ساکھ برباد کرتا بریکنگ نیوز کلچر


2009/10 میں کراچی لسانی فسادات کی زد میں تھا پیپلزپارٹی ایم کیو ایم اور اے این پی اقتدار میں شامل تھیں اور تینوں جماعتوں کے دھشتگرد دھڑے بے دریغ انسانوں کی کٹائی کر رہے تھے۔ شناختی کارڈ رنگ نسل اور زبان کی بنیاد پہ قتل عام جاری تھا قومی سلامتی کے تمام ادارے ستو پی کر آرام کر رہے تھے، عوامی نیشنل پارٹی میری بیٹ تھی تو اس وجہ سے شاہ جی یعنی شاہی سید صیب سے مستقل رابطہ رہتا۔ ولی بابر کا قتل ہو چکا تھا ہم دونوں ہی اے این پی کور کیا کرتے تھے۔ اس قتل کے بعد میں بہت دل گرفتہ تھا۔ اسی شب میں فون پہ شاہ جی سے گفتگو کر رہا تھا کہ انہوں نے مجھے ہولڈ کراتے ہوئے کہا کہ بشیر جان کا فون ہے ایک منٹ رکو یہ کہہ کر وہ دوسرے موبائل پہ مصروف ہو گئے لیکن میں ان کی بات چیت سنتا رہا، شاہ جی کے جوابات سے اندازہ ہوا کہ معاملہ کچھ خطرناک ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ کہاں؟ کیسے؟ کب؟ اب کیا حالت ہے؟ کہاں جارہے ہو؟ فوراً اسپتال پہنچو۔

میں سمجھ گیا کہ لمبی گڑ بڑ ہوچکی، شاہ جی جیسے ہی وہاں سے فارغ ہوئے مجھے کہا کہ ” بشیر جان پر حملہ ہوگیا ہے اور وہ شدید زخمی ہے ” یہ کہہ کر انہوں نے لائن کاٹ دی۔ یہ ان دنوں کے مخصوص حالات کے پیش نظر بہت بڑی خبر تھی، اگلے چند لمحوں میں یہ اسٹوری اپنے ادارے میں لکھوا چکا تھا۔ مجھ سے ڈائریکٹر نیوز سے ایک بار پوچھا کہ خبر درست ہے؟ میں نے جواب دیا سورس بہت پکی ہے۔ بریکنگ نیوز چل چکی میرا بیپر ہوگیا تھا اور ہلچل مچ گئی اس دوران پندرہ منٹ گذر گئے اے آر وائی کے سوا کسی چینل پہ یہ خبر نہیں تھی یہاں تک کہ خود مجھے خوف محسوس ہوا کہ کہیں میں الیکٹرانک میڈیا کی اصطلاح میں ” بھنڈ ” تو نہیں کر بیٹھا؟ اسی دوران دوبارہ ڈیسک انچارج کی کال آئی کہ یار ہم نے سب کو ” بڑا آلو ” دیدیا ہے اب یہ چیک کرو کہ بشیر جان زندہ ہے یا مردہ؟ اس مختصر عرصے میں اے این پی کے تب کے ترجمان قادر افغان مختلف چینلز کو اطلاع دے چکے تھے۔ مجھے دفتر سے بار بار کالز آرہی تھیں کہ بشیر جان کے زخمی ہونے کی خبر تم نے دی ہے اب جلدی سے مرنے کی بھی دو، میں نے دباؤ برداشت کرتے ہوئے کہا کہ زخمی بشیر جان زندہ رہ سکتا ہے لیکن اگر میں نے خبر کے چکر میں مار دیا اور وہ زندہ رہ گئے تو میں کہاں جاؤں گا؟ اتنی دیر میں ایک بڑا چینل یہ خبر چلا چکا کہ بشیر جان جان کی بازی ہار گئے۔ خبر چلنے کی دیر تھی مجھے دفتر والوں نے تُن کے رکھ دیا کہ ہم بھی چلا رہے ہیں بس تم تصدیقی بیپر دیدو۔ میں نے معذرت کی کہ کیونکہ زخمی ہونے کی ہی اطلاع میرے پاس تھی خوش قسمتی سے بشیر جان شدید زخمی تو رہے لیکن شہید ہونے سے محفوظ رہے اور یوں میڈیا کی خواہش پہ پانی پھر گیا، اس کے بعد جب میں نے ڈیسک انچارج کو فون لگایا تو شرمندگی سے بولے یار آج تم نے کمال کردیا ورنہ مارے گئے تھے۔

جسٹس سجاد علی شاہ کے انتقال کی ایک دن پہلے بریکنگ نیوز چلنے پہ یہ ساری کہانی دل و دماغ میں گھوم گئی۔

بشیر جان والی اسٹوری سے پہلے میرے ساتھ ایک بڑا ہاتھ ہوچکا تھا جبھی میں نے احتیاط کی۔ ہوا یوں کہ اسوقت ہمارے بیورو چیف رشید چنا صیب جو کہ آجکل سندھ بیوروکریسی کا حصہ ہیں، نے مجھے بلاکر کہا کہ یار ایاز سومرو جو کہ ان دنوں صوبائی وزیر قانون تھے سے خبر ملی ہے کہ رحمان ملک کے نیب عدالت نے وارنٹ نکال دیے ہیں، اس خبر کو چیک کرو۔ مجھے تو تصدیق ہے کہ اسٹوری ٹھیک ہے۔ رحمان ملک اس دوران وزیر داخلہ تھے اور ان کے بڑے ہی چرچے تھے اس مناسبت سے خبر یہ بھی بہت بڑی تھی میں نے صرف ایک جگہ سے تصدیق کی جس نے مجھے گرین سگنل دیا۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور خبر چلا دی۔ اگلے چند منٹس میں صرف ایک چینل کے سوا تمام بڑے چھوٹے چینلز اس بریکنگ نیوز کو چلا چکے تھے، اسی وقفے میں عدالتی رپوٹرز نیب کورٹ پہنچ گئے اور وہاں جاکر اندازہ ہوا کہ خبر ٹھیک نہیں۔ اندرونی ذرائع کہتے تھے کہ وارنٹ جاری ہونے تھے لیکن خبر پہلے چلنے کے سبب دباؤ اتنا آیا کہ وارنٹ روک لئے گئے جبکہ ایک ذریعہ کا دعوی تھا کہ مقصد رحمان ملک کو ذلیل کرانا تھا جو ہم جیسے رپورٹروں کی وجہ سے آسانی سے ہوگیا۔ جج سے جب ہم ملے تو انہوں صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ کوئی وارنٹ شارنٹ نہیں تھے آپ سب نے غلط خبر دی، بہرحال جو بھی تھا ہم استعمال ہوچکے تھے۔ اچھی خبر یہ تھی کہ سب ہی چینلز نے اس غلط اسٹوری کی گنگا میں ہاتھ دھوئے تھے لہذا میں اسی طرح مطمئن رہا جیسا کہ ہم محلے بھر کی بتی جانے پہ سکھ کا سانس لیتے ہیں۔

ایسا نہیں کہ غلطیاں نہیں ہوتیں بالکل ہوتی ہیں لیکن کسی کے انتقال کی خبر کی بابت اگر اتنا صبر کرلیا جائے کہ جب تک اسپتال یا خاندان کا کوئی فرد اطلاع نہ دے خبرنہیں دے جائے گی تو بہتر رہے گا ورنہ وقت سے پہلے صحافی عزرائیل بننے کی ناکام کوشش میں اپنی عزت افزائی کراتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).