گیٹ کریش سے آل کریش تک


غالبا 1990یا اس سے پچھلاسال، لاہور میں ہاکی کا ورلڈکپ ہورہاتھا، سائنس کالج وحدت روڑ کے ہاکی کوچ بڑے افسردہ دکھائی دیے، ہاتھ میں پکڑا اخبار دکھا کر بولے دو روز بعد فائنل ہے اور میرے طلبہ کو ہاکی اتنی ناپسند ہے کہ اب تک میچ دیکھنے ہی نہیں گئے۔ جی سی والے اتنی دور سے آکر کل میچ دیکھ بھی گئے، ہم پہلے ہی پلان کیے بیٹھے تھے کہ فائنل دیکھیں گے۔ چونکہ پردہ داری مقصود تھی اس لئے چھپا نے کی کوشش کی گئی مگر استاد محترم کو بھی اسی‘ زلف‘ کا اسیر پایا تو ’شریک جرم ’کرلیا، فائدہ ہی ہوا کہ مفید مشورے مل گئے۔ ، آخر وہ پرانے تجربہ کار تھے، مگر ساتھ چلنے سے گریزاں تھے کہ استاد کا یہ مقام نہیں۔ جمیعت کے ناظم کالج سے اپنے منصوبے کو خصوصیت کے ساتھ چھپانے کی کوشش تھی کہ نا معلوم مخالفت پر ہی نہ اتر آئیں مگر عین ہمارے آخری اجلاس میں آن ٹپکے۔ وہ بھی ‘میر کے طرفدار’ نکلے تو موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گاڑی کا مطالبہ رکھ دیا۔ اس وقت سائنس کالج کی بس نہیں ہوتی تھی اب شاید آگئی ہو ۔ انہوں نے وعدہ کرلیا اور اگلے روز ایف سی کالج کی بس ہمارے تصرف میں تھی، ناظم کالج اور کوچ صاحب اس شرط پر ساتھ تھے کہ آگے نہیں آئیں گے، انہیں ان کے نام سے بلایا جائے گا۔ ناظم صاحب یا سر جی کوئی نہیں کہے گا۔ اس کے بعد پھر وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے کہ سٹیڈیم سے پہلے ہی صبح سے آئے ہمارے ساتھیوں نے مخبری کردی (ان میں سے ایک تو اب بھی یہی کام کرتا ہے مگر سرکاری سطح پر تگڑی تنخواہ کے ساتھ) کہ کس گیٹ پر پولیس کی نفری کم ہے اور رش زیادہ اور کس گیٹ پر پولیس کو شک ہوگیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ منصوبے میں تھوڑی تبدیلی ہوئی اور کمزور پوائنٹ پر اچانک دباؤ بڑھا دیا گیا۔ روایتی طریقہ کے مطابق پہلے لائن توڑی گئی اور جب تک پولیس کو سمجھ آتی پیچھے سے ایک زور دار دھکا لگاکر گیٹ کریش کا نعرہ لگا دیا گیا۔ تھوڑی سی دھکم پیل ہوئی اور پولیس ایک طرف ہٹ گئی۔ طلبہ ہنستے، مسکراتے، نعرے لگاتے گراؤنڈ میں جاگھسے۔ اگلے دن سب اخباروں نے چھاپا سائنس کالج نے فائنل میں گیٹ کریش کردیا۔

گیٹ کریش اس دور میں لاہور کے طلبہ اپنا حق سمجھتے تھے، سٹیدیم آباد رہتے تھے، لاہوریوں کی وہ کہا وت کہ ’سات دن اور نو میلے گھر جاواں کیہڑے ویلے‘ (سات دن اور نو میلے، گھر کس وقت جاؤں) زندہ تھی۔ پولیس بھی اتنی بے گانی نہ تھی، اسے علم ہوتا تھا کالج بس آ کر رکی ہے تو اب گیٹ کریش بھی ہوگا، معمولی سی زور آزمائی ہوتی، اور طلبہ اندر داخل ہوجاتے۔ اب پیچھے مڑ کر دیکھیں تو لگتا ہے وہ بھی ہمارے انتظار میں ہی ہوتے تھے، پولیس اور انتظامیہ کے لئے بھی یہ شغل ہی تھا۔ کھیل کا حصہ کہہ لیں۔ مجال ہے جو پولیس تشدد کرے، یا طلبہ کوئی غیر ذمہ دارانہ حرکت کریں۔ پاکستان یہ فائنل ہار گیا تھا، مگر کسی نے کھلاڑیوں کو گالی نہیں دی، برا نہیں کہا۔ انہی گیٹ کریش والے طلبہ نے جیتنے والی غیر ملکی غالباً ہالینڈ کی ٹیم اور ہارنے والے پاکستانی کھلاڑیوں کو کندھوں پر اٹھالیا۔ شرٹس پرغیر ملکی کھلاڑیوں سے آٹو گراف لئے اور پیدل گھروں کو لوٹے کیونکہ بس ایف سی کالج والے واپس لے جاچکے تھے۔ برا ہو مشرف کے یو ٹرن اور کا کہ اب ایسی خوبصورت روایت کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا، ہمارے بچے جنہوں نے ہوش ہی اس صدی میں سنبھالا ہے وہ تو اس طرح کے ماحول کا اندازہ ہی نہیں کرسکتے، قصے کہانیاں ہی سمجھتے ہیں۔ پی ایس ایل کا جوش و خروش پژمردہ ازہان وقلوب کے لئے بہار کے اک جھونکے کی طرح محسوس ہوا، گو کہ گیٹ کریش جیسی شرارتیں اور غیر ملکی کھلاڑیوں کو کندھے پر اٹھانا تو دور کی بات پانی کی بوتل تک ساتھ لیجانے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن یھ چھوٹی باتیں ہیں، قوم خوش ہے کہ چلو میدان آباد تو ہوئے۔ پیپلیاں باجے نہ سہی تالیاں اور نعرے تو لگائے، کچھ ہلہ گلا، کچھ بے فکرے پن کا اظہار، امن کی خوشی۔ خوف سے نکلنے کا اک راستہ تو ملا۔

مگر یہ کرکٹ میلہ جہاں اتنی خوشیاں دے گیا وہیں کئی سوال بھی چھوڑ گیا کہ خود كو سپورٹس مین كھنے والوں كو بھی قوم كی خوشیاں برداشت كیوں نہیں؟ گیٹ کریش جیسی کھلنڈری روایات تو سیکیورٹی کی نذر ہوگئیں، دشمن کی درندگی کھاگئی۔ مگر عزم نوانا ہے، امید زندہ ہے، لڑنے اور اپنے حصے کی خوشیاں چھین لینے کا حوصلہ ہے، لاہور کا میچ اسی کا اظہار تھا اور کچھ نہیں۔ مگر کچھ اورروایات بھی تھیں، جو ہمارے معاشرہ کا حسن کہلاتی تھیں، ہماری معاشرتی زندگی کی انفرادیت تھی جیسے ملکی مفاد اور اجتماعی فیصلوں میں تمام تر اختلافات بھلا کر حکومت کا ساتھ دینا۔ اچھے انتظامات پر تالی بجا کر منتظم کو داد دینا، سیاست کو صر ف سیاسی میدان تک محدود رکھنا۔ وہ کیا ہوئیں؟ بھٹو 71 کی جنگ کے بعد شملہ جانے لگے تو ایئر پورٹ پر مولانا مودودی سمیت وہ ساری اپوزیشن رخصت کرنے کو موجود تھی جو بھٹو کو ہی اس تقسیم کا مجرم خیال کرتی تھی اور ایک اب ہے کہ صرف حکومت کو نیچا دکھانے اور بدنام کرنے کی خاطر ایک کبھی کرفیو کے طعنے، كبھی شام اور عراق سے تشبیہہ اور مسجدیں سیل کرنے جیسا جھوٹا پروپیگنڈہ۔ ۔ ہم گیٹ کریش کو روتے ہیں یہاں تو آل کریش کی کیفیت نکلی اور اب پھٹیچر کی پھبتی نے تو جناب کی ساری اخلاقیات کو ہی برہنہ کرکے رکھ دیا ہے؟ جانے دیں جناب قوم کو اتنا سا تو خوش ہونے کا حق دیدیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).