انٹر نیٹ کا پاکستان میں آخری دن


میرے چھوٹے سے کمرے میں رات اترتی تھی۔ میں سونے کی کوشش میں پہلو بدلتا تھا پر بلب کی تیز روشنی آنکھوں میں چبھتی تھی۔ کمرے میں ایک بستر اور لگا تھا جس پر ہمارے ایک عزیز رشتہ دار بڑی عرق ریزی سے کاغذ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر باریک لکھائی سے لکھتے چلے جاتے تھے۔ بستر پر نوٹس اور کتابوں کا ایک ڈھیر تھا اور بلب کے بند ہونے کے کوئی آثار نہ تھے کہ یہ کام رات گئے تک چلنا تھا۔

یہ بات بہت پرانی ہے۔ ہمارے ان عزیز پر اچانک وکیل بننے کا خبط سوار ہو گیا تھا۔  پڑھے لکھے آدمی تھے ۔ کام بھی ٹھیک چل رہا تھا پھر انہیں لگا کہ وہ ایک اچھے وکیل بن سکتے ہیں۔ طالب علمی کا دور بہت پہلے گزر چکا تھا۔ گھر کی دس ذمہ داریاں تھیں۔ بیوی بچے تھے۔ کام چھوڑ کر دل سے پڑھائی کرنا ممکن نہیں تھا۔ ایل ایل بی کے امتحان سر پر کھڑے تھے۔ حضرت ایک دور کے شہر میں رہتے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ رجسٹرڈ تھے اور امتحان لاہور میں تھے۔ تو میرے کمرے میں ایک زائد بستر لگا دیا جاتا۔ امتحان سے چند روز قبل کتابیں اور نوٹس لیے یہ عزیز وارد ہوتے  اور امتحان ختم ہونے تک مقیم رہتے تھے۔ میری عمر کوئی بارہ تیرہ سال کی تھی پر یہ اندازہ لگانے میں مجھے زیادہ وقت نہیں لگا کہ ان کی تیاری کوئی صفر کے قریب قریب ہوتی تھی۔ بیچارے امتحان سے پہلے کی راتوں میں انتہائی انہماک سے اور انتہائی عرق ریزی کے ساتھ کاغذ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بناتے پھر ان پر باریک لکھائی میں کتاب سے دیکھ دیکھ کر لکھتے چلے جاتے۔ عرف عام میں کاغذ کے یہ ٹکڑے “بوٹی” کہلاتے تھے۔ اور نقل کے لیے ان کا استعمال ایک خاص مہارت کا متقاضی تھا جو ہمارے ان عزیز میں بدرجہ اتم تھی۔ درجنوں بوٹیوں کے ساتھ صبح دم وہ عازم امتحان گاہ ہوتے اور دوپہر کو ایک فاخرانہ مسکراہٹ کے ساتھ واپس آتے۔ یہ سلسلہ سال بہ سال دہرایا گیا اور انجام کار چند راتوں کی محنت کا ثمر ڈگری کی صورت میں ان کے ہاتھ آگیا۔ برسوں بعد میں نے یونیورسٹی آف لندن سے قانون کے امتحان کی تیاری شروع کی تو ایک ہفتے میں سمجھ آگیا کہ نہ کسی شارٹ کٹ کی گنجائش تھی، نہ بوٹیوں کے سر پر کامیابی کا کوئی گمان تھا۔ انتہائی محنت کے ساتھ قانون کے بے شمار زاویوں کو گھول کر پینے کے ساتھ ساتھ سینکڑوں حوالوں کا عمیق مطالعہ کیے بغیر ڈگری کا حصول ممکن ہی نہیں تھا۔ وہی ڈگری جو ہمارے عزیز کی جھولی میں قانون کی الف ب سمجھے بغیر آ گری تھی۔ بعد میں یہی صاحب دھڑلے سے وکالت کرتے رہے۔ پھر جج بھی بن گئے۔ اور میں آج تک سوچتا ہوں کہ ان کے فیصلوں کی بنیاد میں کون سے قانون کا مسالہ لگتا ہو گا۔

کچھ برس قبل اسٹیل مل کی نجی کاری کا کیس سپریم کورٹ میں پیش ہوا تو ایک فاضل جج نے آن ریکارڈ یہ کہا کہ انہیں اسٹیل مل کے بیچے جانے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن اس کے اثاثے نہ بیچے جائیں کیونکہ وہ قوم کی امانت ہیں۔ بڑے لوگوں سے پوچھا پر کسی کو اس نسخے کا نہیں پتا تھا جس میں کمپنی بیچ دی جائے اور اس کے اثاثے بچا لیے جائیں۔ پھر مجھے “بوٹیاں” یاد آگئی اور میں چپ ہو لیا۔ قوم کے درد کے صدقے نجکاری نہیں ہوئی اور اس دن سے لے کر آج تک قوم کے پیسوں سے اسٹیل مل کا خسارہ چکایا جا رہا ہے۔

افتخار چوہدری کے سوموٹو سے لے کر پانامہ کیس تک فاضل جج صاحبان کے ارشادات کا ایک عظیم ذخیرہ ہے جس پر سر دھنا جا سکتا ہے۔ زانو پیٹے جا سکتے ہیں اور توہین عدالت کا خدشہ نہ ہو تو قہقہے بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ انہی عدالتوں میں برسوں منصف کی کرسی پر بیٹھنے والے ایک فاضل جسٹس ایک سبزی کو پسند نہ کرنے والے کو توہین مذہب کا مرتکب ٹھہرا سکتے ہیں۔ ایک سابق چیف جسٹس قتل عمد کو کار خیر کہہ سکتے ہیں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے فیصلوں میں کیا کیا کمال نہ ہوا ہو گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایم آر کیانی، کارنیلئئس ، دراب پٹیل، فخروالدین جی ابراہیم، بھگوان داس اور وجیہہ الدین جیسی درخشاں مثالیں کم ہوتی جا رہی ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے ایک صاحب نے اپنے مرحوم بھائی کی بیوہ پر الزام لگایا جس کی نوعیت یہ تھی کہ انہیں کسی نے بتایا کہ انہوں نے کسی سے سنا کہ ان کی بھابھی نے کسی اور سے گفتگو میں ایسے کلمات ادا کیے جو توہین کے زمرے میں آتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ایف آئی آر درج ہوئی بلکہ فاضل جج نے سزا سنا کر ان خاتون کو توہین کا مرتکب بھی ٹھہرا دیا۔ اب اس پر گریبان چاک کریں کہ سر دیوار سے پھوڑیں، سمجھ نہ آیا ۔ سنی سنائی بات یا hearsay پر ایسا فیصلہ دنیا بھر کے لیے نظیر ہے۔ کچھ فسادیوں نے بعد میں دبے لفظوں یہ بتانے کی کوشش کی کہ سب جائیداد کا قضیہ تھا پر ان کی آواز طوطی کی بھی نہیں تھی اور شور نقار خانے سے کہیں آگے کا تھا۔

قانون سے لاعلمی اور بے خبری اگر ایک عام شخص کے لیے بھی بہانہ نہیں تو ایک قانون دان کے لیے کیسے ہو سکتا ہے۔ پر کیا کریں صاحب یہاں سب چلتا ہے۔ ایک اور فاضل جج جو کچھ عرصہ پہلے فخر میڈیا جناب ڈاکٹر عامر لیاقت کو پیمرا کی پابندی سے خلاص کرنے کی وجہ سے خبروں میں آئے تھے اب پھر سے خبروں میں ہیں۔ فیس بک پر موجود مبینہ مواد کے خلاف سماعت میں اندھے انصاف کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ واقعات، شہادتوں اور گواہیوں کی متقاضی عدالت کو پتہ لگا کہ جذبات بھی اہم ہوتے ہیں۔ جوش خطابت سر آنکھوں پر، ان کی عقیدت کو ہمارا جھک کر سلام لیکن اس کا عدالتی کارروائی سے کیا رشتہ ہے اور اس سے ان کے سنائے گئے قانونی فیصلوں کی توثیق کیونکر ممکن ہے، یہ ہماری فہم سے بالاتر ہے۔ قانون کی پاسداری عقیدے، عقیدت، جذبات، احساسات، محبت اور نفرت سے بالاتر ہو کر ہی ممکن ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ فیصلہ ایک بھڑکتا پھڑکتا دعوی بنا دیا جائے۔

یہ کہنا کہ PTA  پیجز بند کرے، صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ فاضل عدالت  PTA کے دائرہ کار اور استعداد سے آگاہ نہیں ہے۔ یہ اعلی عدالتوں میں خبر یا بے خبری کا یہ عالم اپنے آپ میں ایک خطرناک علامت ہے۔ پنجابی فلموں کی بات اور ہے لیکن جج کو اپنے وقار کی خاطر ذاتی رائے بآواز بلند پیش کرنے سے گریز کرنا چاہیے اور پھر تان ایسی جگہ توڑنا کہ بعد میں تاویل دینا بھی ممکن نہ رہے۔

فی زمانہ سوشل میڈیا کا مطلب ہے فیس بک، ٹوئٹر، انسٹا گرام، یو ٹیوب اور سماجی رابطے اور تجزیے کی ویب سائٹس۔ اب اس پوری دنیا کو بند کیوں کر کیا جائے اور اس سے کیا فائدہ ہو گا۔ یو ٹیوب کو بند کرکے  جو کمال ہم نے کیا وہ زیادہ پرانی بات نہیں۔ اچھا چلیں مان لیا کہ انہیں بند کر دیں پر کس ضابطے کے تحت۔ اور اگر کر بھی دیں تو پراکسی سائٹس کا کیا کریں گے۔ ابھی بھی جو سائٹس بزور بازو ہم نے بند کی ہیں، پراکسی کے ذریعے انہیں کھولنا ایک سات آٹھ سال کا بچہ بھی جانتا ہے۔ تو لے دے کے فاضل عدالت کا بھرم رہ جائے، ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے، یہ کمبخت انٹرنیٹ ہی بند کر دیا جائے۔ آخر بیس پچیس سال پہلے بھی تو لوگ زندہ رہتے تھے۔ رہے نام اللہ کا۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad