آپ ہی بتائیں! پھٹیچر بیان کی رپورٹنگ کیسے کریں؟


جب سے میں نے عمران خان صاحب کی جانب سے پی ایس ایل کے کھلاڑیوں کو پھٹیچر کہنے والی وڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی، تب سے تادم تحریر، مجھے ان گنت گالیوں سے نوازا جا چکا ہے، میرے نام سے کام تک، الزامات اور مغلظات کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے، مجھے یہ کہہ کر معطون کیا جارہا ہے کہ پھٹیچر والی وڈیو میں نے سوشل میڈیا پر وائرل کیوں کی۔

یعنی کہ سبحان اللہ۔ اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے

ایک قومی سطح کی جماعت ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کیمرے کے آگے لہراتے بل کھاتے فرماتے تھے ”ایک پپی اِدھر، ایک پپی اُدھر“ کبھی گاتے تھے ” پردے میں رہنے دو پردہ نہ اٹھاؤ ” کہیں وہ بازاری پن کیا وڈیو بنانے والے کا قصور تھا، اس کیمرے کے لینس کی سازش تھی یا اس شخص رونا روئیں جسے ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والا شہر اپنا قائد کہتا تھا؟

دور نہ جائیں، فیصل آباد کے شیرو یعنی رانا ثنا اللہ صاحب کے سیاسی بیانات ملاحظہ فرمالیں ”وہ راولپنڈی کا شیدا ٹلی، غلیظ انسان ” اور یہ کہ ”عمران خان گھوڑے پر بیٹھنے کے قابل نہیں“ اور یہ کہ ”دھرنے میں۔ ناچتی ہیں“ اور یہ کہ، چلیں رہنے دیں باقی میرا قلم رقم نہیں کرسکتا۔

اچھا چلیں یہ سب بیان تو سیاسی ہیں، یاد ہے نا وہ قومی اسمبلی کے فلور پر وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا ایک معزز خاتون رکن اسمبلی شیریں مزاری کو یہ کہنا کہ ”اے ٹریکٹر ٹرالی نوں چُپ کراؤ“ کیا اتنا کافی ہے یا خواجہ صاحب کے مزید سنہری اقوال لکھوں؟ کہہ دیں کہ قصور خواجہ صاحب نہیں ان رپورٹرز کا تھا جنہوں نے اس گھٹیا پن کو رپورٹ کیا۔

عابد شیر علی وزیر مملکت برائے پانی و بجلی ہیں، ان کی پسندیدہ پنجابی جگت ”جتھے دی کھوتی اتھے آن کھلوتی“ ہے، یہ اکثر سیاسی حریفوں کے پارٹی چھوڑنے پر ایسا نفیس بیان ٹوئٹر پر دیتے رہتے ہیں۔ یہاں بھی لگتا ہے سارا قصور نگوڑی ویب سائٹ ٹوئٹر کا ہے۔

کون سا ایسا سیاستدان ہے جس کے منہ سے پھول جھڑتے ہوں، جو صرف نیکی کی بات کرے، جو کردار میں اچھا ہو اور گفتار میں شائستہ بھی، جو مکمل طور پر باسٹھ تیرسٹھ ہو، آپ کے سامنے اگر کچھ شریفوں کے نام آرہے ہیں تو ذرا رک جائیں منافقت پر نہ جائیں، ذرا سی ریسرچ فرمالیں، آرکائیو وڈیوز اور اخبارات کی سرخیاں گواہ ہیں کہ کیسے میاں نواز شریف صاحب، اس وقت کی سیاسی حریف بے نظیر بھٹو کو معیوب الفاظ سے نوازتے رہے۔

آپ کی یادداشت پر گراں نہ گذرے تو اب کے مئیر کراچی وسیم اختر کے وہ سنہری حروف یوٹیوب پر تلاش فرمالیں جس میں مئیر صاحب نے فرمایا تھا ” وہ چودھری نثار گنجا وگ لگا کر آتا ہے، اور ان کا لیڈر نقلی بال لگواتا ہے“ آگے آنجناب نے مزید فرمایا تھا ”پنجاب میں ہر گھر میں ہر روز مجرے ہوتے ہیں اس کو نہیں روک سکتے یہ گنجے“۔ چلیں جانے دیں دراصل قصور ان رپورٹرز کا تھا جو پارلیمنٹ کے باہر کھڑے ان ارکان پارلیمنٹ کی گُل فشانیاں رپورٹ کررہے تھے۔

دیکھیں جی مجھے تو آف دی ریکارڈ اور آن دی ریکارڈ کا فرق ازبر ہے، مگر یہ فرق سیاستدانوں کو سمجھایا جائے، انہیں بتایا جائے کہ قوم عمران خان کی پشاوری چپل، الطاف کی ففٹی موٹر سائیکل اور سفید کرتا شلوار، شیخ رشید کے سگار، مریم نواز کے ہلکے ہلکے میک اپ، شہباز شریف کی کاؤ بوائے ٹوپی اور لانگ بوٹ، فضل الرحمان کی پرنٹڈ پگڑی، آصف زرداری کی سندھی ٹوپی اور بے نظیر کے دوپٹہ لینے کے انداز تک کو کاپی کرتی ہے۔ آپ کے ووٹرز آپ لوگوں کو لگ بھگ پوجتے ہیں، آپ اس قوم کے لیڈر ہیں پھٹیچر نہیں اس لیے معاملے کی نزاکت کو سمجھیں کہ جب صحافی، کیمرا اور پبلک سامنے ہو تو گری ہوئی بات کو اٹھایا نہیں کرتے۔

عفت حسن رضوی نجی نیوز چینل میں ڈیفنس اور سپریم کورٹ کاریسپانڈنٹ ہیں، برصغیر کی عظیم ڈرامہ نویس فاطمہ ثریا بجیا کی سوانح نگار اور انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس امریکا کی فیلو ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں:

IffatHasanRizvi@

عفت حسن رضوی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عفت حسن رضوی

نجی نیوز چینل میں ڈیفنس کاریسپانڈنٹ عفت حسن رضوی، بلاگر اور کالم نگار ہیں، انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس امریکا اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کی فیلو ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں @IffatHasanRizvi

iffat-hasan-rizvi has 29 posts and counting.See all posts by iffat-hasan-rizvi