آخر حکومت گستاخ پیجز کو بند کیوں نہیں کرتی ہے؟


یہ سوال بار بار اٹھایا جاتا ہے کہ حکومت گستاخ ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پیجز کو بند کیوں نہیں کرتی ہے۔ اس طرح کے سوالات اٹھائے جاتے ہیں کہ فلاں ویب سائٹ فلاں لوگ چلا رہے ہیں۔ اس کے متعلق معلوم ہو گیا ہے کہ وہ دنیا کے کس شہر یا ملک سے آپریٹ ہو رہی ہے تو پھر اسی طرح گستاخانہ بلاگرز کا آئی پی اور دیگر تفصلات نکال کر ان کو ٹریس کیوں نہیں کیا جا سکتا ہے؟

سوشل میڈیا کے پیجز اور ایک ویب سائٹ دو مختلف چیزیں ہیں۔ ایک ویب سائٹ کا آئی پی پبلک ہوتا ہے۔ اسے کوئی بھی دیکھ سکتا ہے اور اس کی لوکیشن جان سکتا ہے۔ کیونکہ اسی آئی پی کے ذریعے ہم اپنے براوز میں اس ویب سائٹ کو کھولتے ہیں اس لئے اس کا پبلک ہونا ضروری ہے۔

لیکن ویب سائٹ پر کمنٹس کرنے یا مضمون لکھنے والوں کا آئی پی ایڈریس صرف ویب سائٹ کی انتظامیہ کے علم میں ہوتا ہے۔

فیس بک پر آپ جو بھی پوسٹ کر رہے ہیں اس کا آئی پی پبلک نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ آئی پی صرف فیس بک انتظامیہ ہی فراہم کر سکتی ہے اور اسی آئی پی سے لوکیشن کا پتہ چلتا ہے۔ عام افراد ہوا میں تکے ہی لگا سکتے ہیں کہ فلاں پیج کے پیچھے فلاں شخص ہے۔ جب چار بلاگر غائب ہوئے تھے تو ان پر بھی بغیر کسی ثبوت کے شد و مد سے یہ الزام لگایا جانے لگا تھا کہ وہ گستاخانہ پیج چلاتے ہیں، مگر جب وہ کئی ہفتے بعد واپس نمودار ہوئے تو حکومت کی جانب سے ان پر یہ الزام نہیں لگایا گیا اور الزام لگانے والے غلط ثابت ہو گئے تھے۔

انٹرنیٹ پر آئی پی ایڈریس کو جاننا مشکل ہو سکتا ہے۔ اپنا آئی پی ایڈریس چھپایا بھی جا سکتا ہے اور غلط آئی پی ایڈریس دیا جا سکتا ہے۔ آپ پاکستان میں بیٹھ کر امریکہ یا جرمنی کا آئی پی ایڈریس استعمال کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے پراکسی سرور اور ایسے دوسرے ٹول موجود ہوتے ہیں جو کہ اب عام افراد کی دسترس میں بھی ہیں۔

فیس بک کا یہی معاملہ ہے کہ اس پر موجود افراد کے آئی پی اور دیگر تفصیلات سے فیس بک کی انتظامیہ تو آگاہ ہوتی ہے مگر کوئی دوسرا حکومتی یا نجی ادارہ نہیں۔ پی ٹی اے پاکستان میں کسی ویب سائٹ کی براہ راست رسائی کو تو بلاک کر سکتی ہے مگر فیس بک کی کسی مخصوص پوسٹ یا پیج وغیرہ کو نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کسی گستاخانہ ویب سائٹ کو اپنے براؤزر میں کھولنے کی کوشش کریں تو ایک ایرر میسیج آ جاتا ہے، مگر فیس بک کا پیج بلاک ہونے کی صورت میں ویسا میسیج دکھائی نہیں دیتا ہے۔

اس ویب سائٹ بلاکنگ کا توڑ عام افراد پراکسی سرور وغیرہ کے ذریعے نکالتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یوٹیوب پاکستان میں ایک طویل مدت تک بلاک ہونے کے باوجود دیکھی جاتی رہی تھی۔ ہر چھوٹے بڑے کو علم تھا کہ پی ٹی اے کی جانب سے بلاک ہونے والی یوٹیوب تک کیسے رسائی حاصل کرنی ہے۔

فیس بک وغیرہ کے ڈیٹا تک رسائی کرنے یا اس پر پوسٹ کرنے والوں کے بارے میں جاننے کے لئے حکومتیں فیس بک کی محتاج ہوتی ہیں۔ حکومت کے بس میں یہ تو ہوتا ہے کہ پوری کی پوری فیس بک کو بلاک کر دے مگر اس کی چند پوسٹوں یا صفحات کو بلاک کرنے کے لئے اس کو فیس بک سے درخواست کرنا پڑتی ہے جو کہ اس ملک کے قوانین کے مدنظر اس مخصوص مواد کی رسائی اس ملک میں بند کر سکتی ہے مگر یہ فیس بک کی اپنی صوابدید ہے کہ وہ اس حکومتی درخواست پر عمل کرے یا اسے نظر انداز کر دے۔

آپ کو کئی افراد نہایت تیقین سے بتا دیں گے کہ حکومت چاہے تو نہایت آسانی سے ان گستاخ پیجز کے چلانے والوں کے آئی پی ایڈریس کا سراغ لگا سکتی ہے۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو دنیا بھر میں مصنوعی سیاروں کا جال بچھائے اور ڈیجیٹل جاسوسی کی ماہر امریکی حکومت لاچار نہ ہوتی۔ فیس بک کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2016 کے پہلے چھے ماہ میں امریکی حکومت نے فیس بک سے معلومات حاصل کرنے کے لئے 23,854 درخواستیں دیں جن میں 38,951 افراد کا ڈیٹا مانگا گیا تھا۔ فیس بک نے 80 فیصد درخواستوں کو شرف قبولیت بخشا۔

یہ بھی یاد رہے کہ فیس بک کا پاکستان میں دفتر نہیں ہے اور وہ پاکستانی عدالتوں کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ اسی طرح پاکستان سے باہر بیٹھے افراد پر بھی پاکستانی قانون لاگو نہیں کیا جا سکتا ہے۔

فیس بک کی پالیسی واضح ہے۔ وہ حکومت کی طرف سے موصول ہونے والی درخواستوں پر غور کرتے ہیں کہ کیا قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے یا نہیں۔ اس کی بنیاد پر محدود معلومات فراہم کی جا سکتی ہیں۔ اگر کوئی مواد کسی ملک کے اپنے قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے، تو حکومت کی درخواست پر اس مواد کی صرف اور صرف اس ملک میں رسائی روکی جا سکتی ہے لیکن دنیا کے دوسرے ممالک میں وہ دکھائی دے گا۔

بہرحال اس معاملے میں حتمی فیصلہ فیس بک انتظامیہ کا ہوتا ہے کہ وہ حکومتی درخواست پر کیا رد عمل دیتی ہے۔ جن ممالک میں فیس بک بطور کمپنی رجسٹرڈ ہے، ادھر اسے عدالتی احکامات بھی ماننے پڑتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہماری حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے یا ان گستاخ پیجز کے خلاف کچھ کر بھی رہی ہے؟ فیس بک کے دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2016 کے پہلے چھہ ماہ میں پی ٹی اے نے فیس بک انتظامیہ کو 719 درخواستیں دیں جن میں 1029 افراد کا ڈیٹا مانگا گیا تھا۔ یہ ڈیٹا ان افراد کی شناخت، یا ان کے آئی پی ایڈریس یا ان کے کانٹینٹ مثلاً پرائیویٹ پوسٹیں یا میسیج وغیرہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ان میں سے 65 فیصد درخواستیں قبول کی گئیں اور کچھ نہ کچھ ڈیٹا دیا گیا۔ ضروری نہیں کہ فیس بک درخواست میں موجود تمام ڈیٹا فراہم کرے، یہ بھی اس کی اپنی صوابدید ہے۔ اس عرصے میں بلاک کرنے کی 25 درخواستیں قبول کی گئیں کہ فلاں مضمون یا پیج وغیرہ پاکستان میں نہ دکھایا جائے۔

جنوری سنہ 2015 میں 275 افراد کے متعلق درخواست کی گئی جن میں سے 58 فیصد پر ڈیٹا دیا گیا۔ جولائی میں 706 افراد کے خلاف درخواستوں پر 66 فیصد قبول کی گئیں اور 6 پوسٹیں بلاک کی گئیں۔

جنوری 2014 میں 160 افراد کا ڈیٹا مانگا گیا۔ صرف 35 فیصد درخواستیں قبول کی گئیں۔ جولائی میں 152 افراد کے متعلق پوچھا گیا اور 42 فیصد درخواستیں قبول کی گئیں۔ 2014 میں کل 1827 پوسٹیں یا پیج پاکستان میں بلاک کیے گئے۔

فیس بک امریکہ میں رجسٹرڈ ہے۔ ادھر کے آزادی اظہار کے قوانین ان کو کسی مذہب مخالف مواد کو ہٹانے سے قانونی طور پر روکتے ہیں۔ ادھر افراد کی نجی معلومات کی پرائیویسی کے لئے بھی قوانین موجود ہیں جو افراد کو حکومتوں کے خلاف تحفظ فراہم کرتے ہیں اور طاقتور شہری تنظیمیں اس تحفظ کو یقینی بناتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر ہماری حکومت اس معاملے میں فیس بک انتظامیہ کی محتاج ہے تو اس کے سامنے کیا راستہ ہے؟ پہلا راستہ تو یہ ہے کہ فیس بک کو مکمل طور پر پاکستان میں بلاک کر دیا جائے۔ مگر ہم نے یوٹیوب کو گستاخانہ فلم کی بنیاد پر بند کیا تھا تو کیا ہوا؟ بچہ بچہ پراکسی لگا کر یوٹیوب دیکھتا رہا تھا۔ فیس بک پر پابندی لگانے سے بھی یہی ہو گا۔

ہماری قوم کا حال تو وہ ہے کہ اگر اقبال آج زندہ ہوتے تو فرماتے

بلاکنگ تو لگا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے پراکسی سے جان چھڑا نہ سکا

پابندی کے اس طریقے پر چلنا ہے تو اس کا آخری حل یہی ہے کہ مکمل طور پر انٹنرنیٹ پر ہی پابندی لگا دی جائے تاکہ پراکسی بھی بند ہو جائیں۔ ورنہ پراکسی کو تو چین کی سخت ترین حکومت بھی نہیں روک پائی ہے۔ لیکن کیا ہم انٹرنیٹ بند ہونے کی قیمت سے آگاہ ہیں؟ آج کل علم، صنعت و تجارت، باہمی روابط غرض ہر شے انٹرنیٹ کی محتاج ہے۔

یا پھر دوسرا حل یہ ہے کہ منظم انداز میں گستاخانہ فیس بک پیجز کو رپورٹ کیا جائے۔ ایک بڑی تعداد رپورٹ کرے تو فیس بک ایسے پیجز کو بند کر دیتی ہے۔ اس معاملے کو قانون حل نہیں کر سکتا ہے، عوام ہی حل کر سکتے ہیں۔ لیکن محض موجودہ پیجز کو رپورٹ کر کے بند کر دینا بھی کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ ایک نیا پیج بنانے میں پانچ منٹ لگتے ہیں۔ عوام کی جانب سے منظم انداز میں مسلسل رپورٹ کر کے ہی اس مذموم اور کریہہ مہم کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar