ملتان میں حساس ادارے کے اہلکار کا قتل اور داعش کی موجودگی


2013ء کے عام انتخابات سے چند روز قبل ملتان میں الیکشن مہم کے دوران جب سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کو اغوا کیا گیا اسوقت اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ بظاہر پرامن نظر آنے والے جنوبی پنجاب کے ان علاقوں میں ایسے دہشت گرد گروہ موجود ہیں جو عالمی دہشت گرد تنظیموں القاعدہ اور افغان طالبان سے رابطہ میں ہیں۔ شروع شروع میں پولیس اور دوسرے تحقیقاتی اداروں نے تفتیش کا دائرہ کار صرف گیلانی خاندان کے سیاسی مخالفین اوراغوا، چوری، ڈکیتی میں ملوث جرائم پیشہ گروہوں تک ہی محدود رکھا۔ کافی عرصے کے بعد خفیہ اداروں نے اطلاع دی کہ اغوا کاروں نے علی حیدر گیلانی کو وزیرستان کے راستے افغانستان منتقل کر دیا ہے لیکن اس وقت تک بھی ملتان کے عام لوگ اس بات پریقین کرنے کو تیار نہیں تھے۔ افغانستان سے علی حیدر گیلانی کی فون کال اور بعد میں امریکی فورسز کے افغانستان میں آپریشن کے دوران بازیابی کے بعد ان شکوک وشبہات کو مزید تقویت ملی کہ جنوبی پنجاب میں بہت سی کالعدم مذہبی تنظیمیں سرگرم ہیں جو افغانستان سمیت مختلف ممالک کی شدت پسند تنظیموں سے رابطے میں ہیں۔ گیلانی خاندان اس معاملے میں خوش قسمت ثابت ہوا۔ علی حیدر گیلانی بحفاظت گھر واپس پہنچ گئے لیکن ابھی تک یہ سوال عوام کے ذہنوں میں گردش کرتا ہے کہ دہشت گرد کس طرح دو صوبوں کی پولیس اور باقی سیکیورٹی اداروں کی نظروں سے اوجھل ہو کر تمام چیک پوسٹیں عبور کرنے میں کامیاب رہے،علی حیدر گیلانی کے اغوا سے تقریباَ ایک سال بعد 16 جون 2014 کو ملتان کے تھانہ قطب پورکی حدودمیں واقع گارڈن ٹاﺅن سے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے بھتیجے عمرمبین جیلانی کو جو کہ حساس ادارے کے انسدادِ دہشت گردی یونٹ کے انسپکٹرہیں اس وقت اغوا کیا گیا جب وہ صبح اپنی رہائش گاہ سے دفتر کے لیے نکلے۔ تین سال تک عمر مبین جیلانی کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ اغواکار کون تھے انہوں نے کس مقصد کے لیے اغوا کیا۔ گیلانی خاندان کو علی حیدر کی بازیابی کی خوشخبری ملی تو جیلانی خاندان بھی پرامید تھا کہ عمر مبین جیلانی کو بھی بہت جلد بازیاب کروا لیا جائے گا لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔

 گزشتہ دنوں ہفتے کے روز تین سال بعد اسی تھانہ قطب پور کی حدود میں پاکستان ٹیلی وژن سنٹر اور ملتان کاٹن ریسرچ سنٹر واقع پرانا شجاع آباد روڈ سے زنجیروں میں جکڑی گوانتا ناموبے کے قیدیوں کی وردی میں ملبوس ایک لاش ملی ہے جس پر ِیہ تحریر درج تھی ؛؛ داعش الباکستان انسپکٹرعمرمبین جیلانی اور ساتھ اغواکی تاریخ لکھی گئی تھی۔ عینی شاہدین کے مطابق ایک گاڑی کو لاش پھینک کر نا گ شاہ چوک کی طرف جاتے دیکھا گیا ہے بظاہر دہشت گردوں کی طرف سے دئیے گئے پیغام سے لگ رہا ہے کہ اس اغوا اور قتل کی ذمہ داری داعش نے قبول کر لی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا واقعی داعش کا پاکستان میں وجود ہے لیکن اگر وزیر قانون رانا ثناءاللہ صاحب کو سنا جائے جو فرماتے ہیں پنجاب میں دہشت گرد ہیں ہی نہیں۔ وہ ہر بار رینجرز کے اختیارات اور پنجاب میں کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ ہمارے اس فرض شناس افسر نے ملک کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ پوری قوم اس بہادر افسر کو سلام پیش کرتی ہے۔ لیکن عمر مبین جیلانی کی شہادت نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ ایک ہی تھانے کی حدود سے اغوا اور تین سال بعد اسی تھانے کی حدود میں قتل؟ کیا اغواکار اتنا عرصہ جنوبی پنجاب میں رہے؟ کیونکہ جس طرح آج کل پورے ملک میں سیکیورٹی ہائی الرٹ ہے ایک صوبے سے دوسرے صوبے تک پہنچنا آسان نہیں اگر دہشت گردوں نے صرف اپنی موجودگی کا پیغام ہی دینا تھا تو وہ یہ کام پاکستان کے کسی کونے میں بھی کر سکتے تھے انہوں نے دوبارہ اسی شہر اوراس تھانے کی حدود کا انتخاب کیوں کیا؟ کہیں ایسا تو نہیں دہشت گرد جنوبی پنجاب میں روپوش تھے، آخر ہمارے سیکیورٹی ادارے بازیابی میں ناکام کیوں رہے، اگر ہم پرانا شجاع آباد روڈ کی بات کریں جہاں پر ایک طرف ملتان کاٹن ریسرچ سنٹر اور دوسری طرف پاکستان ٹیلی وژن سنٹر۔ نواز شریف زرعی یونیورسٹی سمیت متعدد اہم ادارے ہیں، یہ علاقہ کوئی وانا وزیرستان نہیں جہاں دشوارگزار پہاڑی سلسلوں کی وجہ سے دہشت گردوں کے تعاقب میں دشواری ہو،آخر اس وقت وہاں کی پولیس کہاں تھی،عینی شاہدین کے مطابق دہشت گرد ناگ شاہ چوک کی طرف فرار ہوئے ہیں، ایک طرف یہ دہشت گرد ہیں جو کھلے عام وحشت کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں اور ذمہ داریاں قبول کررہے ہیں دوسری طرف ہمارے ہمارے پنجاب کے وزیر قانون صاحب اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ لوگوں کو یقین دلا سکیں کہ پنجاب میں دہشت گردوں کا وجود نہیں اور نہ ہی کسی قسم کے آپریشن کی ضرورت ہے رانا صاحب آپ کو تسلیم کرنا ہوگا کہ جنوبی پنجاب میں ضرورکوئی دہشت گردوں کا ایسا نیٹ ورک موجودہے جو عالمی دہشت گرد تنظیموں داعش، القاعدہ، اور افغان طالبان کے لیے کام کر رہا ہے۔ ہمارے سیکورٹی اداروں کو داعش کے خطرے کو سامنے رکھتے ہوئے تفتیش کا دائرہ کار بڑھانا ہو گا۔ پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن کی وجہ سے دہشت گردوں کے نشانہ پر ضرور ہے لیکن کہیں علی حیدرگیلانی اور عمرمبین جیلانی کو ان کے مسلک کی وجہ سے تو نشانہ نہیں بنایا گیا کیونکہ داعش مختلف ممالک میں مزارات اور ان سے وابستہ روحانی شخصیات کونشانہ بنا چکی ہے ان واقعات کی ذمہ داری بھی داعش قبول کررہی ہے پاکستان میں بہت سی ایسی کالعدم مذہبی تنظیمیں موجود ہیں جو داعش کے نام نہاد خلیفہ ابوبکرالبغدادی کی آئیڈیالوجی سے متاثر ہیں حالیہ مزارات پر ہونے والے حملوں کے بعد پاکستان میں داعش کی موجودگی کے امکانات اور بڑھ گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).