انصار عباسی صاحب نے عورتوں کے حقوق پر لکھا ہے


انصار عباسی صاحب نے عورتوں کے حقوق پر لکھا ہے۔ ایک غریب خاتون اغوا ہو گئی اور شاید کئی ہاتھوں میں بکتی ہوئی افغانستان پہنچا دی گئی۔ یقینا بہت بڑا ظلم ہے۔ میں عباسی صاحب کے ساتھ سو فیصد اتفاق کرتا ہوں۔ اس سےبڑا ظلم کیا ہو گا کہ عورتوں کی خرید و فروخت ہو۔ اس ظلم کو روکنے کے لئے حکومت سمیت سب کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور سخت ترین ایکشن لینا چاہیے۔ تاکہ یہ خاتون جلد اپنے پیاروں کے پاس واپس آ سکے۔ اور یہ جرم کرنے والوں کو ایسی سزا ملنی چاہیے تاکہ باقیوں کو سبق حاصل ہو۔

ایک اور عرض یہ ہے کہ یہیں رکنا نہیں چاہیے، بلکہ اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ آئندہ کوئی عورت اغوا نہ ہو اور کوئی عورت نہ بکے۔ اس کے لئے ہمیں جو بھی کرنا پڑے کر گذرنا چاہیے۔

اگر ہم تھوڑا سا تجزیہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ پاکستان میں ہزاروں عورتیں اور بچیاں ہر روز فروخت ہوتی ہیں اور مزید بدقسمتی یہ ہے کہ ان کے فروخت کرنے والے ان کے اغوا کرنے والے نہیں بلکہ ان کے والد اور بھائی ہوتے ہیں۔ یہ نہ جانے ہمیں کیوں نظر نہیں آتا۔ ہمیں شادی کے نام پر عورتوں کی اس خرید و فرخت کی بھی سخت مخالفت کرنی چاہیے۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ جب تک عورتوں اور بچیوں کی اپنے گھر والوں کے ہاتھوں شادی کے نام پر خرید و فروخت بند نہیں ہو گی تب تک دوسروں کے ہاتھوں بھی ظلم کا یہ کاروبار جاری رہے گا۔ مجھے یقین ہے جناب انصار عباسی صاحب آپ ان رسومات کے خلاف بھی ضرور لکھیں گے۔ اور جو لوگ ایسی فرسودہ روایات کو ختم کرنے کے لئے کوششیں کرتے ہیں ان کی ساتھ تعاون کریںگے تاکہ عورتوں کے ہونے والے اس غیر انسانی سلوک کا خاتم ہو سکے۔

عورتوں کے خلاف یہ غیر انسانی سلوک اس وقت تک ختم نہیں ہو گا جب تک ہم عورتوں کو مردوں کے برابر کا انسانی درجہ نہیں دیں گے۔

ہماری اسی دنیا میں کچھ معاشرے ایسے ہیں جہاں اب عورتوں کی خرید و فروخت نہیں ہوتی۔ وہ معاشرے وہی ہیں جہاں عورت کو بحیثیت انسان برابری کا درجہ دیا گیا ہے۔ ان معاشروں میں کسی کو یہ گردان کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ بحیثیت ماں، بہن، بیوی اور بیٹی عورت کے کیا درجات ہیں کیونکہ بحیثیت انسان اس کی حیثیت مرد کے برابر ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ وہ معاشرے ایران اور سعودی عرب نہیں ہیں۔

عورتوں کو ایک برابری کے انسان درجہ ملے گا تو پھر انہیں مردوں سے منہ چھپانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ کیونکہ انسانوں کو انسانوں سے منہ چھپائے پھرنےکی کوئی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ للچائی ہوئی نظروں کی ذمہ داری اس کی ہو گی جس کی وہ ہیں نہ اس کی جس کو وہ چیر رہی ہیں۔ سزا دیں اور اصلاح بھی کریں لیکن اس کی جس نے جرم کیا ہے نہ کہ جس کے خلاف جرم ہوا ہے۔

جب عورت برابری کی انسان ہو گی تو اس کی پیدائش پر کوئی روئے گا نہیں۔ اس کی پرورش ایسے ہو گی تاکہ وہ اپنی دیکھ بھال اور حفاظت خود کر سکے نہ کہ اس کو دیکھ بھال اور حفاظت کے لئے کسی دوسرے کی ضرورت ہو، بالکل ایسے ہی جیسے مرد اپنی دیکھ بھال اور حفاظت خود کر سکتا ہے۔

عورت جب برابری کی انسان ہو گی تو اسے اپنی زندگی کے اہم فیصلے کرنے کا حق ہو گا، بالکل ایسے ہی جیسے مرد کو یہ حق حاصل ہے۔ تعلیم، صحت، روزگار، شادی اور خاندان جیسے اپنی زندگی کے اہم فیصلوں کے لئے وہ کسی کی محتاج نہیں ہو گی۔ اپنی ہی شادی پر صرف زبردستی اس کا سر ہلا دینا کافی نہ ہو گا۔ اس کی شادی کے بدلے اس کے باپ یا بھائیوں کو رقم بٹورنے کا حق نہیں ہو گا۔ اس کو جہیز کی ضرورت نہیں ہو بلکہ اسے اپنی خاندانی وراثت سے حصہ ملے گا۔ وہ کسی کی غیرت یا پراپرٹی نہیں ہو گی۔ اس کے کسی ذاتی عمل سے کسی کی ناک نہیں کٹ جائے گی۔ کیونکہ وہ اپنے اعمال کی خود ذمہ دار ہو گی۔ برابری کا انسان ہونے کا مطلب تو یہی نکلتا ہے۔

وہ بچے پیدا کرنے کی مشین نہیں ہو گی بلکہ اس کا رحم (بچہ دانی) اس کی اپنی ملکیت ہو گا۔ اسے اپنی جنسی صحت کے علاج کے لئے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہو گی۔

جناب انصار عباسی صاحب جس دن آپ اس بات کے قائل ہو جائیں گے کہ عورت کے بنیادی انسانی حقوق، بغیر کسی شرط کے، مرد کے برابر ہیں اور اس بات کا پرچار کریں گے اس دن سے عورتوں کی زندگیوں میں انقلاب آ جائے گا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ عورتوں کےجسم اور روح محفوظ ہوں تو اس کے علاوہ چارہ نہیں کہ عورت کو برابری کا انسان ہونے کا مقام واپس کیا جائے۔ آج آٹھ مارچ ہے چلو اس کا آغاز آج ہی سے کرتے ہیں۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik