جہانِ علم میں ارسطو کی منطق کی حیثیت


میں برادرِ گرامی عاصم بخشی کا بے حد شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنے کالم ’ارسطو کا دفاع‘ میں ارسطو کی منطق اور خاص طو ر اصول خارج الاوسط پر اٹھائے گئے سوالات کو سراہا۔ میں ذاتی طور پر ان کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے شاید پاکستان میں پہلی مرتبہ آن لائن اردو جرنلزم میں علمی و فلسفیانہ موضوعات پر لکھ کر قارئین کے فکری ذوق کی آبیاری کی۔ مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ اگر وہ ان موضوعات پر نہ لکھتے تو شاید مجھ سمیت کسی کو ان موضوعات پر لکھنے کی جرات نہ ہوتی۔

ارسطو کی طرف آتے ہیں تو یہ مضمون لکھتے وقت  ارسطو کے ہی کچھ الفاظ ذہن میں آرہے ہیں۔ اس سے ایک بار کسی نے پوچھا کہ آپ کو کیا اپنے استاد افلاطون سے کوئی عقیدت اور محبت نہیں کہ آپ ان کے فلسفے پر تنقید کررہے ہیں تو ارسطو نے جواب : افلاطون مجھے عزیز ہے لیکن سچائی عزیز تر۔ شاید ارسطو بھی یہی کہنا چاہتے تھے کہ فکری تاریخ اغلاط سے مسلسل سیکھنے کے عمل کا نام ہے اس لئے ایک دور کا حل دُوسرے دور میں بذات خود مسئلہ بن جاتا ہے اور ایک دور کی سچائی دُوسرے دور میں جھٹلائی بھی جاسکتی ہے۔اگر ارسطو نے یہ کہا تو شاید وہ بھی جانتا ہو کہ اس دور میں وہ فکری مسائل کا جو حل پیش کررہا ہے وہی اگلے دور کے مسائل بن جائیں گے۔ فکر و فلسفہ کی تاریخ سے د ل چسپی رکھنے والے جانتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا۔ ارسطو کے پیش کردہ حل اگلے دور میں مسائل بن گئے اور ارسطو کی دوہزار سالہ بادشاہت اور اس کے وفادار مقلد ان مسائل کے حل کی راہ میں رکاوٹ۔

 ارسطو کا خیال تھا کہ خُدا چونکہ ایک جامع اور مکمل ہستی ہے اس لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ زمین کو دائرے کے علاوہ کسی اور شکل میں تخلیق کرے کیونکہ دائرہ ایک مکمل شکل ہے اور مکمل خُدا بیضوی یا پھر ٹیڑھی میڑھی زمین تخلیق نہیں کرسکتا۔ ارسطو کا یہ ’جمالیاتی تعصب ‘کسی دور لوگوں کو بہت پسند آیا ہوگا لیکن دائرے جیسی ’مکمل‘ زمین کا تصور آگے چل کر موسموں اور زمین کی گردش کے درست تعین کی راہ میں حائل ہوگیا۔

اسی طرح کلیسا نے گلیلیو کے مہرمرکزی (heliocentric) کی مخالفت محض مذہبی بنیادوں پر نہیں کی گئی بلکہ اس شدید ردِ عمل کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ارسطو ارض مرکزی (geocentric) نظریے کے قائل تھے، یعنی زمین کو مرکز تصور کرتے تھے۔ارضی و سماوی معاملات کے علاوہ زمینی معاملات کی طرف آئیں تو  ارسطو عورت کو غلام سے برتر مگر آزاد مرد سے بد تر سمجھتا تھا۔ وہ اپنی کتاب ’سیاست ‘ میں لکھتا ہے، ’’غلام ارادے سے محروم ہے تو عورت اختیار سے ‘۔ مغرب میں خواتین کی آزادی اور حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والوں کی تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ یہ جدوجہد کرنے والوں  کو کلیسا کے ساتھ ساتھ ارسطو  کے تصورات اور ان کو حرفِ آخر ماننے والوں کے خلاف بھی لڑنا پڑا۔

یہاں پر میں ایک بار واضح کرنا چاہوں گا کہ گذشتہ اور حالیہ مضمون کا مقصد ارسطوپر بحیثیت انسان تنقید ہرگز مقصد نہیں بلکہ گذشتہ مضمون کا لب لباب یہ تھا کہ ارسطو کی منطق دنیائے علم  میں متروک قرار پاچکی ہے لیکن  اس منطق کا سکہ ہمارے ہاں مذہبی فکر میں آج بھی چل رہا ہے۔ گذشتہ مضمون ’انتہا پسندی کی منطقی بنیادیں ‘ کی اشاعت کے بعد ’ہم سب‘ کے معروف کالم نگار  محترم عزیزی اچکزئی صاحب نے بھی اس بات پر مہر تصدیق ثبت کی کہ وہ خود دینی مدرسے میں پڑھے ہیں جہاں منطق کے باب میں انہیں یہ پڑھایا گیا تھا کہ ’’اجتماع نقیضین ‘‘ اور اس کے ساتھ ’’ارتفاع نقیضین ‘‘ بھی محال ہے۔ یعنی ارسطو کی منطق کی روشنی میں دن اور رات ایک دُوسرے کی ضد ہیں اور یہ بھی ممکن نہیں کہ بیک وقت دن بھی ہو اور رات بھی۔ محترم عزیزی اچکزئی نے یہ بھی لکھا کہ ان دونوں اصولوں میں گرے ایریا کا تصور ناممکن ہے اور اضداد میں سے کسی ایک کا ہونا دُوسرے کی نفی سمجھا جاتا ہے۔

گذشتہ مضمون میں راقم نے صرف اس قانون پر تنقید کی جو انتہا پسندی کا باعث بننے والے مغالطے کو جنم دیتا ہے لیکن  عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں  شعبہ اسلامیات کے ڈین ڈاکٹر نیاز احمد نے چند برس قبل دینی مدارس میں رائج درسِ نظامی پر ایک تحقیقی رپورٹ مرتب کی تھی اور سفارشات میں، دیگر مشوروں کے علاوہ، یہ بھی مشورہ دیا کہ  روایتی استخراجی منطق کو استقرائی منطق میں بدل دیا جائے۔ شاید یہ تجویز پیش کرنے کی وجہ یہ تھی کہ استخراجی منطق میں نتیجہ مقدمات کے تقابل سے مرتب ہوتا ہے اور ثانی الذکر منطق یہ بھی دیکھتی ہے کہ کیا اخذ شدہ نتائج خارجی و سائنسی حقائق سے ہم آہنگ ہے یا نہیں۔ اس رپورٹ کے انگریزی ترجمے کے لئے ایک ادارے نے راقم کی خدمات لیں لیکن ادارے نے یہ رپورٹ تاحال شائع نہیں کی۔ پروفیسر صاحب کی رپورٹ یہ ظاہر کرتی ہے کہ نہ صرف بین الاقوامی سطح پر بلکہ ملکی سطح پر بھی کچھ لوگ سوچنے سمجھنے والے لوگ متبادل منطق کی ضرورت محسوس کررہے ہیں۔

پاکستان میں اس مسئلے پر شاید پہلی بار بات ہورہی ہو لیکن دنیائے علم و فکر میں ارسطو کی منطق پر تنقید ایک صدی سے پہلے شروع ہوچکی تھی۔ اس سلسلے میں کچھ حوالہ جات میں نے گذشتہ مضمون میں بھی فراہم کئے تھے  لیکن مغرب میں ارسطو کی منطق پر تنقید کرنے والی سب سے توانا، معتبر اور قابلِ توجہ آواز برٹرینڈرسل اور ان کے ساتھی ریاضی و منطق دان سر وائٹ ہیڈ کی ہے۔اگر رسل کی بات کریں تو ان کے ہاں ارسطو کی منطق پر ہونے والی تنقید ان کی کئی کتب میں جابجا بکھری پڑی ہے۔ سردست میں ان کی کتاب ’فلسفۂ مغرب کی تاریخ‘سے ایک اقتباس یہاں نقل کررہا ہوں جس سے ارسطا طالیسی منطق کی موجودہ حیثیت واضح ہوجاتی ہے۔

’’موجودہ دور کا کوئی شخص جو منطق سیکھنا چاہتا ہے وہ ارسطو یا اس کے کسی مقلد کو پڑھ کر محض اپنا وقت ضائع کرے گا۔ تاہم ارسطو کی منطقی تحاریر اس کی قابلیت ظاہر کرتی ہیں اور یہ تحریریں اُس صورت میں مفید ثابت ہوتیں اگر وہ اس وقت منظرِ عام پر آتیں جب (یونان میں ) دانشورانہ قوتِ ایجاد ہنوز زندہ تھی۔ بدقسمتی سے یہ تحاریر اُس دور میں سامنے آئیں جب یونانی فکر کے تخلیقی دور کا اختتام ہورہا تھا اور اسی بنا پر ان تحریروں کو حتمی قرار دے دیا گیا۔ جب تک منطقی قوتِ تخلیق اور اُپچ کا دوبارہ احیا ہوا، اُس وقت منطق کی دنیا پر ارسطو کی بادشاہت کو دوہزار سال بیت چلے تھے اور یوں اُسے تخت سے اتارنا نہایت مشکل ہوچکا تھا۔ جدید ادوار کے دوران، عملی طور پر سائنس، منطق اور فلسفہ و فکر کی ترقی ہر اگلا قدم ارسطو کے پیروکاروں کی شدید مخالفت کا سامنا کرتے ہوئے اٹھایا گیا ہے ‘‘۔

رسل کا یہ اقتباس جہاں یہ ثابت کرتا ہے کہ ارسطو کی منطق دورِ حاضر کی علمی و سائنسی ترقی کی راہ میں ایک چٹان کی طرح حائل رہی ہے کیونکہ ارسطو کے ماننے والے اُسے حرفِ آخر اور اس کی منطق کو، کم و بیش، سماوی تصور کر بیٹھے تھے، وہاں یہ اقتباس ہماری نصابی کتب اور کچھ علما کی جانب سے پھیلائی جانے والی اس غلط فہمی کو بھی عیاں کرتا ہے کہ مسلمانوں میں اگر ان عقل پسندوں کا غلبہ رہتا جو معتزلہ کہلاتے ہیں تو شاید سائنسی انقلاب کا سورج عالمِ اسلام سے طلوع ہوتا۔

یہ دعویٰ بالکل بے بنیاد معلوم ہوتا ہے کیونکہ جس سائنسی ترقی کو دیکھ کر یہ مفروضہ گھڑا گیا ہے اس کی راہ میں  ارسطو حائل رہا ہے اور مسلمان عقل پسند اسی ارسطو کے محض شارحین تھے۔ ابن رشد کو خلیفہ ابو یعقوب یوسف کے دربار میں ارسطو کے ماہر کے طور پر بھیجا گیا تھا اور ابنِ رشد نے، رسل کے الفاظ میں، ارسطو کو بھی نوفلاطونی چوغہ پہنا رکھا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان فلاسفہ کا انحصار ارسطو کے ان عربی تراجم پر تھا جو یونانی کی بجائے شامی زُبان سے کئے گئے تھے۔ معتزلہ کے سلسلے میں یہ خوش خیالی اس حد تک عام ہے کہ علمائے دین سے لے کر نصابی کتب لکھنے والے کلرک اور عقل پسند سمجھنے جانے والے محققین بھی اس کا پرچار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مثال کے طور علی عباس جلالپوری نے ’خرد نامہ جلالپوری‘ نامی ایک کتاب لکھی تو اس کے دیپاچے میں یہی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اگر معتزلہ کی فکر اپنالی جاتی تو سائنس’ ہماری‘ تھی۔

مسلمانوں نے نہ صرف ارسطا طالیسی منطق اپنائی بلکہ اس وقت بھی اس کا دامن تھام رکھا ہے جب معاصر علم اس منطق سے کئی نوری سال آگے نکل آیا ہے اور مسلم دنیا میں فکری انقلابِ موعودہ کے آثار کہیں دکھائی نہیں دے رہے۔ اس لئے مسلم دنیا میں ضرورت اس بات کی ہے کہ نئے سرے سے پہیہ ایجاد کرنے کی بجائے ارسطا طالیسی منطق اور فلسفے پر ہونے والی تنقید کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھیں ورنہ انہیں بھی ارسطو کی دلدل سے نکلتے ہوئے دوہزار سال لگ جائیں گے۔ بی بی سی کا سلسلہ ’’دس چیزیں جن سے ہم گذشتہ ہفتے لاعلم تھے ‘‘ بتاتا ہے کہ دنیا میں علم و آگہی بڑھنے کی رفتار کس حد تک تیز ہے۔ جہاں ایک ہفتے میں انسانی علم اتنا آگے نکل جاتا ہے وہاں دو ہزار سال پیچھے رہ جانا متروک ہوجانے کے مترادف ہو گا۔

جہاں تک محترم عاصم بخشی کے اس سوال کا تعلق ہے کہ متبادل منطق کیسی ہونی چاہیے تو اس کا سرسری جواب پروفیسر نیاز احمد کی رپورٹ میں بھی ملتا ہے اور میں نے اپنے گذشتہ مضمون میں باقاعدہ ان مقامات کی نشاندہی کی ہے جن پر فوری نظرِ ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ متبادل منطق میں نتیجہ محض سابق مقدمات کا لازمی نتیجہ نہ ہو بلکہ بیرونی، نفسیاتی و سائنسی حقائق اور حیات دوستی کے عالمگیر ضابطوں سے بھی ہم آہنگ ہو۔ واضح رہے یہاں سائنسی حقائق کے منبع میں سماجی علوم (social sciences) بھی شامل ہیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ متبادل منطق انتہاؤں کے درمیان گرے ایریاز کو مدِ نظر رکھے کیونکہ ایسا کرنا کٹرپن کا تریاق ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ متبادل منطق، اصول داخل الاوسط کی روشنی میں، حتمیت کی بجائے دریافت کے زریں اصول (discovery rather than perfection) پر زور دے۔ اس منطق کی روشنی میں کوئی سچ پر اجارہ داری کا دعویٰ نہیں کرپائے گا بلکہ سب کے ساتھ مل کر اُسے تلاش کرے گا۔ کوئی یہ نہیں کہے گا کہ سچ وہیں تک محدود جس حد تک میرے، میرے مسلک یا پھر میرے مذہب کے پاس ہے بلکہ اس بات کا اعتراف کرے گا کہ میرے پاس سچ کا محض ایک ٹکڑا ہے، بہت سی سچائیاں مل کر ایک بڑی سچائی تک لے کر جاتی ہیں اور یہ سفر جاری رہتا ہے۔

جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ ارسطو کی متروک منطق ( خاص طور پر اصول خارج الاوسط) کہاں تک انتہا پسندی کا باعث بنا ہے اس کا جواب تلاش کرنے کے لئے ہمیں کہیں دُور جانے کی ضرورت نہیں۔ ہماری تاریخ ایسے خوفناک واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جس کسی نے بھی صلح کل کی بات کی، سب کے ساتھ مل کر سچائی تلاش کرنے کی کوشش کی تو ہمارے کچھ طبقات نے شور مچا کر اُسے ’حق و باطل ‘ کے درمیان حائل ’فطری‘ دیوار گرانے کا مجرم قرار دیا۔ مغل بادشاہ اکبر کرہ ارض پر پہلا حکمران تھا جس نے بین المذاہب مکالمے کو فروغ دیا لیکن ہمارا سرکاری نصاب اُسے ولن قرار دیتا ہے۔ سرمد اور دارہ شکوہ نے یہ جسارت کی تو انہیں عبرت کا نشان جبکہ ان کے قاتل کو  ولی اللہ ثابت کرکے تقدس کی کھونٹی پر ٹانگ دیا گیا۔ صلح کل کے خلاف چنی گئی ان دیواروں کو قائم رکھنے کے لئے ہزاروں کتب لکھی گئیں جن کا فائدہ توڑنے والوں اور اشاعتی اداروں کے  اور ناقابلِ تلافی نقصان انسانیت کے حصے میں آیا۔

دیواریں قائم رکھنے کے جنون نے یہ سوچنے کی بھی مہلت نہ دی کہ فطرت میں بظاہر ضد دکھائی دینے والے مظاہر کے بیچ کوئی دیوار نہیں، گرے ایریاز ہیں لیکن ہماری نگاہ وہاں پر پڑتی ہے جہاں سے توڑا جا سکتا ہو اور وہ مقامات عقل کی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں جہاں سے جوڑا جا سکتا ہو۔ اس منطق کی ’روشنی‘ میں ہمیں جو کچھ دُوسرے کی ضد دکھائی دیتا ہے اُس نے دراصل دُوسرے کو واضح کررکھا ہے۔ دُوسرے کو سنبھال رکھا ہے۔ اس سب کے پیچھے اسی منطق کا تشکیل کردہ ذہن تھا کہ ’’اجتماع نقیضین ‘‘ محال ہے، جو ہم سے مختلف ہے وہ ہماری ضد ہے، دو اضداد کبھی ایک نہیں ہوسکتیں۔ اس لئے ایک کی فنا میں ہی دُوسرے کی بقا ہے۔ اسی منطق کی روشنی میں یہ مثال دی جاتی ہے کہ ندی کے دو کنارے ایک نہیں ہوسکتے لیکن آپ کبھی ایک کنارہ مٹا کر دیکھیں، دُوسرا خود بخود مٹ جائے گا۔ دونوں کناروں نے ایک دوسرے کو سنبھال رکھا ہے اور ان کے بیچ، گرے ایریاز میں، زندگی کا پانی بہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).