف ایک تعلیم یافتہ اور اچھی انسان بنی بلکہ وہ ایک مضبوط اور مکمل شخصیت کی مالکہ ہے جس میں کوئی کجی یا کمی نہیں ہے اور وہ بچی ف سے محبت بھی کرتی ہے اور ان کی عزت بھی کرتی ہے۔

موجودہ دور میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ سے ایسے مخلوط خاندان بھی وجود میں آ رہے ہیں جن میں میاں بیوی میں سے دونوں یا پھر ایک اپنے پہلے شریک حیات سے پیدا ہونے والے بچوں کو ساتھ رکھتے ہیں۔ مغربی معاشرے میں ایسا خاندان جس میں پہلے بچے اور پھر دوسری شادی کے نتیجے میں ایک جوڑے کے اپنے بچے بھی ہوں، اسے بلینڈڈ فیملی کہا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی اب ایسے بہت سے خاندان وجود میں آ رہے ہیں لیکن ابھی بھی معاشرے میں ان کو  قبولیت کا وہ درجہ حاصل نہیں جو کہ ہونا چاہیے۔

 یہ بات درست ہے کہ بہت سی چیزیں اور بہت سے رشتے ہمارے معاشرے کے لئے نئے ہیں اور ہم انہیں برتنے کے ادب آداب اور قرینے سے واقف نہیں ہیں مگر اس میں کوئی برائی بھی نہیں کہ اگر ہم ایک نئی بات نہیں جانتے تو کسی سے پوچھ لیں، سمجھ لیں یا سیکھ لیں۔

ایک بلینڈڈ خاندان یا سوتیلے والدین معاشرے میں دوسرے لوگوں سے کس رویے کے متمنی ہیں، یہ جاننا بھی شاید چند لوگوں کے لئے مشکل ہو اور وہ باوجود اپنی فطری اچھائی کے، لاعلمی کی وجہ سے ایسے لوگوں کی انجانے میں دل آزاری کر دیتے ہوں۔

میری ایک بزرگ عزیزہ تھیں، جن کو شادی کے بعد پانچ ایسے سوتیلے بچوں کی پرورش کا کام سونپ دیا گیا جن کی والدہ کی وفات ہو چکی تھی۔ ان کے سوتیلے بچوں نے مرتے دم تک ان کی قدر کی اور خدمت کی، یہاں تک کہ ان کی وفات بھی ایک سوتیلے بیٹے کے ہاں ہی ہوئی، مگر خاندان میں ہمیشہ ایسی ہی باتیں سننے کو ملیں کہ وہ ان سوتیلے بچوں کو میز کرسی کی بجائے دسترخوان پر کھانا دیتی تھیں اور اپنے خود کے بچوں سے امتیازی سلوک روا رکھتی تھیں۔

کچھ سوتیلی مائیں شاید بری ہوتی ہوں گی، کچھ سوتیلے والد بھی شاید اچھے نہ ہوتے ہوں گے۔ مگر میرا ذاتی مشاہدہ اور اعتقاد یہ ہے کہ ایک اچھا، ذمہ دار اور مخلص انسان ہر رشتے میں اچھا ہی ہوتا ہے اور اسے خلوص نیت سے ہی نبھاتا ہے۔

اگر آپ کسی شخص کو اپنے حلقہ احباب میں شامل کرتے ہیں تو انہیں خوبیوں کی بنا پر کرتے ہوں گے کہ وہ اچھے یا مخلص لوگ ہیں، اس لئے اگر آپ کسی ایسے مخلوط خاندان سے ملیں تو ان کے بارے میں اچھا گمان رکھیں۔ ان کے ماضی کے بارے میں نہ سوچیں نہ بات کریں۔ یقین مانیں وہ لوگ اب آگے کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے سابقہ شریک حیات کا ذکر کسی طرح سے انہیں پسند نہیں آئے گا خواہ اچھا ہو یا برا۔ کسی بھی شخص کی سابقہ اہلیہ اور نئی اہلیہ یا سابقہ شوہر اور نئے شوہر کا تقابل بھی کسی طور درست نہیں خواہ آپ سابقہ شریک حیات کو برا ہی کیوں نہ کہہ رہے ہوں۔

 آپ اگر ایک اچھا رویہ رکھنا چاہتے ہیں تو ماضی کی ایسی باتوں کا تذکرہ مت کیجیے۔ اور یہی اصول سنگل طلاق یافتہ ماؤں سے ملنے میں بھی لاگو ہوتا ہے۔ ان سے مت کریدیں کہ ان کے سابقہ شریک حیات کی شادی ہو گئی ہے یا نہیں یا ان کی طلاق کی کیا وجوہات تھیں۔ اس سے آپ کو کچھ حاصل نہیں ہو گا مگر ان خواتین کی شدید دل آزاری ہو گی۔ اگر کوئی دل کا غبار نکالنا چاہتا ہو گا تو وہ آپ سے خود بات کر گا ۔آپ کی کرید ہرگز بھی مددگار نہیں ہے ایسے لوگوں کے لئے۔

 اسی طرح اگر ایک سوتیلی ماں یا سوتیلا باپ اپنی سوتیلی اولاد کا ذکر چاہت سے کرتے ہیں تو آپ بس ان کا اعتبار کر لیں۔ ان کو گھنا، میسنا یا دکھاوا کرنے والا مت سمجھیں کیونکہ آپ ان کے دلوں کے حال سے واقف نہیں ہیں۔ ان کے سوتیلے بچوں کی برائی ان سے مت کریں کیونکہ اگر وہ اپنے سوتیلے بچوں کی تربیت میں حصہ لے رہے ہیں تو وہ کسی بھی عام والدین کی طرح اس تربیت کے بارے میں بری بات سننا نہیں چاہیں گے۔ ایسے والدین سے اسی طرح پیش آئیں جیسے آپ کسی بھی سگے والدین سے پیش آتے ہیں۔ اگر ایک سوتیلی والدہ کہے کہ میرا نوعمر سوتیلا لڑکا کمرے میں کتابیں بکھیرتا ہے تو اس منفی بات کو ایک سوتیلی والدہ کی منفی بات کی بجائے کسی بھی والدہ کی محبت بھری منفی بات کے طور پر لیں کیونکہ سگی مائیں بھی اپنے بچوں کے رویے کے بارے میں خفگی کا اظہار کر سکتی ہیں۔ سوتیلے والدین کو اپنے جذبات اور محبت کا اظہار کرنے کی آزادی دیں۔ ان سے ایسے پیش آئیں جیسے آپ کو ان پر مکمل اعتبار ہو، اور ان پر اعتبار کریں بھی۔ ایک مشکل نظام کو لے کر چلتے ہوئے لوگوں کے لئے آپ کا مثبت رویہ بہت حوصلہ افزائی کا باعث بنے گا۔

ایک اور بات میرے علم میں یہ آئی کہ مغربی معاشرے میں سٹیپ کا لفظ ان بہن بھائیوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو ماں یا باپ کہ شادی کے نتیجے میں بہن بھائی ہوتے ہیں مگر ان میں کوئی خونی رشتہ نہیں ہوتا۔ اگر ان کا باپ ایک ہی شخص ہو لیکن مائیں مختلف ہوں یا ماں ایک ہی ہو اور باپ  مختلف ہوں  تو ایسے بہن بھائی ہاف سبلنگز کہلاتے ہیں۔ ایسے بہن بھائی جن میں کوئی خونی رشتہ نہ ہو مگر والدین انہیں بہن بھائیوں کی طرح پال رہے ہوں تو ان والدین کو یہ مشورہ دینا بھی صائب نہیں کہ وہ کل کو ان کی آپس میں شادی کر دیں کیونکہ بات خون سے زیادہ اس یقین اور اعتماد کی ہوتی ہے جو آپ کسی رشتے کے بارے میں رکھتے ہیں۔ مانا کہ ایسے بچوں کی شادی شرعاً جائز ہے مگر یہ ان کے والدین کے مسائل ہیں جو وہ خود سے حل کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔

اسی طرح ایسے بچے جو سوتیلے رشتے نبھا رہے ہوں ان کو اکیلے پا کر ان کے سوتیلے والدین کے برتاؤ کے بارے میں سوالات مت کریں۔ نہ ہی یہ پوچھیں کہ سگی ماں اچھی لگتی ہے یا کہ سوتیلی۔

زمانہ بدل رہا ہے اور اب ہمیں بھی رشتوں کو اور لوگوں کو اپنے پرانے دقیانوسی تصورات کی عینک اتار کر دیکھنا ہو گا۔ اسی طرح ہی ہم کسی کی دل آزاری کا باعث نہیں بنیں گے اور یہ ایک بہتر معاشرے کے قیام کے لئے ایک مثبت قدم ہو گا۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim