فاٹا، انضمام کے تضادات اور ابہامات


فاٹا، عجائبات عالم میں شامل کرنے کے قابل پاکستان کا وہ علاقہ ہے جو آئین پاکستان کی رو سے آئین پاکستان کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ یہاں انتظامیہ ایک مافیا کے طور پر کام کررہی جبکہ مقننہ اور عدلیہ جیسے اہم ریاستی اداروں کا وجود نہیں۔ مقامی باشندے عسکری بمباریوں اور طالبان کے خنجروں میں پھنسے تزویراتی نرسریوں کے لئے اپنا علاقہ وقف کرکے IDP‘s کیمپوں میں پڑے اور دم بخود کھڑے ان ساہوکاروں کو دیکھ رہے ہیں جو تعمیرات کے لئے مسماریاں، آبادکاریوں کے لئے نقل مکانیاں، افتتاحوں کے لئے دورے اور تقریرورں کے لئے سیمینارز منعقد کروا کرایک ایسی منڈی کا افتتاح کرچکے ہیں جس پر بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی کڑی نظر ہے۔

گزشتہ پندرہ سالوں سے فاٹا میں دہشتگردوں کے خلاف جاری آپریشنز کی کامیابیوں اور ناکامیوں سے قطع نظر اگر مقامی باشندوں کی مزاج پرسی کی جائے تو ناقابل بیان زیادتیاں ہوئیں ہیں مگر وطن عزیز کی خوش قسمتی کہ بغاوت کی چنگاریاں نہ پھوٹیں بلکہ آپریشن ضرب عضب کے بعد فاٹا کی یوتھ تنظیموں، سوشل میڈیا پر سرگرم عمل جوانوں، وکلاء اور طلباء تنظیموں نے مہذب طریقے سے فاٹا میں آئین پاکستان لاگو کرنے کی پرزور مہم چلائی۔ یہ مہم یا مطالبہ نہیں دراصل ریاست کے ضمیر کو جھنجوڑنے والا عمل تھا جو ریاست سے ریاستی خطے پر، ریاستی قانون نافذ کرنے کا مطالبہ کررہا تھا۔

مہم نے زور پکڑا، پریشر بنا، ایوانوں میں بات پہنچی اوروزیراعظم نے سرتاج عزیزصاحب کی قیادت میں ایک اعلی سطحی کمیٹی تشکیل دے دی۔ کمیٹی نے فاٹا کے دورے کیے اور سفارشات ملک کے اعلی ترین فورم یعنی پارلیمنٹ میں منظوری کے لئے پیش کردیں۔ مقابلے میں وہ اکائیاں سامنے آگئیں جن کے مفادات کو نقصان تھا، فاٹا سیکرٹیریٹ کی جانب سے اس معاملے پر انتہائی جانبدارانہ اورغیر آئینی مباحثے کا انعقاد کیا گیا، مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی نے اسمبلی کے فلور پرفاٹا پختونخواہ انضمام کی شدید مخالفت کی اور علیحدہ صوبے کا مطالبہ کیا۔ فاٹا کی یوتھ اور وکلاء تنظیموں نے علیحدہ صوبے کا تاخیری حربہ مسترد کرتے ہوئے علیحدہ صوبے کے لئے موجودہ دورمیں ریاستی مجبوریاں گنوائیں اور انضمام کی صورت فاٹا میں آئین پاکستان لاگو کرنے کا پرزور مطالبہ جاری رکھا۔ نتیجتاً ریاست نے انضمام کی صورت فاٹا پر آئین کو آئین کی عملداری میں دینے کی بجائے مفاداتی اکائیوں کے نکات سے کشید کردہ رواج ایکٹ نافذ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

ہمیں اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے کہ ایک خطے کی آئینی حیثیت تبدیل کرکے اداروں کو وسائل اور مسائل کے بیچ قانونی پٹڑی پر چڑھانا کوئی سہل اور قلیل وقتی کام نہیں مگر وطن عزیز کی کل آبادی کے ڈھائی فیصد علاقے یعنی فاٹا کو آئینی تحویل میں دینا اتنا بھی مشکل نہیں جتنا بنا دیا گیا ہے۔ رواج ایکٹ کی بابت کمیٹی کا فیصلہ افسر شاہی کی چالبازیوں سے مزین ابہامات کا ایک ایسا ملغوبہ ہے جس میں شدید نقائص سمیت آئین سازی، قانون سازی اور صوبائی اقتدار کے لئے کوئی واضح پلان نہیں۔

کابینہ فیصلہ دستاویز کی شق اول ’’فاٹا کو مرکزی دھارے میں لانے“ کا مژدہ تو سناتی ہے پر ساتھ ہی مذکورہ اقدام کو’’مختلف سٹیک ہولڈرز“ کے ساتھ مشاورت سے نتھی کرکے موخر کرنے کا رستہ دیتی ہے۔ جبکہ شق سوئم میں لکھا ہے:

FCR will be repealed and Replaced by new Rewaj Regulation for Tribal Areas۔ ۔ ۔ ۔

پہلے تو واضح نہیں کہ ریاست FCR کو ”منسوخ“ کررہی ہے یا رواج ایکٹ سے ”بدل“ رہی ہے؟ تاہم یہ دونوں متضاد اقدامات شق اول کے قومی دھارے سے متصادم ہیں۔ رواج ایکٹ یا اس سے ملتا جلتا نظام ریاست میں کہیں نافذ نہیں تو آپ کس طرح رواج ایکٹ لاگو کرکے فاٹا کو قومی دھارے میں لارہے ہیں؟ اور پھراس غیرمنطقی قومی دھارے کے لئے مشاورت بھی کریں گے؟ یہ کیا مذاق ہے؟

میرے نزدیک درجہ بالا ابہام اور تضاد واضح کیے بغیر کابینہ کا فیصلہ اپنی معنویت کھو دیتا ہے۔ تاہم آگے لکھا ہے:

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ which should be submitted to the President for approval under Article 247 of the Constitution۔

آئین کا آرٹیکل 247 صدر مملکت کو مختیار کل بنا کر پارلیمنٹ کو فاٹا کے حوالے سے قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا۔ فاٹا کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ ایکٹ کو بحث کے لئے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا جبکہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ رواج ایکٹ کو آرٹیکل 247 کے تحت صدر مملکت کو منظوری کے لئے پیش کیا جائے گا۔ دیکھتے ہیں ابہام کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟

کابینہ دستاویز کہتی ہے کہ FCR کی شق اجتماعی ذمہ داری کے تحت ہونے والی گرفتاریاں ختم کی جائیں گی۔ یہ درست ہے کہ فاٹا کے تجارتی مراکز، بازاروں اور گھروں کی مسماریاں اور بمباریاں اسی شق C۔21 کے تحت ہوئی ہیں مگر زمینی حقائق کے مطابق آج فاٹا میں صرف مذکورہ شق نہیں بلکہ پورے کا پورا FCR بدترین انداز میں لاگو ہے۔ کیا ریاست FCR سے مذکورہ شق نکال کررواج ایکٹ نام دینے سے ذمہ دارانہ اقدام کررہی ہے یا مجرمانہ؟ آثار واضح ہیں کہ مستقبل میں FCR، رواج ایکٹ کی شکل میں آئین پاکستان کے لئے ایک دوسرا متوازی نظام بن جائے گا، جوکہ مسئلے کا حل نہیں بلکہ بذات خود مسئلہ ہوگا۔

دستاویز کی شق چہارم کے مطابق فاٹا کے IDP‘s کی مکمل آباد کاری 30 اپریل 2017 تک ہوگی جبکہ ملکی مردم شماری 15 مارچ 2017 کو شروع ہونے والی ہے۔ عجیب منطق ہے کہ جزوی آباد فاٹا میں کلی طور پر مردم شماری ہوگی۔ کابینہ فیصلہ میں یا تو مکمل آباد کاری 15 مارچ سے پہلے ہونی چاہیے تھی یا پھر فاٹا کی مردم شماری علیحدہ سے مکمل آباد کاری کے بعد کی جاتی۔ مختصر یہ کہ آباد کاری اور مردم شماری دو ایسے مراحل ہیں کہ جن کی بناء فاٹا کی بحالی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا ناممکن ہے۔

شق نمبر08 کی رو سے فاٹا کے امور گریڈ 22 کا افسر چلائے گا، یہ اقدام فاٹا کو قومی دھارے میں لائے جانے کی نفی کرتا ہے کیونکہ جب صوبے کے لئے چیف سیکرٹری موجود ہے توانضمام کے بعد لفظ فاٹا اور فاٹا کے لئے الگ انتظامی افسر، چہ معنی دارد؟

شق نمبر 14 کی رو سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھانے کی بات تو کی گئی ہے مگر سول یا جوڈیشل مجسٹریٹ کی صورت عدلیہ کے بنیادی ڈھانچے کا ذکر نہیں۔
اگر فاٹا کو قومی دھارے میں لانا ہے تو لیویز اور خاصہ دار فورسز کو محکمہ پولیس میں تبدیل کرکے اختیارات کی تقسیم کا ذکر ہونا چاہیے تھا جبکہ دستاویز کی شق 15میں پولیس کی بجائے مزید لیویز اہلکاروں کی سفارش کی گئی ہے۔

فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کا عمل فاٹا سیکرٹریٹ اور سیفران کے ذریعے کرنا، نیز NFC ایوارڈ میں سے تین فیصد حصہ یعنی 120ارب روپیہ صوبائی اکاونٹ کی بجائے گورنر کے اکاونٹ اور اس فاٹا سیکرٹریٹ کے راستے دینا جو پہلے سے ہی بغیر آڈٹ کے غیر شفاف ترقیاتی فنڈز کا گڑھ ہے۔ مذکورہ اقدامات ایسے منطقی سقم ہیں جو ہمیشہ فاٹا کی بابت دستوری عمل میں رکاوٹ ہوں گے کیونکہ مذکورہ ادارے فاٹا کو قومی دھارے میں لاکر اپنے وجود کے خاتمے پر ہرگز دستخط نہ کریں گے۔

دستاویز کی شق نمبر 23 کے مطابق فاٹا کے طلباء کا صحت اور تعلیم کے میدانوں میں کوٹہ 10 سال کے لئے ڈبل کیا جائے گا جوکہ خوش آئند امر ہے مگر یہ اقدام انضمام پختونخواہ کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے اور انضمام تادم تحریر ابہام کا شکار ہے۔

رواج ایکٹ کو ایک سائیڈ پر رکھ کر ریاستی ترجیحات کو دیکھا جائے تو فاٹا کی تباہ معیشت کے لئےNFC یا فاٹا کے نام پر آئی عالمی امدادوں کی خطیر رقم میں مناسب حصہ یا خصوصی پیکیج دینے کا کوئی ذکر نہیں جس سے مقامی معیشت کو ہنگامی اور دیرپا بنیادوں پر سہارا دیا جا سکے۔ معدنیات اور وسائل پر مقامی آبادی کی آئینی رائیلٹی کے لئے کوئی قانون سازی نہیں ہوئی، چھوٹے دریاؤں پر پشتوں کی تعمیر اور زراعت کی ترقی کے لئے مقامی کسانوں کو بلاسود قرضوں کا کوئی ذکر نہیں۔ فاٹا اور افغانستان کی تجارتی راہداریوں کی گاہے بگاہے بندش کو ختم اور سڑکوں کی تعمیر و مرمت کر کے ٹیکس اور تجارت کے ذریعے ملکی اور مقامی معیشت کے سہارے کے لئے کوئی قانون سازی نہیں۔ فاٹا ایک طویل عرصے سے ٹیکس فری، بل فری، ایکسائیز ڈیوٹی فری گاڑیوں اور بغیر لائسنس اسلحے کا گڑھ رہا ہے۔ مقامی باشندوں کی اسلحے اور گاڑیوں میں خطیر سرمایہ موجود ہے، کابینہ دستاویز میں اسلحہ کے لئے لائسنس یا ریاست کو فروختگی کے علاوہ ایجنسی دستاویزات رکھنے والی نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو کسٹم ادا کرکے قانونی اجازت دینے کا کوئی ذکر نہیں۔

ابہام اور تضاد اتنا شدید ہے کہ FCR کے خلاف توانا آواز شہاب الدین خان صاحب پریس کانفرنس سے اٹھ کر چلے گئے جبکہ پولیٹیکل ایجنٹ کے بارے میں سوال پر سرتاج عزیز کیوں خاموش ہوگئے، یعنی حق مانگنے والا ناخوش ہے اور حق دینے کا اعلان کرنے والا کنفیوز!

ریاست کو یہ سمجھنا ہوگا کہ فاٹا کوئی تنظیم نہیں جس کو نام بدل کر کام کرنے دیا جائے بلکہ وطن عزیز کا ایک لہولہان خطہ ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ فاٹا کو خلوص نیت سے قومی دائرے میں لاکرخطے میں امن کی راہ ہموار کی جائے۔ دستاویز میں دو، تین شقیں مثبت اور خوش آئند ہیں اور بطور باشندگان فاٹا ہم ان سب اقدامات کا خیر مقدم کرتے ہیں مگرآئین پاکستان کو روکنے کے لئے رواج ایکٹ نام کا تاخیری حربہ فاٹا کے نوجوان ہرگز قبول نہ کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).