مکمل انسانی سماج کا ’آدھا انسان ‘


مجھے ذاتی طور پر نہ اس چیز سے کوئی اتفاق ہے کہ عورتوں کا ’معذوروں‘ کی طرح کوئی عالمی دن منایا جائے اور نہ ہی اس تصور کو درست سمجھتا ہوں کہ عورتوں کو ’حقوق ‘دینے کا کسی سے مطالبہ کیا جائے۔ بحیثیت انسان عورت کو وہ حقوق فطری طور پر ہی حاصل ہیں جو مرد کوحاصل ہیں ان حقوق کے ثبوت کیلئے کسی دلیل اور مطالبے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دلیل کا مطالبہ ان سے کرنا بنتا ہے جو عورت کو ان فطری حقوق سے محروم کر کے اسے سلب کرنا چاہتے ہیں مگر معلوم انسانی تاریخ اور استحصال کے اس تاریخی تسلسل میں آج تک کوئی ایسا عقلی اور علمی قضیہ مرتب نہیں کیا جا سکا جس سے ’نصف بہتر‘ کو عملاً ’ صنف ابتر‘ سمجھنے کی انسانوں کے اس غیر انسانی رویئے کو کوئی دلیل اور فطری بنیاد میسر آ سکے ۔

انسانی آبادی کے آدھے حصے کو آدھا انسان سمجھنے کا تصور نیا ہرگز نہیں ہے ۔مردوں کیلئے ہمیشہ سے ہی عورت کی حیثیت لذت کشی کی ایک آلے اور بچے پیدا کرنے والی ایک مشین سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں رہی ہے۔ مرد وعورت کی جسمانی ساخت کے فرق کے دائرے کو ہمیشہ سے ہی عقل، معاشرتی حیثیت اور اجتماعی زندگی کے کردار کے تعین تک بڑھایا جاتا رہا ہے مگر اس بات کی کوئی دلیل آج تک مہیا نہیں کی گئی کہ اگر جسمانی تشکیل کا اختلاف ہی مرد وعورت میں سے کسی ایک کی دوسرے پر فضیلت کا جواز فراہم کرتا ہے تو مرد کی جسمانی خصوصیات کو عورت کی جسمانی ساخت پر فضیلت کی فطری دلیل کیا ہے؟ اور اگر اس بنیاد پر ’تفریق‘ اور اونچ نیچ کا کوئی جواز ہے بھی تو عورت کو کمتر اور مرد کو برتر سمجھنے کی بجائے اس کے برعکس کیوں نہیں سوچا جا سکتا؟ عورت کو صنف نازک سمجھنا اور پھر اسے اسی خصوصیت پر قائم رکھنا عورت کی فطرت کا نہیں بلکہ مرد کی جنسی ہوس کا تقاضا ہے ورنہ یہ حقیقت تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ زرعی سماج میں آج بھی اور تاریخی طور پر بھی عورت مرد سے زیادہ بوجھ اٹھاتی رہی ہے جس کا مطلب ہے کہ عورت جسمانی لحاظ سے نزاکت کے بجائے اس ’ کرختگی‘ کی بھی بھرپور قابلیت رکھتی ہے جس کو مرد اپنا امتیازی شعار اور جداگانہ فطری خصوصیت سمجھتا  آ رہا ہے۔

اسی لئے عورت کی علمی، معاشی، قانونی اور معاشرتی استحصال کی اساس ہمیشہ سے ان نام نہاد معاشرتی ’اقدار‘ سے تلاش اور پیش کی جاتی رہی ہیں جن اقدار کا اپنا وجود بھی کسی عقلی مسلمے کی حیثیت نہیں رکھتا اور جن کا اپنا جواز خودہی تشنہ وضاحت ہوتا ہے۔ وہ نام نہاد اقدار جن کا خود سماج سے تضاد ہوتا ہے ایک زمانے سے دوسرے زمانے میں تبدیل اور متغیر ہوتے رہتے ہیں اور جو انسانیت کی مادی ترقی کے سامنے خس وخا شاک کی طرح بہہ جاتے ہیں مگر تغیر کے ان تمام مرحلوں سے جبری یا اختیاری طور پر گزرنے کے باوجود یہ اقدار عورت کو محکوم رکھنے کی ضد پر بدستور اڑے ہوئے ہیں اور عورت سے متعلق ان کا ضابطہ ناقابل ترمیم اور اٹل ہے۔ یہ ضابطے عورت کیلئے صرف استعماریت کی ہی روادار نہیں بلکہ استعماریت کے اس تسلسل کو جواز بخشنے کیلئے ’استحماریت‘ بھی اس کی ایک کی ناگزیر ضرورت بن جاتی ہے۔ ’حمار‘ عربی لغت میں گدھے کو کہا جاتا ہے اور یہاں استحما ریت سے میری مراد اس کے دو مفاہیم ہیں پہلا مفہوم یہ کہ عورت کو صرف بوجھ لادنے کیلئے گدھے جیسی چیز سمجھنا اور دوم یہ کہ اپنی اصل اور فطری حیثیت اور مقام کے احساس اور پھر اس مقام اور حیثیت کو حاصل کرنے سے انہیں دور رکھنے کیلئے گدھوں کی طرح ان کا علم اور شعور سے ہر رابطہ کاٹ کر کے رکھنا ۔

ورنہ مسئلہ اگر واقعی ’ اقدار‘ اور اس سے وابستہ عزت اور غیرت کے تصورات کا ہے تو پھر یہ سوال تو بنتا ہے کہ مرد کی غیرت اور عزت کا تعلق مرد کے اپنے کردار سے زیادہ اس سے متعلق (در حقیقت ماتحت )عورتوں کے کردار سے کیوں ہوتاہے ؟ غیرت کے ’شملے ‘ کی سر بلندی کا انحصار مرد کی اپنی نہیں بلکہ عورت کی شلوار پر زیادہ کیوں ہوتا ہے۔جس معاشرے میں ہر سال سینکڑوں عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہو جاتی ہوں اسی معاشرے میں ان مردوں کا تناسب معلوم کرنے کی ضرورت کیوں پیش نہیں آتی جو غیرت کے نام پر قتل کر دیے جانے کے لاثق ہیں؟

عفت وعصمت یقینا لائق تکریم ہے اور اس میں خیانت کا ارتکاب جرم اور گناہ ہے لیکن یہ چیزیں احترام کا ایک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ احترام کا تقاضا بھی تو کر تی ہیں پھر یہ تو بتا یا جائے کہ اس میں خیانت کا ارتکاب اگر عورت کرے تو صرف وہ ہی قابل تعزیر کیوں ہوتی ہے اس سزا سے مرد کے استثنیٰ کی ’غیرت کے تصور‘ میں گنجائش کیسے اور کیوں نکالی جاتی ہے؟ آج تک کسی عورت کے ہاتھوں غیرت کے نام پر کسی مرد کے قتل کا کیس کیوں سامنے نہیں آیا ؟ اپنی عزت کے دفاع اورریپ سے بچنے کیلئے ایسے کچھ کیسز ضرور آئے ہوں گے جس میں مرد عورت کے ہاتھوں قتل ہوا ہو۔ میرا مطلب یہ نہیں بلکہ دوسرا ہے جب کسی غیر مرد سے اپنی عورت یا بہن بیٹی وغیرہ کا جنسی تعلق مرد کیلئے اس عورت کو قتل کرنے کا جواز فراہم کرتا ہے تو اسی طرح کسی غیر عورت سے اپنے خاوند یا بھائی اور بیٹے کے جنسی تعلق کو بھی بہن بیوی اور ماں کیلئے غیرت اور عزت کا اسی طرح مسئلہ تسلیم کر لینا چاہیے جیسا کہ عورت کی خیانت کی صورت میں یہ مرد کیلئے عزت اور غیرت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔

شاید اسی امتیازی معیار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر علی شریعتی نے ایک موقع پر کہاتھا کہ’ بدقسمتی سے میں ایک ایسے معاشرے کاحصہ ہوں جہاں انسانی آبادی کا نصف حصہ اس جنس (عورتوں) پر مشتمل ہے جو کبھی اگر کوئی گناہ کریں تو اس گناہ کا داغ دھونے کیلئے داڑھی نہیں رکھ سکتیں‘۔

ہماری مذہبی روایت میں زمانہ قبل از اسلام میں بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کا تذکرہ بھی ملتا ہے ۔یہ ایک کلیہ اور عمومی رویہ تو نہیں تھا۔ اس کے بعد مذہب نے عورت کو جو حقوق اور مقام دیا اس کی تفصیلات پیش کرنا بھی اس وقت میرے مدنظر نہیں ہے لیکن مذہبی گھرانوں میں ’زندہ دفن‘ کرنے کی اس جاہلانہ رسم کو عملًا کیا ’زندہ دفع‘ کر نے میں تبدیل نہیں کیا گیا ہے؟ جس کا طریقہ یہ ہے کہ عورت کی ہرقسم کی تعلیم ، سماجی کردار اور پھر اسی بنیاد پر اس کیلئے کسی بھی سماجی حیثیت کا ا نکار کر دیا جائے یہ بات آج بھی درست ہے کہ مذہب کی ایک خاص فہم رکھنے والے خالص مذہبی گھرانوں میں عورت آج بھی قبر میں ہی ہوتی ہے اور مزید ظلم یہ کہ قبر میں زندہ ہوتی ہے اور باہر نہیں نکل سکتی۔ بس قبر تھوڑی کشادہ ہوتی ہے۔ ایسے مذہبی گھرانوں میں عورت کا گھر ہی اس کیلئے ایک قبر ہوتی ہے۔ اور یہ اس سے بھی بڑا ظلم ہے جو اسلام سے پہلے بیٹیوں پر کیا جاتا تھا کیونکہ وہ بیٹی قبر میں دفن ہونے کے چند منٹ بعد مر جاتی ہو گی مگر یہاں بیٹی اور عورت کو قبر میں پوری زندگی گزارنی پڑتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).