اولڈ ہوم / کئیر ہوم


\"inam-rana\"

ہمارے ہاں مغرب کے حوالے سے ایک طعنہ مقولے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اس ویلنٹائن ڈے پر بھی اسکو مسلسل دہرایا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ \”یہ گورے ہمیں کیا سکھائیں گے جو اپنے بوڑھے ماں باپ کو اولڈ ہوم پھینک آتے ہیں\”۔ اس مقولے میں ایک طرف تو مغرب کی طرف کراہت کا اظہار ہے کہ وہ اپنے بوڑھے والدین کی ذمہ داری نہیں اٹھاتے۔ اور دوسری طرف اپنی اخلاقی برتری کا فخر کہ ہم اپنے والدین کو آخر تک خود سنبھالتے ہیں۔ مگر بات کیا اتنی ہی سادہ ہے؟

سب سے پہلے تو یہ عرض کر دوں کہ زبردستی اولڈ ہوم میں ماں باپ کو پھینکنے کا تصور اتنا ہی غلط ہے جتنا ایک دور تک مغربی معاشرے کا یہ تصور کہ ہر ہندوستانی (اور پاکستانی) سپیرا یا بازیگر ہوتا ہے۔ میں نے شاذ ہی سنا ہے کہ زبردستی کوئی اولڈ ہوم چھوڑ آیا۔ کیونکہ زبردستی تو جب ہو کہ ماں باپ اولاد کے ساتھ رہتے ہوں، ان پر بوجھ ہوں اور اولاد یہ بوجھ اتار دینے کو بیتاب ہوئی پھرتی ہو۔ جب کہ اکثر ایسا نہیں ہوتا۔

مغربی معاشرے کی بناوٹ ہم سے مختلف ہے اور اسکی وجہ بہت سے معاشرتی رویوں کا ہم سے مختلف ہونا ہے۔ مغرب میں فیملی کا تصور ہمارے فیملی کے تصور سے مختلف ہے۔ خاندان صرف میاں بیوی، انکے والدین اور انکی اپنی اولاد ہے۔ بہن بھائی، ماموں چاچا، بھانجا بھتیجا وغیرہ فیملی کے بجائے ایکسٹنڈڈ فیملی کے ارکان ہیں۔ چنانچہ خاندان کی بنیادی اکائی محدود ہوتی ہے۔ اسی لیے ہمارے ہاں تو بوڑھی پھوپھی اور خالہ کو بھی مرنے کیلیے آخری سالوں میں چارپائی مہیا کر دی جاتی ہے۔ سو جب ہمارا تصور خاندان ہی مختلف ہے تو تقابل بھی شاید مناسب نہیں۔

مغربی معاشرے میں ایک بہت اہم عنصر \”پرائیویسی\” کا ہے۔ ہر انسان کو اپنی پرائیویسی بہت پیاری ہے۔ سو ماں باپ بچوں کے جوان ہوتے ہی انکے جانے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ انکی جو پرائیویسی بچے پالنے کے دوران متاثر ہوئی تھی اسے بحال کریں۔ رشتوں کی مضبوطی کیلیے بھی پرائیویسی اہم ہے سو والدین اور اولاد بھی ایک دوسرے کی پرائویسی کا انتہائی خیال رکھتے ہیں۔ اولڈ ہوم، جو دراصل کیئر ہوم ہیں، جانے کی ایک اہم وجہ اس پرائیویسی کا تحفظ بھی ہے۔ نہ ماں باپ چاہتے ہیں کہ انکی ذاتی زندگی میں دخل اندازی ہو اور نہ ہی وہ بچوں کی زندگی میں مخل ہونا چاہتے ہیں۔ چنانچہ جب تک مائی بابا اپنے پیروں پہ قائم رہیں، وہ اپنے گھر ہی رہتے ہیں اور جب بات بلکل بس سے باہر ہو جائے، تو کیئر ہوم ، جسے ہمارے ہاں غلط طور پہ اولڈ ہوم کہتے ہیں، منتقل ہو جاتے ہیں۔ اس کئیر ہوم میں انکی پرائیویسی مکمل محفوظ ہوتی ہے اور نہ ہی وہ اولاد پہ بوجھ بنتے ہیں۔

ایک اور بڑی وجہ معاشی بھی ہے۔ مغربی معاشروں میں ہر شخص کو زندگی کی گاڑی چلانے کیلیے کام کرنا پڑتا ہے۔ یہاں گھر پہ بیٹھی بیوی نہیں جسکو طلاق کی دھمکی دے کر امی جی کی خدمت پہ مجبور کیا جا سکے۔ اور جب بچے کام کر رہے ہوں تو انکے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ بوڑھے ماں باپ کا اسطرح خیال رکھ سکیں جیسا کہ انکا حق ہے۔ نوکر رکھنا ایک ایسی عیاشی ہے جو خال خال ہی کوئی برداشت کر سکتا ہے۔ یہاں پر بھی طبقاتی تقسیم آ جاتی ہے۔ بہت امیر طبقے میں بوڑھے والدین خود یا انکی اولاد ان کیلیے گھر پر ہی نرسنگ کی سہولت میسر کر دیتی ہے۔ میری ایک فلپائنی کلائنٹ ایک گوری خاتون کی گھریلو ملازمہ ہے۔ اماں جی خیر سے 104 سال کی ہو گئیں ہیں اور گھر پر ہی دو نرسیں جدید مشینری کے ساتھ انکا خیال رکھتی ہیں۔

اولڈ ہوم جانے کی ایک بڑی وجہ وہاں موجود کیئر یا نگہداشت کا معیار ہے۔ یہ مدنظر رہے کہ مغرب میں بوڑھا ہمارے بوڑھے کی عمر کا نہیں ہوتا۔ کیئر ہوم جانے والے کی عمر اکثر پچھتر سال سے زیادہ ہوتی ہے۔ وہ عمر اور صحت کے ان مسائل سے دوچار ہوتے ہیں جب انکو چوبیس گھنٹے کی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیئر ہوم میں انکو نرس، باورچی، صفائی والے وغیرہ کی سہولت ہر وقت میسر ہوتی ہے۔ مزید ازاں کیئر ہوم کی گاڑی انکو شاپنگ یا اسپتال لے جاتی ہے۔ اپنے ہم عمر دوسرے بوڑھوں کے ساتھ وہ پکنک، فلم وغیرہ سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور خود کو فعال رکھتے ہیں۔ بلکہ جنسی معرکے بھی مار لیتے ہیں۔ دراصل ایک اہم بات یاد رکھنے  کی یہ ہے کہ مغربی معاشرے میں ریاست نے باپ کی جگہ لے لی  ہے۔ سو اب یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ کمزور اولاد(شہری) کا خیال رکھے۔ بہت سے بوڑھے جو کیئر ہوم نہیں جاتے، جب تک کہ وہ خطرے کی حالت میں نہ ہوں، حکومت کے سوشل سروس کے ملازمین ان بوڑھوں کو گھر پر مختلف خدمات جیسے صفائی، کھانا پکانا، شاپنگ کرانا وغیرہ فراہم کرتے ہیں۔ کیئر ہوم منتقلی کا فیصلہ یا تو یہ بوڑھے شہری خود کرتے ہیں یا پھر انکا ڈاکٹر۔ اولاد کا اس میں شاذ ہی عمل دخل ہوتا ہے۔

آیئے ذرا لگے ہاتھوں اپنے معاشرے کو بھی دیکھ لیں۔ بوڑھے والدین ہمیں بہت پیارے ہیں۔ مگر اکثر کس دردناک صورتحال سے گزرتے ہیں کبھی ان سے پوچھیے۔ ایک تو ساٹھ کی عمر میں انکو بوڑھا تصور کر کے ایک کونے میں رکھ دیا جاتا ہے کہ لو جی اللہ اللہ کرو اور انتظار کرو کب عزرائیل آئیں گے۔ بیوی یا شوہر ایک دوسرے کے ماں باپ سے تنگ رہتے ہیں۔ گھر بیٹھی ساس ڈائن لگتی ہے کہ ہر وقت دخل اندازی کرتی ہے۔ سسر بیکار بیٹھا ہے سو اس سے سبزی لانا، بچے پھرانا وغیرہ وغیرہ کا کام ہی لے لو۔ ۔ غریبوں کے ماں باپ دوا کی کمی سے سسک سسک کر مرتے ہیں کہ مہنگائی کے دور میں اپنے بچوں کی روٹی ہی پوری نہیں ہو رہی ہے ۔ امیروں کے والدین کمروں میں قید ہیں کہ انکی کسی بونگی سے بچوں کی جگ ہنسائی نہ ہو جائے۔ ماں باپ جیسے ہی ساٹھ کے ہوں ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بہن بھائی بن کر زندگی گزاریں اور اگر کوئی رومانٹک بات بھی کرتے پکڑے جائیں تو بہو بیٹے کو طعنے مارتی ہے۔ ہم یقیناً اپنے ماں باپ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ مگر ہم اپنے والدین کو ایک بھگوان بنا کر طاق پر سجا دیتے ہیں جنکی پوجا ایک مذہبی فریضہ ہے۔ لیکن وہ بھگوان تنہا ہے اور بات کرنے کو ترستا ہے۔

کئیر ہوم ایک طعنہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسے معاشرے کی ضرورت ہے جسکی اقدار ہم سے بہت مختلف ہیں۔ سو شاید  نہ تو یہ کیئر ہوم ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ اہم ہیں اور نہ ہی انکا ہونا مغربی معاشرے کیلیے اچنبھا۔ یہ بات وہاں کے معاشرے میں اتنی ہی قابل قبول ہے جتنی کہ اٹھارہ سال کا ہونے پر بچوں کا اپنی زندگی خود شروع کرنا۔

ویسے زرا یہ سہولیات چارپائی پہ لیٹی اپنی بور بوڑھی والدہ یا ایک ہی اخبار کو چھٹی مرتبہ پڑھتے والد کو بتا کر پوچھیے، شاید وہ بھی کیئر ہوم جانا چاہیں۔

 

انعام رانا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

انعام رانا

انعام رانا لندن میں مقیم ایک ایسے وکیل ہیں جن پر یک دم یہ انکشاف ہوا کہ وہ لکھنا بھی جانتے ہیں۔ ان کی تحاریر زیادہ تر پادری کے سامنے اعترافات ہیں جنہیں کرنے کے بعد انعام رانا جنت کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ فیس بک پر ان سے رابطہ کے لئے: https://www.facebook.com/Inamranawriter/

inam-rana has 36 posts and counting.See all posts by inam-rana

Subscribe
Notify of
guest
10 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments