طبی سہولیات اور عملے پر تیمارداروں کی طرف سے تشدد کا بڑھتا ہوا رجحان، کیوں؟


(انٹر نیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے کچھ عرصہ قبل طبی شعبے میں تشدد کے رجحان پر ایک مقابلہ مضمون نویسی کروایا تھا جس میں ‘ہم سب’ اس کا شریک کار تھا۔ اس مقابلے میں شریک چند مضامین ‘ہم سب’ پر شائع کیے جا رہے ہیں۔ علی احمد جان صاحب کے اس مضمون نے مقابلے میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی)۔

1۔ ابتدائیہ :

صحت کےعالمی ادارے کی مختلف رپورٹیں بتاتی ہیں کہ اشتراکی ریاست عوامی جمہوریہ چین، آزاد منڈی کی ریاست ہاے ٔ متحدہ امریکہ اوراسلامی جمہوریہ ایران سمیت کسی نہ کسی شکل میں طبی عملے اور سہولتوں کے خلاف تشدد پوری دنیا میں پایا جاتاہے۔ اس میں زبانی اور طبعی دونوں ہی قسم کے تشدد شامل ہیں جو مریضوں، ان کے رشتے داروں اور تیمار داروں کی طرف سے کیا جاتا ہے۔

تشدد کے عنصر کی عمومی طور پرہمارے معاشرے میں بھی ایک مجموعی نفسیاتی رجحان کے طور پر سرایت پزیر ی کی ایک سے زیادہ وجوہات ہیں۔ پاکستان میں تشدد کی ایک بڑی وجہ انصاف کی فراہمی کے نظام پر عام لوگو ں کا عدم اعتماد ہے جس کی وجہ سے قانون کو ہاتھ میں لینے کےرجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ زیر نظر مضمون میں پر امن شہروں میں مریضوں کے تیمار داروں کی طرف سے طبی عملے اور سہولتوں پر تشدد کے اسباب کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ واضح رہے کہ مریضوں کے تیمار داروں سے مراد یہاں رشتے دار، یار دوست، دفتر کے ساتھی، جاننے والے اور ہمسائے سب ہی شامل ہیں جو مریض کی بیمار پرسی اور اس کے ساتھ وقت بتانے یا اس کا خیال رکھنے کی خاطر آتے ہیں۔

اس مضون کے لکھنے کے لئے مصنف نے اپنے تجربات و مشاہدات کے علاوہ صحت کے شعبے سے وابستہ افراد سے ان کے تجربات اور اس موضوع پر پہلے سے لکھے گئے مواد سے استفادہ بھی کیا ہے۔ اس مضمون میں کوئی ایسی تحریر یا اعداد و شمار کو نقل نہیں کی گیا ہے جس سے کسی کی قانونی حق تلفی ہو یا ایسا کرنا قانونی یا اخلاقی طور پر ممنوع ہو۔

ہسپتال کسی مریض کی بے بسی کا کمرہ امتحان ہے جہاں انتظار کے پل صراط سے گذر کر درد و کرب سے نجات دو ہی صورتوں میں ممکن ہے ، شفاء یا قید زیست سے مکمل آزادی۔ شفا خانے میں مریض کے لئے تو علاج ہوتا ہے مگر اس کے تیماردار اور عزیز جس اذیت سے گذرتے ہیں اس کا کوئی مداوا کہیں نہیں ہوتا۔ جب بے بسی اور خود کچھ نہ کر گذرنے کا احساس تیماردار کو تنگ آمد بجنگ آمد کی کیفیت سے دوچار کر دیتا ہے تو غنیم کی شکل میں ہسپتال کا عملہ ہی سامنے کھڑا ہوتا جو عموماً تختہ مشق ستم بن جاتا ہے۔ طبی عملے کے ساتھ تیمارداروں کی طرف سے تشدد کا روّیہ کسی ایک ہسپتال تک محدود نہیں بلکہ ہر طرح کے سرکاری، نیم سرکاری اور نجی (بشمول پرایئویٹ، رفاع عامہ اور غیر سرکاری ) ہسپتالوں اور شفا خانوں میں پایا جاتا ہے۔ البتہ تیمار داروں میں اس تشدد امیزرویّے کے پیدا کرنے کے اسباب مختلف شفا خانوں میں مختلف ہیں۔

2۔ سرکاری طبی سہولیات

پاکستان میں بنیادی صحت کی سہولیات کی فراہمی ریاست کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے اور آئینی طور پر یہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سرکاری شعبے میں بنیادی صحت کے مراکز، تحصیل اور ڈسٹرکٹ کے ہسپتال اورثانوی سطح کے ٹیچنگ ہسپتال سب شامل ہیں۔ سرکاری شفا خانوں اور طبی سہولیات میں طبی عملے اور سہولتوں کے خلاف تشدد کا رجحان پرائیوٹ ہسپتالوں سے زیادہ اس لیٔے ہے کہ یہاں مریضوں او ریتمار داروں کا ہجوم زیادہ ہوتا ہے۔ سرکاری ہسپتال میں مریضوں کی تعداد زیادہ اور سہولیات کم ہوتی ہیں جن کے حصول کے لئے تیمارداروں میں سخت مقابلہ ہوتا ہے اور سہولیات کی عدم دستیابی کی صورت میں عملے کو متاثرین کاسامنا کرنا ہوتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں پائی جانے والی مریضوں کے درمیان سماجی اور مالی حیثیت اور سیاسی بنیادوں پر عدم مساوات، سفارش اور اقرباء پروری بھی تیمار داروں میں طبی عملے کے خلاف غصّے کا سبب بنتی ہے۔ سرکاری طبی سہولتوں سے رجوع کرنے والے صفائی ستھرائی اور علاج معالجے کے اعلیٰ معیار کی توقع نہیں رکھتے ہیں۔ یہاں عموماً کم آمدنی والے اور غریب لوگ آتے ہیں جو اپنے ساتھ طبی عملے کی جانب سے برابری کے سلوک اور ہمدردانہ رویےّ کے طلبگار ہوتے ہیں۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ ہسپتال کا عملہ کچھ لوگوں کو زیادہ توجہ دیتا ہے اور ان کو وہ توجہ نہیں ملتی تو وہ اس کے خلاف شکایت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کبھی کبھار زبانی کلامی اور کبھی جسمانی تشدد تک پہنچ جاتی ہے۔

پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو صحت عامہ کے شعبے میں کم خرچ کرتے ہیں جس کی وجہ سے طبی سہولتوں کا میعار دیگر ترقی پزیر ممالک کی طرح ہمیشہ نیچے رہتا ہے۔ چونکہ سرکاری شعبہ افسر شاہی کے زیر اثر ہوتا ہے یہاں عوام کی شنوائی نہیں ہوتی اورطبی سہولتوں میں لوگوں کو پیش آنے والی مشکلات کا ازالہ بر وقت ہو نہیں پاتا اس لئے یہاں تشدد کا رجحان بھی زیادہ ہے۔

3۔ رفاہ عامہ اور ادارہ جاتی طبی سہولتیں

مختلف سرکاری، نیم سرکاری اور پرائیوٹ اداروں کی جانب سے بھی طبی سہولتیں کا م کر رہی ہیں جن میں مسلح افواج، اور دیگر ادارے شامل ہیں۔ ان سہولتوں میں متعلقہ اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کے علاوہ دیگر افراد کو بھی علاج معالجے کی سہولت محدود طور پر میسر ہے۔ ان سہولتوں میں تیمارداروں کی طرف سے عملے پر تشدد کے واقعات ادارہ جاتی نظم وضبط اور تیمارداروں کے محدود حقوق کی وجہ سے کم ہیں لیکن مختلف نہیں۔ ان اداروں کے علاوہ رفاہ عامہ کے تحت بھی مختلف غیرسرکاری تنظیموں اور مذہبی اور لسانی گروپوں کی جانب سے بھی طبی سہولتیں کام کر رہے ہیں جہاں محدود تعداد میں لوگوں کو علاج معالجے کی سہولتیں میسر ہیں۔ ان اداروں کی خیراتی نوعیت اور خدمت خلق کےجذبے کی وجہ سے یہاں سے رجوع کرنے والے اور مستفید ہونے والے یہاں اپنے حقوق نہیں جتلاتے لیکن یہ ادارے اور یہاں کام کرنے والا عملہ بھی تیمارداروں کی طرف سے تشدد سے مبرا نہیں رہے۔

4۔ نجی (پرایئوٹ) طبی سہولیات

پاکستان میں نجی شعبے میں طبی سہولتوں میں عطائی حکیموں سے لے کر بڑے بڑے ہسپتالوں تک سب ہی شامل ہیں لیکن یہاں نجی سہولتوں سے مراد صرف ان سہولتوں سے ہے جو سرکاری سہولتوں کے متبادل کے طور پر کام کرتے ہیں۔

