کیا عمران خان کا پھٹیچر والا بیان آف دا ریکارڈ تھا؟


صحافت پر ایک دور تھا جب موبائل فون تھے اور نہ ان میں نصب کیمرے ہر ایک کے ہاتھ کی انگلیوں سے کام کرتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب باتیں آف دی ریکارڈ ہوا کرتی تھیں۔ اگر آج کسی سیاسی رہنما یا اہم شخصیت نے صحافی سے آف دی ریکارڈ گفتگو کرنا ہے تو پھر وہ کھلے آسمان تلے چہل قدمی کرتے ہوئے بات کرے اور اس سے پہلے موبائل فون کہیں دور چھوڑ کر آنے کا فیصلہ کیا جائے۔ مگر اس معاملے میں تو یہ بھی نہیں کہا گیا کہ یہ آف دی ریکارڈ بات ہو رہی ہے۔

اتوار کی شام دی نیشن اخبار سے منسلک سینئر صحافی ٹیرنس جوزف سگمنی کا فون آیا، بولے کل عمران خان نے ملاقات کیلئے سپریم کورٹ کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو بلایا ہے۔ پوچھا، کیا یہ ملاقات رپورٹروں کی خواہش پر کی جا رہی ہے یا عمران خان نے ملنے کی خواہش ظاہر کی ہے؟ ( کیونکہ گزشتہ بار ایسی ہی ملاقات کیلئے عمران خان کے گھر جانے سے انکار کر چکا تھا کہ صحافتی اخلاقیات کے تحت سمجھتا ہوں کہ جب تک کسی کا مقدمہ زیرسماعت ہو اس وقت تک فریق کی دعوت پر ملنے جانا عدالت کے رپورٹر کیلئے درست نہیں۔ دوسری جانب یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ اس ملاقات کے لئے رپورٹرز کی جانب سے خواہش ظاہر کی تھی)۔ ٹیرنس نے جواب دیا کہ پانامہ پیپرز کیس مکمل ہو چکا ہے، عمران خان کی خواہش پر ان کے گھر رسمی اور غیر رسمی گفتگو ہو گی۔

پیر کی شام پانچ بجے بنی گالہ پہنچا تو ہمارے وکیل دوست فیصل چودھری موجود تھے، بولے یار، آئندہ آپ کو ایک گھنٹہ قبل کا وقت دیا کروں گا، خان صاحب بیٹھے ہیں اور آپ پانچ منٹ دیر سے آ رہے ہیں۔ خیر میٹنگ والے کمرے میں پہنچا تو وہاں عمران خان اور ان کے دائیں بائیں نعیم الحق اور فواد چودھری بیٹھے تھے( کرسی کے نیچے ایک بڑا سا کتا بیٹھا ہوا تھا)، سامنے سپریم کورٹ کے تین رپورٹرز موجود تھے ۔ خان صاحب اور دیگر سے ہاتھ ملانے کے بعد اپنی نشست پر بیٹھا تو گفتگو جاری تھی۔ ہلکی پھلکی غیر رسمی گفتگو میں عمران خان سپر لیگ کے فائنل کے بارے میں بے تکان بولے جا رہے تھے۔ اس کے بعد پانامہ پیپرز کیس کے فیصلے پر گفتگو ہوئی، پہلے یہ معاملہ زیربحث رہا کہ فیصلہ کب آئے گا؟۔ ہر کوئی اپنے اندازے لگا رہا تھا۔ پھر فیصلے پر بات ہوئی کہ سپریم کورٹ کیا ممکنہ حکم جاری کر سکتی ہے۔ ہر ایک نے قانون کی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اندازہ لگانے کی کوشش کی۔

کچھ وقت گزرا، تمام رپورٹرز پہنچ گئے تو رسمی گفتگو کا آغاز ہوا۔ سوال وجواب شروع ہوئے۔ آمنے سامنے بیٹھے صحافیوں نے فون کے کیمرے اور کاغذ قلم سنبھالے۔ ٹی وی کے رپورٹروں کی مجبوری ہوتی ہے کہ خبر کے ساتھ ویڈیو کلپ بھی ہونا چاہیے۔ اخبار والوں کے لئے آسانی تھی کہ بس لکھ رہے تھے۔ دس رپورٹروں نے عمران خان کی گفتگو کے مختلف حصوں کی ویڈیو بنائی اور اپنے دفاتر کو بھیج دی۔ عمران خان کی سوشل میڈیا ٹیم کے ایک نوجوان نے پہلے ملاقات کی تصاویر بنائیں اور پھر اپنے موبائل فون سے ویڈیو بھی بنا کر چلا گیا۔

ملاقات ختم ہوئی تو ہر صحافی نے اپنی خبر بنائی اور دفتر کو بھیج دی۔ خبر بناتے وقت ہر رپورٹر کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، اس کو نیوز سینس بھی کہا جاتا ہے، اکثراوقات اخبار یا ٹی وی چینل بھی اپنی پالیسی کے مطابق کسی بیان یا گفتگو کے ایک حصے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ میری خبر اپنے سوال کے جواب سے متعلق تھی جس میں عمران خان نے الیکشن کمیشن کے خلاف سڑکوں پر آنے کا عندیہ دیا اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرنے کی بات کی۔ زیادہ تر ٹی وی چینلوں اور اخبارات نے عمران خان کی گفتگو کے اسی حصے پر توجہ مرکوز رکھی۔

آج صبح ایک نیوز چینل سے فون آیا کہ کیا عمران خان نے کوئی ’پھٹیچر والی بات‘ کی تھی؟ اثبات میں جواب دیا تو پوچھا گیا کہ کیا اس کی ویڈیو کلپ موجود ہے؟ میرا جواب نہیں میں تھا۔ پھر جیونیوز سے میرے دوست عبدالقیوم صدیقی کا پیغام آیا کہ پھٹیچر کی ویڈ یو ہے؟ ان کو جواب دیا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ خبر آپ نے چلائی ہے؟ بولے درست ہے مگر ویڈیو نہیں۔ پھر کچھ دیر بعد عفت حسن رضوی کے موبائل فون سے بنی اس ویڈیو نے تقریبا تمام ٹی وی چینلوں پر’تہلکہ‘ مچا دیا۔ تحریک انصاف کی رپورٹنگ کرنے والے دوست صحافیوں نے موقف اختیار کیا کہ یہ صحافتی اخلاقیات کی خلاف ورزی ہے کیونکہ گفتگو آف دی ریکارڈ تھی۔ کیا یہ دوست نہیں جانتے کہ آف دی ریکارڈ کے نام سے تو اب ٹی وی پروگرام بھی ہو رہے ہیں۔ کیا صحافت میں ایسی کوئی چیز ہوتی ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کے سامنے بیس رپورٹر بیٹھے تھے۔ دس نے اپنے موبائل فون کے کیمرے کھولے ہوئے تھے۔ سوال وجواب ہو رہے تھے۔ عمران خان یا ان کے اطراف بیٹھے ترجمانوں نے ایک بار بھی کسی کو نہیں روکا کہ یہ آف دی ریکارڈ گفتگو ہے ریکارڈنگ نہ کی جائے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ عمران خان اوران کے ترجمان تو بیان کا دفاع کررہے ہیں مگر تحریک انصاف کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی نظر میں یہ آف دی ریکارڈ گفتگو تھی۔

دوستو، صحافت پڑھنا ہی نہیں، اوڑھنا بچھونا بھی ہوتا ہے۔ یہ ایک مکمل دنیا ہے، جو صحافی اس ملاقات میں موجود تھے ان میں سے کسی کو یہ مسئلہ نہیں کہ گفتگو آف دی ریکارڈ تھی۔ میرے دوستو، صحافت پر بہت برے دن آگئے ہیں، اور پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا کی صحافت کا تو بس نہ ہی پوچھیں۔ گفتگو کے آف دی ریکارڈ ہونے کا صرف عمران خان، ان کے ترجمان دعوی کرسکتے ہیں یا پھر ملاقات میں موجود صحافی ۔ بات یہ ہے کہ عمران خان نے لاہور میں فائنل کرانے کو ’پاگل پن‘ قرار دیا تھا اور وہ کل ہمارے ساتھ ملاقات میں اپنے بیان پر ڈٹے ہوئے تھے ۔

(معلوم یہ ہوا ہے کہ تحریک انصاف کی رپورٹنگ کرنے والے چند رپورٹرز نے اعتراض کیا تھا کہ عمران خان نے سپریم کورٹ کے رپورٹرزکو ہم سے پوچھے بغیر کیوں بلایا ہے اس لیے پھٹیچر والی ویڈیو کو آف دی ریکارڈ گفتگو قرار دے رہے ہیں)۔

بطور صحافی ایک سبق یاد کرنے کی ضرورت ہے۔ رپورٹرکو جب کسی اہم رہنما سے بات کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ خبر نکالنے کی کوشش کرتا ہے اور سیاسی رہنما و حکومتی اہلکار کو محتاط رہنا ہوتاہے۔ (الیکٹرانک میڈیا کو ’پھٹیچر‘ جیسی شرلیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ریکارڈ بھی ہوجائے تو پھر سیاست دان کو اپنے بیان پر کھڑے رہنا ہوتا ہے. صحافیوں کو سیاست دان کا ترجمان بننے کی کوشش ترک کر دینی چاہیے۔(


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).