ہمارے سیاسی کارکن


کسی معاشرے کا قیمتی ترین سرمایہ اس کے اہل دانش، فنکار اور سیاسی کارکن ہوتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی رہنماﺅں کی کمی نہیں اور نہ انہیں تشہیر کی ضرورت ہے۔ سو آج ذکر سیاسی کارکنوں کا ہو گا کہ ایں شکستہ بہایاں متاع قافلہ اند۔

پاکستان میں کچھ سیاسی کارکن بڑی اور کامیاب سیاسی جماعتوں کا حصہ بنتے ہیں اور کچھ چھوٹی چھوٹی گمنام اور مستقل حزب اختلاف میں رہنے والی سیاسی جماعتوں کے کارکن ہوتے ہیں۔ تاہم یہ طے ہے کہ سیاسی جماعت اقتدار میں آنے کا امکان رکھتی ہو یا نہیں، روٹی کپڑے اور حقوق کے خواب بیچتی ہو یا مذہب کی ریڑھی لگاتی ہو، سیاسی کارکن کی بنیادی پہچان یہی ہے کہ اگر نظریاتی وابستگی رکھتا ہے تو عمر بھر کارکن ہی رہے گا۔ سیاسی جماعت دائیں بازو سے تعلق رکھتی ہو یا بائیں بازو سے، قیادت کے لیے اصول پسند کارکنوں کی بجائے ان بزرجمہروں کو ترجیح دیتی ہے جو موجودہ موقف کے عین برعکس موقف اختیار کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں اور پھر نو دریافت نقطہ نظر کا زوردار فکری دفاع کرنے کا ملکہ بھی موجود ہو۔ جماعت اسلامی کے نواز منہاس مرحوم ہوں یا کمیونسٹ پارٹی کے میاں نظام مرحوم، عبیداللہ سندھی کے مقلد مولانا عبدالعزیز مرحوم ہوں یا سرخ پوش تحریک کے سفید پوش جانثار، صف نعلین سے آگے نہیں جا سکتے کیونکہ مجلس ِ رہبراں اہل ہوس سے کبھی خالی نہیں ہوتی۔

قیادت کے درجے کو پہنچنے کا بنیادی معیار اصولوں کی بجائے لیڈر کی ذات سے شیفتگی ہے۔ عاشق بٹالوی کہا کرتے تھے کہ پاکستان بنتے ہی انگریز کے جملہ پائیدان مسلم لیگی ہو گئے۔ کنونشن لیگ کے دفتر میں فون کی گھنٹی بجتی تو مرحوم حنیف رامے چونگا اٹھا کر فرماتے، ”صدر ایوب زندہ باد۔ جی فرمائیے…“ حنیف رامے ہی پر کیا موقوف، ایوب خان اپنے خوشامدیوں کے جذبہ  فراواں کے اعتبار سے خوش قسمت تھے۔ کالا باغ اور منعم خاں، قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر، ذوالفقار بخاری اور حفیظ جالندھری۔ بھٹو صاحب کو قبول عام ملا تو ہر قصبے کا چھٹا ہوا بدقماش اور پولیس کا ریکارڈ یافتہ پیپلز پارٹی سے تعلق کا دعویدار قرار پایا بلکہ حقیقی کارکنوں سے دو جوتے آگے بڑھ کر چیئرمین ماﺅ کے افکار کا دم بھرتا نظر آیا۔ ضیاالحق نے چشم ِ ناز نیم وا کر کے مذہب کا ناقوس بجایا تو پارسائی، پرہیز گاری نیز حبِ اسلام کا ایسا ایسا نمونہ کفن پھاڑ کر برآمد ہوا کہ فیض صاحب پکار اٹھے :

دلداری واعظ کو ہمیں باقی ہیں ورنہ

اس شہر میں ہر رند خرابات ولی ہے

میاں نواز شریف کا عہد آتے آتے سیاست میں قبضہ گروپ بھی چلے آئے تھے۔ سو انہیں بھی کسی شہر میں ”ادنیٰ کارکنوں“ کی کمی نہیں رہی۔

سیاسی کارکن عام طور سے زندگی اور فکر میں اختلافی زاویہ رکھتے تھے۔ سیاسی حرکیات کے بارے میں ان کی بصیرت گہری اور واقعاتی علم تفصیلی ہوتا تھا۔ یہ کم عمری ہی میں کسی گھاگ سیاسی کارکن کے ہتھے چڑھ جاتے تھے۔ ان کی عمر تاثر پذیر اور رسمی تعلیم کم ہوتی تھی۔ گرگِ باراں دیدہ جذبے اور سلیقے سے چھانٹے ہوئے حقائق کا ایسا دوآتشہ پلاتا کہ ان کے آدرش زندگی بھر کے لیے پختہ اور معاشی امکانات تاریک ہوجاتے تھے۔ یہ قوم پرست، عقیدہ پرست یا طبقاتی سیاست کی چھاپ لے کر اٹھتے۔ ان کی لغت بدل جاتی۔ ان کے لباس میں سیاسی علامات چلی آتیں۔ کانگرس کے کارکن کھدر پہنتے تھے۔ سندھی قوم پرست پتلون اور شرٹ پر بھی اجرک اوڑھنا نہیں بھولتا تھا۔ کامریڈ سر پر ماﺅ کیپ رکھتا اور کمرے میں چے گویرا کی تصویر ٹانگتا تھا۔ بھٹو صاحب کے جیالوں کی قمیض کے کف کسی نے بند نہیں دیکھے۔

بساط سیاست کے ان نوواردوں کی تعلیم یا تو نامکمل رہتی یا یہ لشٹم پشٹم امتحان پاس کرتے۔ والدین ان سے نالاں اور احباب کو گویا ہنسی ٹھٹھول کا بہانہ ہاتھ آ جاتا۔ اخبار خریدنے کے پیسے نہ ہوتے تو یہ لوگ چائے خانوں میں بیٹھ کر دیر تک اخبار چاٹتے۔ ہر خبر پر خیال آرائی اور قیافہ پیمائی کرتے۔ ٹوٹی پھوٹی سواریوں میں سفر کر کے دور دراز کے جلسوں میں پہنچتے۔ بھوک پیاس سہتے۔ جلسے میں ان کی کامیابی کی معراج یہ ہوتی تھی کہ مہنگی گاڑی سے اترنے والے خوشبو میں بسے سیاسی رہنما نے انہیں نام لے کر پکارا۔ ان کے بستر پر تکیہ یا چارپائی میں ادوائن بھلے نہ ہو، ان کے پاس کتابوں کا ایک ذخیرہ ضرور ہوتا تھا جس میں ان کے ترجیحی نقطہ نظر کی کتابیں نمایاں مقام پاتیں۔ ایوب منیر کے حجرے میں مودودی صاحب کی ’تنقیحات ‘ اور عامر ریاض کے اوطاق میں ’ریاست اور انقلاب‘ نظر آتی۔ ادھوری تعلیم، روایت سے انحراف اور طاقتوروں کی مخالفت۔ ان کا روزگار مخدوش رہتا تھا۔ ان کی ازدواجی خوشی بچوں کے سیاسی نام رکھنے تک محدود ہوتی تھی۔ پنجابی اپنے بچوں کے نام پورس اور سچل رکھتا تھا، سندھی بچی کا نام ماروی ہو تو جان لیجیے کہ باپ رسول بخش پلیجو کا حلقہ بگوش تھا۔ پشتون قوم پرست بچوں کے نام خوشحال اور پلواشے رکھتے تھے۔

سیاسی کارکن جلسے اور جلوسوں کی جان ہوتے تھے۔ یہ پولیس کے ڈنڈے کھاتے، تھانوں میں تذلیل اٹھاتے اور جیلوں میں عقوبتیں جھیلتے تھے۔ ان کی قربانیوں کا حاصل اخبار کی ذیلی سرخی میں گرفتار کارکنوں کی تعداد ہوتی تھی، گاہے ڈیڑھ سو، گاہے دو ہزار۔ اخبار کی خبر میں باپ کا چہرہ نظر آتا اور نہ گھر پر بوڑھی ماں کی آنکھ میں جھلملاتے آنسو۔ للچائی ہوئی نظروں سے موسم کے پھل تکتے بچوں کا بھی ذکر نہیں ہوتا تھا ۔یہ لوگ کہیں مل بیٹھیں تو مختلف حکومتوں میں اپنی قید و بند کا ذکر یوں کرتے ہیں جیسے قصباتی عورتیں اپنی زچگیاں گنواتی ہیں۔

کہیں بھولے بھٹکے کوئی منصب ان کے ہاتھ آ جاتا تو کائیاں اور پیشہ ور رہنما انہیں اپنی کمزوری گردانتے تھے۔ انہیں معلوم ہوتا تھا کہ کارکن آدمی ہیں اور حجت کا نفسیاتی عارضہ لاحق ہے۔ کسی بھی ناانصافی پر تھیلا اٹھا کر گھر واپس چلے جائیں گے، حکومت کو خفت اٹھانا پڑے گی۔ سمجھ دار رہنما موقع ملتے ہی کارکنوں سے جان چھڑا لیتے تھے۔ کبھی ”اصل حکومت“ چلانے کے لیے ان کے سر پر ایک سخت گیر افسر بٹھا دیا جاتا تھا جو پس پردہ حقیقی فیصلے کرتا تھا۔

پاکستانی تاریخ میں سیاسی کارکنوں سے شفقت کرنے والوں میں سہروردی مرحوم کا نام بہت اوپر آتا ہے۔ بھٹو صاحب بھی کارکنوں کے بارے میں گرم جوشی کی شہرت رکھتے تھے مگر ان کا کچھ ٹھیک نہیں تھا۔ خوش ہوئے تو شیخ رشید کو گود میں بٹھا لیا، عبداللہ ملک کی ٹوپی اپنے سر پر رکھ لی۔ عتاب کی رو آئی تو سیاسی کارکن کو جراب کی طرح اتار پھینکا۔ بیسویں صدی ختم ہوتے ہوتے سیاسی کارکن نامی مخلوق بھی اس ملک سے اٹھ گئی۔ سیاست سے نظریاتی زاویہ غائب ہو گیا تو کارکنوں کو کون پوچھتا۔ اب سیاست میں دولت مند لیڈر ہوتے ہیں اور اپنی اپنی دف کے جرائم پیشہ گماشتے۔

اٹھ گیا ناوک فگن، مارے گا دل پہ تیر کون


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).