نجی سہولتوں میں عموماً متمول گھرانوں کے لوگ آ تے ہیں جہاں تشدد کا رجحان اور شدت سرکاری ہسپتالوں کی نسبت کم دیکھنے میں آتا ہے اور یہاں آنے والے مریض اور ان کے تیمارداروں کی شکایات بھی مختلف نوعیت کی ہوتی ہیں۔ یہاں آنے والے لوگ چونکہ پیسے خرچتے ہیں اس لئے ان کو سہولیات اور خدمات بھی اچھی اور بہتر چاہیے ہوتی ہیں اور ان کی عدم دستیابی پر وہ شاکی ہوتے ہیں۔ جو نجی ہسپتال اور اور کلینک بروقت شکایات سن کر ان کا ازالہ کرتے ہیں وہاں بدمزگی کم نظر آتی ہے۔ لیکن جہاں شکایات نہیں سنی جاتی ہیں یا سن کر بر وقت ان کا ازالہ مستقل بنیادوں پرنہیں کیا جاتا وہاں تکرار اور تشدد کا امکان ہمیشہ رہتا ہے۔ پاکستان میں نجی سہولتوں کے بارے میں حکومت نے کسی حد تک انکھیں بند کی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے جگہ جگہ غیر معیاری سہولتیں کھلی ہیں جہاں تعلیم یافتہ اور تجربہ کار عملے کی عدم دستیابی، بنیادی سہولتوں کا فقدان کے علاوہ صفائی ستھرائی کا وہ معیار نہیں جونجی طبی سہولتوں میں ہونا چاہیے۔ بعض نجی سہولتوں میں غیر قانونی کاروبار کی خبریں آئے دن ابلاغ عامہ کی زینت بنتی ہیں جو عوام کو مشتعل کر دیتی ہیں۔

سرکاری طبی سہولتوں کے مقابلے ہیں نجی سہولتوں میں تشدد کے اثرات زیادہ گہرے اور نقصان دہ ہوتے ہیں جس میں عملہ میں پیدا ہنے والی بد دلی اور سہولتوں کو پہنچنے والا نقصان کبھی کبھار ان کی بندش پر منتج ہو تا ہے۔

5۔ تشدد کے اسباب

ویسے تو عام تاثر یہی ہے کہ اپنے حقوق سے آگاہی اور شعور میں اضافہ کی وجہ سے لوگ اپنے حق کے لئےاواز اٹھاتے ہیں اور لڑتے ہیں لیکن آگاہی بذات خود جرم کی وجہ نہیں بلکہ لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھنا ہی سب سے بڑی جرم ہے۔ بادی النظر میں درجہ ذیل عوامل ہیں جو کسی مریض کے تیمارداروں کے طبی عملہ اور بعض اوقات اس طبی سہولت پر تشدد کا باعث بنتے ہیں :۔

ا) طبی سہولت میں تناؤ کی فضا

ہسپتال اور کسی دوسری جگہے کے درمیان فرق یہی ہے کہ یہاں کوئی بھی شوق سے نہیں بلکہ مجبوری سےا ٓتا ہے۔ یہاں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں مریض، ان کے تیماردار اور ہسپتال کا طبی اور غیر طبی عملہ۔ مریض کو یہاں اس وقت لایا جاتا ہے جب یہاں لانا انتہائی ضروری یعنی مریض کے جان کو خطرہ درپیش ہو۔ مریض کے تیماردار چونکہ زیادہ تر عام لوگ ہوتے ہیں وہ طبی مراحل اور اس کے لئے درکار لوازمات سے واقف نہیں ہوتے ہیں اور جلدی میں ہوتے ہیں۔ ان کو بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طبی عملہ ان کے مریض کی جان بچانے کی کوشش عمداً نہیں کر تا۔ ہسپتال میں اپنے مریض کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی جب کرب میں مبتلا دیکھتے ہیں اور ان کو کبھی کبھی روتے، چیختے چلاتے اور درد سے بلبلاتے دیکھتے ہیں تو ان کے اذہان میں منفی سوچ پروان چڑھتی ہے اور ہسپتال کے عملے کو ہی اس کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ جب وہ اپنے مریض کو درد میں دیکھتے ہیں تو طبی عملہ کو تنگ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

ب) طبی عملہ اور تیمار داروں کے درمیان ا بلاغ کا فقدان

ہمارے ہاں طبی عملے کی عام لوگوں سے بات چیت اور مکالمے کی کوئی تربیت نہیں ہوتی ہے۔ جب وہ عام لوگوں سے بات کرتے ہیں تو لوگ ان کی زیادہ تر باتیں نہیں سمجھ پاتے اور ان کی باتوں کے الگ مفہوم نکالتے ہیں جو کبھی کبھار لڑائی اور جھگڑے کا سبب بنتے ہیں۔ طبی عملے کی طرف سے مختلف ادویات اور دیگر ضروریات کی تجاویز کو بعض اوقات کم پڑھے لکھے اور غریب تیمار دار بے جا فرمائشیں سمجھتے ہیں اور جھگڑے پر اتر آتے ہیں۔ تیمارداروں کے ساتھ بات چیت اور ان کو مریض کی ضروریات اور مرض کی سنگینی اور اس کے علاج کے لئے درکار ضروریات کے متعلق عام فہم زبان میں سمجھانے کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے تیماردار بے یقینی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کے رویّے میں تناؤ آجاتا ہے۔

ج) طبی اخلاقیات کا فقدان

طبی اخلاقیات یا پیشہ ورانہ طبی اخلاقیات کے روز بہ روز کم سے کم ہونے کی شکایات ہیں۔ ان طبی اخلاقیات کی پامالی میں مریضوں سے غیر ضروری ادویات اور بیماریوں کے تشخیصی نسخوں کی فرمائشیں اور غیر اخلاقی اور قانونی زرائع سے مالی منفعت سب شامل ہیں۔ بعض اوقات مریضوں کے جسم کے اعضا ء نکالنے اور بیچنے کی شکایات ابلاغ عامہ میں آتی ہیں جو عام لوگوں میں ان سہولتوں کے بارے میں بد اعتمادی کا باعث بنتی ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کے آس پاس چلنے والے کلینک اور تشخیصی مراکز ان ہی ہسپتالوں میں کام کرنے والے طبی عملے کی مرہون منت ہیں جو ان ہسپتالوں میں تنخواہ لینے کے باوجود کام نہیں کرتے اور اپنا ذاتی کاروبار چلاتے ہیں۔ اپنے ذاتی کاروبار کے چلانے کے لئے جب طبی عملہ ہسپتالوں میں اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی برتتا ہے تو تیمار داروں کا ان سے جھگڑا ہو جاتا ہے یوں تشدد کا رجحان پیدا ہو تا ہے۔

نجی طبی سہولتوں میں طبی اخلاقیات کے پامالی کی زیاداہ شکایات ہیں جن میں سے چند ایک ابلاغ عامہ میں زیر بحث بھی ہیں۔ ماؤں کو بچوں کی پیدائش کے لئے عمل جراحی پر مجبور کرنے سے لے کر دل کے اندر پڑنے والے غبارے (سٹینٹ) کی غیر ضروری پیوند کاری اور بلا ضرورت اپینڈیکس کے نکالنے سمیت بہت ساری شکایات منظر عام پر آرہی ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کا طبی عملے کے بارے میں مسیحائی کے بجائےایک قصائی کا تصور ابھرتا جارہا ہے۔

د) سفارش اور اقرباء پروری

یہ روش بھی سرکاری ہسپتالوں میں عام ہے جہاں طبی سہولیات کاعملہ سفارش اور جان پہچان کی بنیاد پر کچھ مریضوں کو خصوصی توجہ دیتا ہے اور دوسرے لوگ اس سے جلن محسوس کرتے ہیں۔ اس حسد اور جلن کی وجہ سے عملے کے خلاف تشدد کے رجحان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

ر) طبی عملے کی لاپرواہی

تیمارداروں کی طرف سے تشدد کی ایک بڑی وجہ طبی عملے کی لاپرواہی ہے جس سے مریضوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے اور تیماردار انتقاماً تشدد پر اتر آتے ہیں۔ یہ الزام من گھڑت بھی ہوتا ہے لیکن چھان بین کے لئے کسی شفاف طریقے کی عدم موجودگی میں رائے عامہ ہمیشہ تیمارداروں کے ساتھ ہوتی ہے اور ان کے موقف کودرست مان لیتی ہے۔ طبی عملے کی لاپرواہی کے الزامات سرکاری طبی سہولیات میں نجی اداروں کے مقابلے میں زیادہ دیکھی گئی ہیں۔

ڑ) طبی سہولیات کے اداروں کے عملے کا رویّہ

سرکاری ادروں میں طبی عملہ خصوصاً ڈاکٹروں کے تیمارداروں اور مریضوں کیساتھ روّئیے کی شکایات زیادہ ہیں جس کے خلاف تیماردار تشدد پر اتر آتے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں عملے کی کمی اور کام کی زیادتی کو اس کی ایک وجہ قرار دیا جاتا ہے لیکن دوسری طرف الزام یہ بھی ہے کہ یہی ڈاکٹر اپنے ذاتی کلینک میں انتہائی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مریضوں اور تیمار داروں کا خیال یہ ہے کہ مریض سرکاری ہسپتالوں میں ایسا رویّہ جان بوجھ کر اختیار کرتے ہیں تاکہ مریض ان کے ساتھ ان کی ذاتی کلینک میں رجوع کریں۔ مریض اور تیمار دار ڈاکٹروں کی اس روش کے خلاف بھی شاکی نظرآتے ہیں۔

ز) علاج کا مریض کے مالی وسائل سے باہر ہونا

نجی ہسپتالوں میں بعض اوقات علاج مریض کے مالی استظاعت سے باہر ہو جاتا ہے اورتیماردار بے بسی میں تشدد پر اتر آتے ہیں۔ بعض نجی ہسپتالوں میں فیس کی عدم ادئیگی پر علاج کے شروع نہ کرنے اور مرنے کے بعد لاشیں روکنے کی وجہ سے تشدد اور توپھوڑ کے واقعات سامنے آئے ہیں۔

س) قانون پر عمل داری کا فقدان

پاکستان میں قانون پر عملداری کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ اگر کہیں تشدد ہوتا بھی ہے تو مجرموں کے خلاف کارروائی انجام تک نہیں پہنچتی جس کی وجہ سے لوگوں میں قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے رجحان کو تقویت ملتی ہے۔

ش) جزا اور سزا کے نظام کا نہ ہونا

سرکاری طبی سہولیات کے اداروں میں جزا اور سزا کا تصور کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ اگر کوئی ڈاکٹر اور طبی عملہ کا رکن کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو سیاسی بنیادوں پر اور اپنے ہمدردوں کی وجہ سے ہمیشہ بچ جاتا ہے۔ اسی طرح کسی ڈاکٹر یا طبی عملے کے رکن کو اس کی بہتر کارکردگی کی بنیاد پر سراہا بھی نہیں جاتا جس کی وجہ سے طبی عملے اور ڈاکٹروں کی کارکردگی میں مثبت تبدلی بہت کم آئی ہے۔ سزا اور جزا کی عدم موجودگی نے عملے کو لاپروہ اور بے حس کردیا ہے۔ اس بے حسی اور لاپرواہی کی وجہ سے مریضوں کے علاج میں کوتاہی آجاتی ہے جو تیمارداروں کو مشتعل کردیتی ہے۔

ض) طبی عملے کے لئے جواب دہی کے کسی نظام کا نہ ہونا

بعض طبی سہولتوں میں طبی عملے اور ڈاکٹروں کے جواب دہی کا نظام کمزور ہے یا موجود ہی نہیں ہوتا۔ ایسے کسی نظام کی عدم موجودگی میں تیماردار جب کوئی شکایت لے کر آتے ہیں تو بات کبھی کبھار تشدد تک چلی جاتی ہے۔

ط) طبی عملے کی ہڑتالیں اور کام کی بندش

سرکاری طبی سہولتوں میں ڈاکٹروں اور نرسوں کی طرف سے اپنے مطالبات کے حق میں کی جانے والی ہڑتالوں اور کام کی بندش کے دوران بھی تیمارداروں اور طبی عملے کے درمیاں تشدد کی خبریں آئی ہیں۔

6۔ تشدد کے تدارک کے لئے اقدامات کی سفارشات:

تیمارداروں کی طرف سے طبی عملہ اور سہولتوں پر تشدد کے تدارک کے لئے حسب ذیل قلیل المدتی اور طویل مدتی اقدامات تجویزکیے جاتے ہیں۔

قلیل المدتی فوری اقدامات

قلیل المدتی اقدامات میں وہ اقدامات شامل ہیں جو فوری طور پر اٹھائے جانے چاہیئں، ایسے اقدامات درجہ ذیل تجویزکیے جاتے ہیں۔

۔ طبی سہولتوں میں کام کرنے والے عملہ کی عوام کے ساتھ بات چیت اور بالخصوص شکایات سننے اور ان کے ازالے کے لئے تربیت کا اہتمام کیا جائے۔
۔ طبی سہولتوں میں مریضوں کے تیمارداروں کو رابطہ میں رکھا جائے اور مریض کے علاج کے سلسلے میں ہونے والے پیش رفت اور درپیش مشکلات سے تیمارداروں کو آگا رکھا جائے۔
۔ طبی سہولتوں میں نمایاں جگہوں پر پوسٹر اور چارٹ اویزاں کرکے ان میں سہولتوں کے قواعد و ضوابط درجکیے جائیں تاکہ تیمارداروں کو آگاہی ہو۔
۔ ہسپتالوں اور دیگر طبی سہولتوں میں صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھا جائے اور ماحول کو خوشگوار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔
۔ ہسپتالوں میں بد عنوانیوں اور کرپشن کے خاتمے کے لئے اقداماتکیے جائیں جس میں طبی اور غیر طبی عملہ کے ملوث ہونے کا امکان ہو۔
۔ ہسپتالوں میں داخل مریضوں کے ساتھ ایک ہی وقت میں ملنے والوں کی ایک خاص تعداد مقرر کی جائے اور اس پر عمل درآمد کروایا جائے۔
۔ طبی سہولتوں میں قانون نافظ کرنے والے ادروں کے تعاون سے حفاظتی اقدامات اٹھائے جائیں
۔ طبی سہولتوں میں شکایات سننے اور ان کے ازالے کے لئے ایک طریقہ کار وضع کیا جائے اور اس پر عمل درآمد کرویا جائے۔
۔ طبی عملے کی کارکردگی بہتر بنائی جائے اور کسی کے پیشہ ورانہ کارکردگی کے بارے میں کسی بھی قسم کی شکایت پر فوراً ایک غیر جانب دار فورم یا افراد پر مشتمل ایک کمیٹی سے تحقیقات کروا ئی جائے۔
۔ سرکاری طبی سہولتوں میں دوائیوں اور دیگر سہولیات کی فراہمی کی نگرانی کی جائے اور اس میں پائی جانے والی خامیاں دور کی جائیں۔

طویل مدتی مجوزہ اقدامات

طویل المدتی اقدامات میں مقامی، صوبائی اور قومی سطح پر اٹھاے جانے والے وہ مجوزہ اقدامات ہیں جن کو وقت کے ساتھ ساتھ اٹھائے جایئں اور ان پر عمل درآمد کیا جائے۔ چند ایک اقدامات درہ زیل ہیں۔
۔ طب کے تعلیمی نصاب میں طبی اخلاقیات کو شامل کیا جائے اور طلبہ کو لازمی طور پڑھا یا جائے۔
۔ طبی عملہ اور سہولتوں کے تحفظ کے لئے قانون سازی کے ذریعے عملے کو تحفظ اور عوام کو معیاری طبی سہولیات کے فراہمی کو قانونی چارہ جوئی کے اندر لایا جائے۔
۔ سرکاری طبی سہولتوں میں علاج معالجے کے یکساں معیار کو متعارف کرا یا جائے، سفارش اور رشوت جیسی برائیوں کا خاتمہ کیا جائے۔
۔ طبی سہولتوں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ عملے کی کارکردگی اور جواب دہی کا ایک نظام وضح کریں جو تمام سرکاری، نجی اور غیر سرکاری سہولتوں پر یکساں لاگو ہو۔

7۔ اختتامیہ:

پاکستان میں سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر ڈاکٹروں کا قتل اور پولیو ویکسین پلانے والے عملے کے خلاف ہونے والے تشدد کی وجہ سے طبی ماہرین ملک چھوڑ کر جارہےہیں جس کی وجہ سے ملک کے اندر سہولتوں کا معیار گرتا جارہا ہے۔ ایسے میں مریضوں کے تیمارداروں کی طرف سے بڑھتے ہوے تشدد کے رجحان نے صورتحال مزید بد تر کردی ہے۔ طبی سہولتوں اور عملے کے تحفظ اور ان کے کام کرنے کے لئے ماحول کو سازگار بناکر ہی یہاں ایک طرف طبی سہولتوں کا معیار بہتر کیا جاسکتا ہے اور دوسری طرف ملک کے اندر سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرکے بے روزگاری میں کمی لائی جاسکتی ہے۔

نوٹ :
یہ مضمون انٹر نیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے زیر اہتمام مقابلہ مضون نویسی 2016 ؁ کے لئے لکھا گیا ہے۔ اس مضمون کا مواد مصنف کی اپنی تحریر ہے جس پر کسی قسم کے دعویٰ کا صرف مصنف ہی جواب دہ ہوگا۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan