اہانتِ مذہب، سوشل میڈیا اور معزز جج صاحب کے آنسو


بیانات نہیں، ججوں کے فیصلے بولتے ہیں۔ چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری صاحب نے مگر ایک اور روایت ڈال دی۔ عدالت کے احاطے کو سیاست کا اکھاڑا بنا دیا۔ جج استفسار کیا کرتے تھے، اب برہم ہوجاتے ہیں۔ ریمارکس دیا کرتے تھے، اب آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔ ہم زود رنج لوگ ہیں۔ مزاج برہم ہو ں تو ہم کشش محسوس کرتے ہیں۔ آنکھیں اشکبار ہوں تو جان وتن فدا ہوجاتے ہیں۔ یہ ایسی بری بات بھی نہیں، مگر جج کا منصب اس طرح کے رویوں سے بہت بالا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ جج کے سینے میں بھی دل دھڑکتا ہے اور آنکھوں میں آنسو تیرتے ہیں۔ مگر دل کی دھڑکنیں سنانا اور آنکھ کا آنسو دکھانا منصب کی بے توقیری ہے۔ نبی اکرمؐ کا وہ فیصلہ یاد رکھنا چاہیے جو فاطمہ بنت قیس کو چوری کے باب میں سنایا تھا۔ فیصلہ سناتے دم آپ کا چہرہ سرخ اور دل پتھر تھا۔ مگر رات اس غم میں روتے گزاری کہ صبح ایک بچی کا ہاتھ کٹے گا۔ یہ آنسو جو رات بھر تھمنے کا نام نہیں لیتے تھے، فیصلہ سناتے دم پلکوں سے آگے کیوں نہیں بڑھے؟ حساس آنسو وہ ہے جو مجرم کے لیے بھی ٹپک پڑے ۔ بامعنی آنسو وہ ہے جو ترازو کے توازن کا لحاظ رکھ سکے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج محترم شوکت عزیز صدیقی صاحب نے فرمایا، توہین مذہب کا سلسلہ روکنے کے لیے اگر پورے سوشل میڈیا پر پابندی عائد کرنی پڑے تو عائد کردوں گا۔ ایک وزیرکے بیان کے طور پہ دیکھا جائے تو شہکار ہے۔ جج کی رائے کے طور پر دیکھا جائے توسمجھ سے باہر ہے۔ مگر یہ رائےبھی تو نہیں ہے۔ فقط جذبات کا اظہار ہے اور ہم جذبات کا احترام کرتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ نظام عدل میں قاضیوں کے جذبات کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ عدل گاہیں قانونی دستاویز کی نگہبان ہوتی ہیں۔ جج کا قلم اس دستاویز کا نمائندہ ہے۔ فیصلہ کتاب کے بیچ سے آئے گا اور ثبوت وشواہد کی بنیاد پر آئے گا۔ سوال یہ پیدا ہوگیا ہے کہ سوشل میڈیا کی مکمل بساط لپیٹنے کی بات کس بنیاد پر کہی گئی؟ کیا یہ معلوم کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے کہ فیس بک کے کن صفحات پر اہانت مذہب کا ارتکاب ہو رہا ہے؟ کیا ان لوگوں تک رسائی کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے جو فیس بک پر یہ صفحات چلا رہے ہیں؟ یا پاکستان میں سائبریاتی امور کا کوئی ایسا ماہر نہیں مل رہا جو ان صفحات کا گھیراو کرنے کے لیے اپنا ہنر آزما سکے؟ قانون موجود ہے، طریقہ کار موجود ہے۔ ماہرین موجود ہیں، ذرائع موجود ہیں۔ ایسے میں اگر مجرم تک رسائی نہیں ہو پا رہی تو یہ فیصلہ سنانے والے اداروں کی یا پھر فیصلہ نافذ کرنے والوں کی ناکامی ہے۔ قانون پر عمل درامد نہ ہوسکنے اور نہ کروا سکنے کا اعتراف کرنا چاہیے۔ اعتراف کا یہ انداز کسی صورت مناسب نہیں کہ سماجی ذرائع ابلاغ کا چراغ بیک جنبش قلم گل کرکے خبر تک رسائی، رابطہ کاری اور اظہار رائے جیسے بنیادی انسانی حقوق معطل کرنے کی بات کی جائے۔ معززجج صاحب نے سماجی ذرائع ابلاغ کے صارفین کو مخاطب کیا ہے جبکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کی توجہ کے مستحق تھے۔ یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا منصب ہے کہ وہ صارفین کے ساتھ معاملہ کریں اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے شرپسند عناصر کی کھوج لگائے۔ اس کھوج میں اگر تیکنیکی مسائل درپیش ہیں تو بے قصور صارفین اس کے ذمہ دار نہیں ہیں اور کوئی کوئی قانونی سقم اس راہ میں حائل ہے تواس کے ازالے کے لیے قانون ساز ادارہ موجود ہے۔ اگر موٹر سائیکل یا گاڑیوں پر وارداتیں ہو رہی ہیں اور مجرم تک رسائی نہیں ہو پا رہی توموٹرسائیکل اور کار کمپنیوں کو تالے لگا کر شہریوں کو سفر کی سہولیات سے محروم کرنے کی بات نہیں کی جا سکتی۔ دھماکہ خیز مواد پھاڑنے کے لیے اگر موبائل فون استعمال کیا جا رہا ہے اور ملوث افراد تک رسائی نہیں ہو پا رہی تو مسئلے کا حل یہ نہیں کہ موبائل کی سہولت چھین لی جائے۔ ہم اپنے دوستوں سے ضرور یہ کہنا چاہیں گے کہ آنسووں کی کوئی بھی مقدار اس قسم کے فیصلوں کے درست ہونے کا ثبوت نہیں ہو سکتی۔

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ سماجی ذرائع ابلاغ پر نامعلوم افراد اپنے شرپسندانہ مقاصد کے لیے کچھ صفحات چلا رہے ہیں۔ ان صفحات پر شائع ہونے والا مواد شہریوں کے مذہبی اور سیاسی جذبات کو مجروح کرنے کا سبب ہے۔ تمام مذاھب کی مقدس ہستیاں اپنے ایک پروٹوکول کی حامل ہیں۔ پروٹوکول کا لحاظ شرعی و قانونی ہی نہیں، اخلاقی تقاضا بھی ہے۔ شائستہ اخلاق کا خوگر گالم گفتار سے اپنے رویے کو آلودہ نہیں کرسکتا۔ یہ ناشائستگی کسی مذھب یا نظریے نے نہیں دی۔ یہ ہمارا معاشرتی المیہ ہے۔ منبر و محراب تک دشنام طراز واعظوں کے قبضہ قدرت میں ہے۔ ہمیں ابھی یہ سمجھنا ہے کہ حضرتِ انسان کی تذلیل جائز نہیں، خواہ اس کا تعلق ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم سے کیوں نہ ہو ۔ تذلیل نہ کرنے والا ملازم کی تذلیل بھی نہیں کرے گا۔ تذلیل کو گفتگو کی بنیاد سمجھنے والا فقط اپنی دستار پر ضابطے لاگو کرے گا۔ دوسروں کی دستارکو چھڑی کی نوک پر رکھے گا۔ سماجی ذرائع ابلاغ پر موجود ایسے تمام صفحات اور ان کے چلانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیئے جومحترم مذہبی اور سیاسی شخصیات کی کردار کشی میں ملوث ہیں۔ یہ جعلی صفحات چلانے والے عام افراد ہوں، سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیل ہوں، مذہبی جماعتوں کے ایجنٹ ہوں یا پھرابلاغیات کا سب سے طاقتور شعبہ رکھنے والا کوئی ریاستی ادارہ ہو۔ قانون پہ عمل درامد ہوسکتا ہے تو بسم اللہ۔ اگر نہیں، تو چند شرپسندوں کی سزا شہریوں اور صارفین کو دینا جرات و عقیدت یا نیک جذبات کے اظہارکی کوئی قابل فخر مثال نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).