حکمرانوں کو قوانین میں تبدیلی کر کے خواتین کو تحفظ دینا ہوگا


(محمد ارشد قریشی)۔

خواتین جو کہ انسانی آبادی کا نصف حصہ ہیں انہیں عمومی طور پر صنف نازک کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ ان کے متعلق رائے عامہ یہ ہے کہ یہ کمزور ہیں، بدقسمتی سے کند ذہن لوگ عورت کو کمتر ثابت کرنے کے لئے موضوع احادیث کا سہارا لیتے ہیں تو کہیں قرآنی آیات کا مفہوم اپنی عقل کے مطابق لوگوں کو سمجھاتے نظر آتے ہیں۔ کہیں انہیں گھر کی زینت کہا جاتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ چار دیواری کے اندر ہی اچھی لگتی ہیں۔ ان کا کام سجنا سنورنا، بچے پیدا کرنا اور تمام عمر گھر سنبھالنا ہی ہے۔ زندگی کے سنجیدہ سماجی و معاشی معاملات اور معاشرتی زندگی کے باقی تمام پہلوؤں سے ان کا کوئی سروکار نہیں ہے۔ یہ فرسودہ اور متعصبانہ خیالات معاشرتی نفسیات میں ایک ناسور کی طرح اپنی جڑیں رکھتے ہیں۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بدقسمتی سے اگر اس حوالے سے پاکستان میں دیکھا جائے تو حالات انتہائی ابتر ہیں۔ گھریلو حالات، غربت، افلاس، تنگدستی، محرومی، لاعلاجی اور مہنگائی کے ہاتھوں تنگ اور مجبور عورت جب روزگار کی تلاش میں باہر نکلتی ہے تو وہاں بھی اسے جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ خواتین کے لئے ملازمت حاصل کرنا اب بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور اگر ملازمت مل بھی جائے تو سماج میں موجود مردوں کی حاکمیت کے باعث انہیں ہر وقت جنسی تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

گھر سے نکلنےسے لے کر کالج یونیورسٹی اور دفتر تک پہنچنے تک ان کا یوں بغور جائزہ لیا جاتا ہے جیسے کوئی عجوبہ گذر رہا ہو پھر اس کے گھر سے نکلنے پر عجیب و غریب رائے قائم کی جاتی ہے۔ یہ نہیں سوچا جاتا کہ کون سی مجبوری اسے گھر سے باہر نکل کر نوکری کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ ایسے سماجی رویوں کی وجہ سے جب کوئی بیٹی نوکری کرنے کی بات کرتی ہے تو پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ شاید اسی وجہ سے پاکستان میں محنت کش خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کافی کم ہے جب کہ وہی خواتین روز مرہ کے گھریلو کام کاج میں مصروف رہیں تو خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے کیونکہ ان کی یہ تمام دن کی محنت شمار نہیں کی جاتی جو بلا واسطہ روپے کی صورت میں کوئی منافع پیدا نہ کر رہی ہو۔

 حالات زندگی ہر گزرتے دن کے ساتھ تنگ سے تنگ تر ہوتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے گھریلو ماحول مجموعی طور پر تناؤ کا شکار ہے اور سماجی رشتے تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ منگنیوں کے ٹوٹنے، طلاقوں اور خودکشیوں کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور گینگ ریپ جیسے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور پہلے اِکا دُکا نظر آنے والے یہ واقعات اب روز کا معمول بنتے جارہے ہیں اور اب اس سے معصوم بچیاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک عورت پر اگر تشدد کیا جاتا ہے تو ان میں اکثریت صرف ظلم سہتی ہے یا پھر آخری حد تک چلی جاتی ہے اور خودکشی کرلیتی ہے کیوں کہ وہ جانتی ہے یہ معاشرہ مردوں کا ہے اس کی کہیں سنوائی نہیں ہوگی۔ ایک مظلوم عورت انصاف کے حصول کے لئے تھانے میں اکیلی داخل ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتی لہٰذا عورتوں پر ہونے والے ظلم و جبر کے اکثریتی کیس رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ اگر پرچہ درج بھی ہو جائے تو جس انداز میں تحقیقات ہوتی ہے وہ اس کے جسمانی تشدد سے کہیں زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے ۔

آج کے جدید دور میں بھی کاروکاری، وٹہ سٹا، ونی اور ستی جیسے جاہلانہ رواج عروج پر ہیں جہاں عورت کو ایک حقیر اور کم تر سمجھا جاتا ہے۔ راہ چلتے عورتوں پر آوازیں کسنا، مذاق اڑانا، سوشل میڈیا پر ان کی تصاویر جاری کرنا، انہیں بلیک میل کرنا اور غیراخلاقی الفاظ کا استعمال کرنا روز کا معمول بن چکا ہے۔ آپ کبھی غور کریں تو ہمارے معاشرے میں غلیظ ترین گالیوں میں بھی صرف عورت کے نام اور رشتوں کا استمال کیا جاتا ہے۔ تیزاب پھینک کر عورتوں کی شکلیں مسخ کر کے انہیں عمر بھر کے لیے بے سہارا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس دور میں بھی دور جہالت کے پیروکار موجود ہیں کسی کی بہن کی اگر ریپ ہوجائے تو بھائی اسے غیرت کے نام پر قتل کردیتا ہے بجائے یہ کہ اپنی بہن کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر اس مجرم کو قانون کے دائرے میں لائے جس نے ایسا کیا۔ کہیں کوئی شخص کسی کی بہن کے ساتھ ریپ کرتا ہے تو جواب میں اس مجرم کی بہن سے ریپ کرنے اور کہیں تو اجتماعی ریپ کرنے کا ظالمانہ فیصلہ دے دیا جاتا ہے۔

ایک لڑکی کی شادی کی فکر اس کی کم عمری سے ہی ماں باپ کو ہوجاتی ہے کیوں کہ ایک تو لڑکی کی عمر تیزی سے ڈھلنے کا تصور ذہن میں ہوتا ہے۔ دوسرا لڑکے والوں کی طرف سے ممکنہ طور پر جہیز کا مطالبہ بھی جان کھائے رکھتا ہے۔ نیز یہ اندیشہ کہ اگر لڑکی کی عمر زیادہ ہوگئی تو رشتہ ملنا ناممکن ہوجائے گا کیوں کہ ہمارے اس معاشرے میں مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا جب کہ لڑکی بہت جلد بوڑھی ہوجاتی ہے۔ اگر اس کی عمر زیادہ ہوگئی تو پھر اب اسے جیسے بھی لڑکے کا رشتہ آئے گا اسے بیاہ دیا جائے گا۔ اب اس کی زندگی جیسی بھی گذرے وہ اس کی قسمت۔ مطلب اپنے سر سے بوجھ اتار دیا اب وہ جانے اور اس کی قسمت ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ بیٹی اب اس گھر سے مرنے کے بعد ہی نکلنا۔ ایسے میں لڑکی اپنا گھر بار، ماں باپ، بہن بھائی، سہیلیاں یہاں تک کہ اپنے ساتھ لگے ہوئے باپ کے نام کو بھی چھوڑ دیتی ہے۔ شوہر اچھا مل گیا تو ٹھیک ورنہ یہاں ایک نئی اذیت شروع۔ ذرا ذرا سی بات پر تشدد کیا جاتا ہے اور شوہر اگر غصے میں آجائے تو سر بازار چلتے ہوئے طلاق دے دیتا ہے کیوں کہ وہ اس ہتھیار کو مردانگی تصور کرتا ہے۔ کہیں عورت پر تشدد کے ساتھ ساتھ اس کو جنسی تشدت کا بھی نشانہ بنا کر اپنی جنس کی فوقیت جتائی جاتی ہے۔ ایسے بھی جاہلانہ فیصلے دیکھے گئے ہیں کہ عورت کو کسی الزام کی سزا میں سرعام برہنہ کرکے گلیوں میں گھمایا جاتا ہے اور اس کو پتھر مارے جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ظاہر ہے اس وجہ سے کہ ایسا کرنے والوں کو سزائیں نہیں ملتیں۔

شرمین عبید چنائے کی فلم اے گرل ان ریور میں جس صباء کے واقعے کا ذکر کیا گیا کیا وہ پاکستانی حکمرانوں کے علم میں کیا نہیں تھا؟ کیا تیزاب پھینکنے کے واقعات، برہنہ کرنے، ونی، کاروکاری اور غیرت کے نام پر قتل وغیرہ جیسے واقعات وہ نہیں جانتے ہیں؟ ایسا نہیں ہے بلکہ وہ سب جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ انہیں کرنا کیا ہے لیکن کرتے نہیں۔

میں نے پاکستان کے دیہاتوں میں دیکھا ہے کہ تمام مرد چارپائی پر بیٹھتے ہیں اور خواتین زمین پر بیٹھتی ہیں۔ مجال ہے جو گھر کے مرد کے سامنے وہ بھی چارپائی ہر بیٹھ جائیں۔ آج بھی گھر میں بہن اس وقت تک بھوکی رہتی ہے جب تک پہلے بھائی کھانا نہ کھالے۔ لیکن اس کے باوجود عورتوں کے عالمی دن پر ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ ان کے حقوق پر لفاظیاں کی جاتی ہیں لیکن عملی طور پر کوئی خاطر خواہ کام نظر نہیں آتا جس سے عورت کو تحفظ دیا جائے۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مرد کو فوقیت ہے کیوں کہ وہ گھر کا سربراہ ہوتا ہے تو کیا اس سربراہ کو پیدا کرنے والی عورت ہی نہیں؟ جس کو پاؤں کی جوتی کہا جاتا ہے کیا اس کے ہی پاؤں کے نیچے جنت نہیں ؟

خواتین کے عالمی دن کے موقع پر صرف لفاظیوں، ریلیوں اور سیمیناروں سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ خواتین کا معاشرے میں اہم مقام کو کھلے دل کھلے ذہن سے تسلیم کرنا ہوگا۔ ان ہاتھوں کو روکنا ہوگا جو خواتین پر تشدد کرتے ہیں۔ ان جاہلانہ رسم و رواج کے خلاف اٹھ کھٹرا ہونا ہوگا جس سے نہ صرف ہمارا ملک بدنام ہو رہا ہے بلکہ اسلام کو بھی بدنام کیا جا رہا ہے۔ حکومت کو سنجیدگی سے قانون بنانے ہوں گے۔ خواتین کو تحفظ دینا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).