سِیک سیمینار کراچی کی جھلکیاں


“سِیک” کی تیسری نشست کا اہتمام 4 مارچ 2017ء کو پرل کانٹیننٹل ہوٹل کراچی میں ہوا۔ ثاقب ملک نے سوشل میڈیا کے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کا بِیڑا اٹھا رکھا ہے۔ وہ چاہتے ہیں، مختلف خیال کے لوگ آپس میں مل بیٹھیں، اپنی بات کہیں دوسروں کی سنیں؛ دُور بیٹھے کلام کرنے والے، قریب ہو کر سلام کریں۔ کراچی اور کراچی کے شب و روز ثاقب ملک کے لیے اجنبی تھے، اس تقریب کا انصرام کرتے وہ کس جوکھم سے گزرے، یہ وہ جانتے ہوں گے اور اُن کا خدا۔ سِیک میں بہت سے افراد کی دل چسپی اتنی ہی تھی، کہ اُن دوستوں سے مل لیا جائے، جنھیں وہ فیس بک پر محسوس کرتے ہیں، لیکن یہ اس سے کچھ بڑھ کر ہے۔

ابتدا میں ڈاکٹر اسحاق عالم نے “آئمہ مساجد کے مثبت و منفی کردار” پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اُن کا زور اس بات پر تھا، کہ مساجد میں دیا جانے والا خطبہ ریاست کی منظوری سے ہو؛ تا کہ  خطیب کی کسی بات کی ذمہ دار ریاست ہو، نہ کہ خطیب سے باز پرس کی جائے۔ اسحاق عالم مسلکی منافرت پھیلاتی تقاریر کی سخت مخالف دکھائی دیے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ایک محلے میں ایک مسلک کی مسجد ہو تو دوسرا مسلک والا چاہتا ہے مقابلے میں اس کے مسلک کی مسجد کھڑی کر دی جائے۔

عاطف حسین “اعداد و شمار کا دھوکا” سمجھانے آئے۔ یہ ایسا مضمون ہے کہ جسے سمجھ کر بھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ بس

یوں سمجھ لیجیے کہ ایک ہی طرح کے اعداد و شمار سے “سِیک سیمینار” کو کام یاب کاوش قرار دیا جا سکتا ہے، اور انہی اعداد و شمار کے سہارے ناکام بھی ثابت کیا جا سکتا ہے۔ شام تو ہو چلی تھی، ایسے میں اعظم  معراج نے اُمید کے دیئے روشن کیے؛ اعظم معراج پاکستانی مسیحی برادری کی نمایندگی کر رہے تھے۔ اُنھوں نے زور دیا کہ پاکستانی مسیحیوں کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، پہلے بھی مسیحی برادری نے پاکستان کی خدمت کی ہے اور آگے چل کر بھی انھیں اس دھرتی پر پھول اگانے ہیں۔ سوال جواب کے دورانیے میں وہ مسلسل اصرار کرتے رہے کہ مسیحیوں سے امتیازی سلوک جزوی معاملہ ہے دراصل محکوم طبقہ کسی مذہب سے ہو اُس سے ناروا سلوک برتا جاتا ہے۔ اعظم معراج کی شرکت گویا سِیک سیمینار مہکانے کے لیے تھی۔ خوشبو بکھیرنے والے اعظم معراج وہ بہار ہیں، جنھیں سُنتے اُمید کی کلیاں کھِلنے لگتی ہیں۔

عمار یاسر زیدی نے “ایم کیو ایم کا ماضی حال اور مستقبل”  کے موضوع پر تقریر کی؛ سِیک کراچی کی سب سے گرم نشست یہی تھی۔ عمار یاسر زیدی نے احوال واقعی بیان کیا، لیکن کچھ اسے ایم کیو ایم کی حمایت سمجھے اور کچھ مخالفت۔ سمجھنے والے سمجھانے والے کی سمجھ کے محتاج ہی کب ہوتے ہیں۔ سوال جواب کے وقفے میں عمار یہی وضاحت کرتے رہے کہ انھوں نے ایم کیو ایم کی تواریخ پیش کی ہے اور کچھ نہیں۔

لاہور سے عامر ہاشم خاکوانی تشریف لائے تھے؛ جمیل خان کی کتاب اور فیض اللہ کی کتاب “ڈیورنڈ لائن کا قیدی” کے ساتھ عامر ہاشم خاکوانی کی کتاب “زنگار” کی تعارفی نشست ہوئی۔ جمیل خان کی کتاب کا تعارف مبشر زیدی نے پیش کیا؛ اس کے بعد جمیل خان نے کتاب لکھنے کی وجوہ پر روشنی ڈالی۔ رعایت اللہ فاروقی نے “زنگار” کے پہلے کالم “لاہور کا آخری داستان گو” کا حوالہ دیتے خاکوانی صاحب کو “درویش” قرار دیا۔ صاحبِ کتاب نے “زنگار” کے متعلق کہا کہ اُن کی کوشش رہی ہے کہ کتاب کے لیے وہی کالم منتخب کیے جائیں جن کی عمر ایک دن کی نہ ہو۔ “ڈیورنڈ لائن کا قیدی” کا تعارف کرواتے عامر ککے زئی نے کہا کہ فیض اللہ نے اپنی قید کی داستان لکھ کر واضح کر دیا ہے کہ اچھے اور برے طالبان کی سوچ مہمل ہے؛ سبھی طالبان ایک جیسے ہیں اُن کے مقاصد ایک سے ہیں۔ فیض اللہ نے اعتماد سے شرماتے ہوئے کہا کہ انھوں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ وہ کتاب لکھیں گے۔

ماضی کے مقبول ڈائجسٹ “سب رنگ” کے مدیر شکیل عادل زادہ کی کہانی انھی کی زبانی سنی گئی۔ جنھوں نے ستر اور اسی کی دہائی کا
“سب رنگ” دیکھا ہے، وہ ان کی ساحرانہ شخصیت سے خوب واقف ہیں۔ اندیشہ تھا کہ شکیل عادل زادہ سے زیادہ سوالات نہ پوچھے جائیں گے کہ آج کی نسل ان سے بالکل واقف نہیں لیکن حیران کن طور پر سوال ختم ہونے کو نہ آئے شکیل عادل زادہ کہا کہنا تھا کہ اردو زبان لسان نہیں ایک تہذیب کا نام ہے جو ختم ہو چلی؛ ان کی نظر میں اردو کا مستقبل تاب ناک نہیں ہے کیوں کہ زبانیں وہی زندہ رہتی ہیں، جن کی ڈور معیشت سے جڑی ہو؛ اس کے باوجود کہ پاکستان میں اردو اخبارات کی اشاعت انگریزی روزناموں سے زیادہ ہے، یہ زبان روزی روٹی کمانے میں ممد و معاون نہیں۔ کچھ اسی طرح کا دعویٰ اسی سِیک  سیمینار میں اقبال خورشید نے “ادب اور اردو کی معیشت” پر بات کرتے کیا تھا. اقبال خورشید کی نظر میں اردو زبان نہیں، محض “بولی” بن کر رہ جائے گی۔

“کیا کراچی بدل رہا ہے؟” پینل ڈسکشن میں محمد طاہر، عامر ہاشم خاکوانی، خرم سہیل، فیض اللہ خان، رانا آصف، اور رعایت اللہ فاروقی شریک تھے۔ اس مباحثے کا کوئی سر پیر نہ دکھائی دیا۔

“سوشل میڈیا اور سوشل ازم” اس پر گفت گو کے لیے اعجاز منگی کو موقع دیا گیا۔ منگی نے سوشل میڈیا کو پاکستانی معاشرے کے لیے نقصان دہ قرار دیا جہاں افواہوں کو خبر بنا کر پیش کیا جاتا ہے؛ ان کا شکوہ تھا، کہ دُور بیٹھے کی چاہ میں قریب بیٹھے کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا، کہ مجھے کیمونسٹ نہ کہا جائے؛ کیمونسٹ وہ ہوتا ہے، جو جدوجہد کرتا ہے میں کیمونسٹ نہیں مارکسسٹ ہوں۔ اعجاز منگی نے کہا کہ سِیک  کی یہ تقریب کسی میدان میں بھی ہو سکتی تھی فائیو اسٹار ہوٹل میں بیٹھ کر میں مزدور کی بات کریں یہ انھیں زیبا نہیں۔ ایسے میں کسی نے سوال کیا، “بتایا گیا ہے، کہ آپ (اعجاز منگی) اخبار “اُمت” سے منسلک ہو گئے ہیں، اب یہ بتائیں آپ اُمت مسلمہ میں کب شامل ہو رہے ہیں؟” حاضرین میں سبھی نے ایسے بے محل سوال پر ناگواری کا اظہار کیا، لیکن اعجاز منگی نے تحمل سے جواب دیتے کہا کہ مجھے اپنے “ایمان” کے لیے کسی سے سرٹفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں۔

صفوان چوہان نے “انٹرنیٹ سیکورٹی” کے بارے میں معلومات دیں۔ ایسی مجلس جہاں سوال کے بہانے ہاتھ اُٹھانے والے سوال کرنے کے بہ جائے اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگیں، وہاں مہمانوں کی باتیں ادھوری رہ جائیں، تو کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ آخر میں “سی پیک؛ امکانات اور خدشات” اس موضوع پر بات کرنے کے لیے ہارون رشید کے لیے زیادہ وقت نہ بچا تھا، سو مختصراً سمجھایا کہ پاکستان کے مستقبل کے لیے سی پیک ایک خوش آیند منصوبہ ہے۔ دن دو بجے شروع ہونے والی یہ محفل رات بارہ بجے اختتام کو پہنچی۔ بقول سِیک کے منتظم ثاقب ملک کے کراچی کے اس سیمینار میں لوگوں کی وہ دل چسپی نہ دکھائی دی، جیسی لاہور اور اسلام آباد کی تقریبات میں نظر آئی تھی، لیکن پھر بھی وہ مطمئن تھے، کہ اگلے “سِیک سیمینار” کے لیے جلد یا بدیر کراچی آیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).