عامر ہاشم خاکوانی اور ”زنگار“


ارشاد احمد حقانی کے کالموں سے متاثر نوجوان، اپنی زندگی کا پہلا کالم لکھ کر ”8 اے“ بس میں سوار ہو کر ”جنگ“ اخبار کراچی کے دفتر، واقع آئی آئی چندر گر روڈ پہنچتا ہے؛ ریسپیشن پر بند لفافہ تھما کر لوٹ جاتا ہے۔ اگلے روز بے تابی سے اخبار کا انتظار کرتا ہے، وہ اس وقت حیرت زدہ رہ جاتا ہے، جب ”جنگ“ کے ادارتی صفحے پر اپنی پہلی کاوش کو اپنے پسندیدہ صحافی ارشاد احمد حقانی کے کالم کے ساتھ دیکھتا ہے۔ یہ لگ بھگ بائیس تئیس سال پرانی بات ہے۔ کالم کا عنوان ہے، ”ٹرائیکا کی آئینی و سیاسی حیثیت“ اور اُس نوجوان کا نام ہے، عامر ہاشم خاکوانی۔

عامر ہاشم خاکوانی بائیس تئیس سال پہلے بھی نوجوان تھے، اور آج بھی نوجوان ہیں۔ ان گنت قارئین اُن کی تحریر کے دیوانے ہیں۔ انھوں نے 2004ء سے کالم نگاری کا باقاعدہ آغاز کیا۔ وہ سوشل میڈیا پر بھی سرگرم رہتے ہیں، سوشل میڈیا ایسا میڈیم ہے، جہاں آدھی نہیں، پونی ملاقات ہو جاتی ہے۔ عامر ہاشم خاکوانی نے سوشل میڈیا پر لکھنے والوں کو نہ صرف یہ کہ سراہا، بل کہ جب جب ممکن ہوا، ان نئے لکھنے والوں کو اپنے اخبار میں شائع کر کے، اُن کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ لطافت کے پیچھے کہیں کثافت ہوتی ہے، جیسا کہ غالب نے احساس دلایا:

لطافت بے کثافت، جلوہ پیدا کر نہیں سکتی

چمن زنگار ہے، آئنہ بادِ بہاری کا

شعر کا مطلب کوئی غالب شناس سمجھائے گا، بس اتنا ہی کہ کثافت کے پردے سے لطافت کا ظہور ہوتا ہے۔ زنگار وہ میل ہے، وہ زنگ ہے، جسے شیشے پر مل دیا جائے، تو شیشہ آئنے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ خاکوانی کے کالم کے سلسے کا عنوان مندرجہ بالا شعر سے مستعار لیا گیا ہے، ”زنگار“۔ یہ عنوان اُن کے دوست اور صحافی غلام محی الدین نے تجویز کیا۔ گزشتہ بارہ تیرہ سالوں سے خاکوانی آئنہ بادِ بہاری دکھاتے آ رہے ہیں۔ حال ہی میں ان کے کالموں کا انتخاب ”زنگار“ ہی کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہوا ہے۔ اس کتاب میں ان کے بہ ترین تراسی کالم شامل ہیں۔ اخبار کی زندگی ایک دن کی ہوتی ہے، اسی طرح اکثر کالم بھی باسی ہو جاتے ہیں۔ اس کتاب میں کالم کا انتخاب کرتے بہت سمجھ داری کا مظاہرہ کیا گیا ہے؛ وہ ایسے کہ زیادہ تر ان تحریروں کو چنا گیا ہے، جو داستانی رنگ لیے ہوئے ہیں۔ داستانوں میں کسے دل چسپی نہیں ہوتی؛ داستانوں کی عمر طویل ہوتی ہے، سو پڑھنے والے کو یہ کالم نہیں، مختصر افسانے لگتے ہیں۔

غالبا سوشل میڈیا کے اثرات ہیں، کہ خاکوانی سیکولر ازم اور لبرل ازم کے خلاف کھل کر لکھتے ہیں، اور اپنے آپ کو دائیں بازو کا نمایندہ کہلانا پسند کرتے ہیں؛ ”پاکستانی لبرل کیوں ناکام ہوئے“، ”فکری مغالطے، جن سے سیکولر کبھی نہ نکل سکے“ ایسے مضامین بھی کتاب میں شامل ہیں۔ ”دلیل، مولانا دلیل ہی جیتتی ہے“ کے عنوان سے تحریر کا آغاز یوں کیا ہے:

”انسان دلیل پر جیتا ہے اور دلیل پر مرتا ہے۔ صدیوں سے بحث و مباحث صرف دلیل کی بنیاد پر لڑے اور جیتے جاتے ہیں۔ دلیل کے بغیر کوئی دعوا لاف و گزاف کے سوا کچھ نہیں۔ اہل علم کو یہ زیب نہیں دیتا، اور کچھ نہیں تو اپنے آبائی ورثے ہی کا خیال کر لیا ہوتا۔“

دلیل پر بھروسا کرنے والا شخص، مذہب (عقیدہ) کو کیسے نبھاتا ہوگا، اس کا جواب وہی دے سکتے ہیں۔ جہاں تک میری فہم کا تعلق ہے، تو ”عقیدہ“ دلیل کا محتاج نہیں ہوتا۔ خاکوانی نے مذہب کے بیانیے کو پیش کرنے کی نیت سے ویب سائٹ ”دلیل“ کی بنیاد رکھی کہ لبرل حلقوں کے پروپگنڈے کا توڑ کیا جا سکے۔ وہ برملا کہتے ہیں، کہ ہم جانب دار ہیں، ہماری جانب داری مذہب کے رُخ ہے۔

کتاب تو قارئین پڑھ ہی لیں گے؛ یہاں میں عامر ہاشم خاکوانی کی بات کرنا چاہوں گا، جنھوں نے کتاب کے پیش لفظ میں اپنی صحافتی زندگی کی کہانی بیان کی ہے۔ وہ ایک ایک دوست کا ذکر کرتے چلے جاتے ہیں، کہ کیسے گام بہ گام ہم راہیوں نے روشنی دکھائی، اور ایک ایک رہ نما کا شکریہ ادا کرتے جاتے ہیں۔ یہ معمولی بات نہیں کہ اپنی کام یابیوں کا ذمہ دار دوسروں کو بتایا جائے؛ عامر خاکوانی نے ایک بھی شخص کے لیے یہ نہیں کہا، کہ اس نے میرا راستہ روکنے کی کوشش کی، یا روکا۔ ایسا تو نہیں ہوا ہوگا، کہ اُن کا کوئی رقیب نہ رہا ہو۔ لیکن دِل کے خوب صورت، ہر جا خوب صورتی تلاش کر لیتے ہیں، وہ کیچڑ کے بہ جائے شفاف آسمان پر نظر رکھتے ہیں۔ ہم میں آپ میں سے سبھی ایسے ہیں، جن کی کامرانیوں کی وجہ دوست بہن بھائی عزیز و اقارب ہوتے ہیں، لیکن ہم میں آپ میں سے کتنے ہیں، جو کہتے ہوں، میری کام یابی میں فلاں مددگار تھا۔ غیر معمولی لوگوں کے دِل میں جو کثافت ہو، وہ زنگار کا کام دیتی ہے، کہ آئنہ بن جاتے ہیں، جو چمکتا ہے؛ کوئی آئنہ مہکے بھی، تو اُسے عامر ہاشم خاکوانی کہنا چاہیے۔

”زنگار“ دوست پبلی کیشن اسلام آباد نے شائع کی ہے؛ 358 صفحات کی اس کتاب کی قیمت 600 رُپے ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran