مولانا مفتی تقی عثمانی کے نام کھلا خط (1)


مولانا مفتی تقی عثمانی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ پاکستان کے نامور اسلامی سکالر ہیں۔ آپ کا تعلق دیوبندی حنفی فرقے سے ہے۔ آپ پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت کے جج بھی رہ چکے ہیں۔ پچھلے کچھ ہفتوں سے مولانا کی ایک تحریر ” آزادی نسواں کا فریب ” کے نام سے “خواتین کا اسلام ” نامی ہفتہ وار میگزین میں شائع ہو رہی تھی۔ مولانا صاحب کی یہ تحریر اس میگزین میں نو قسطوں میں چھپی۔ میں نے پوری تحریر پڑھنے کے بعد مولانا کو “ہم سب” کے توسط سے یہ کھلا خط لکھنے کا فیصلہ کیا۔ امید ہے مولانا اس کو کھلے دل سے پڑھیں گے ۔

مولانا نے اپنی اس تحریر میں خواتین کو پردے کا درس دیا، مغرب کی آزادی نسواں کے نام پر فحاشی کو عام کرنے کی مہم کا پول کھولا، کئی عبرت ناک مثالوں کے ساتھ انہوں نے خواتین کے دل و دماغ میں وہ سب تازہ کیا جو مولانا کی نظر میں وہ بھول چکی تھیں۔ مگر ان نو قسطوں میں مولانا نے مردوں کے پردے کے بارے میں ایک لفظ نہیں لکھا؟۔ اس کی وجہ مجھے سمجھ نہیں آ ئی۔ کیا مولانا کا شمار بھی انہی مردوں میں ہوتا ہے جو مردوں کے پردے کو عورت کے پردے سے مشروط سمجھتے ہیں؟ کیا مولانا بھی یہی سمجھتے ہیں کہ عورت پردہ کرے گی تو مرد شرافت کے دائرے میں رہے گا اور جہاں عورت کا نقاب گرا وہیں جنسی خواہشات مرد کو آن گھیریں گی اور پھر نتائج کی ذمہ دار بس عورت ہو گی؟

اسلام میں پردہ صرف عورت پر تو فرض نہیں ہے۔ اسلام میں پردہ مرد اور عورت دونوں پر فرض ہے تو آج ہم صرف عورت کے پردے کی بات کیوں کرتے ہیں؟ میرے خیال میں آج کل عورت کے پردے سے زیادہ مرد کے پردے کی بات کرنا زیادہ ضروری ہے۔ آج کی عورت گھر میں ہو یا گھر کے باہر، برقع میں ہو یا دوپٹہ میں ، محرم کے ساتھ ہو یا محرم کے بغیر، عورت کسی حال میں بھی محفوظ نہیں ہے۔ ایک دن کی بچی سے لے کر ادھیڑ عمر کی بوڑھی خاتون کو زیادتی کا نشانہ بنا یا جاتا ہے۔ اکثر کیسز میں مجرم چچا، ماموں، کزن یا گھر کے کسی مرد کا دوست ہوتا ہے۔ ماضی میں تو تازہ دفنائی گئی عورت کو قبر سے نکال کر ہوس کا نشانہ بنانے کی خبریں بھی منظرِ عام پر آئیں ہیں۔ اور یہ صرف پاکستان کی بات نہیں ہے ، بیشتر مسلم اکثریتی ممالک کے ایسے ہی حالات ہیں۔ کیا دنیا میں موجود تمام مسلمان عورتیں بے حیا ہیں؟ کیا سب مسلمان عورتوں نے حجاب چھوڑ دیا ہے؟ کیا حجاب کرنے کے بعد بھی عورتوں کو ہوس کا نشانہ نہیں بنایا گیا؟ کیا یہ سب مسلمان عورتیں آزادی نسواں کے فریب میں آ کر ماڈل گرل بن کر اپنے جسم کی نمود و نمائش کر رہی ہیں؟ مولانا بہت ہو گئی عورت کے پردے کی بات۔ اب مرد کے پردے کا ذکر شروع کریں۔ عورتوں کو آپ جتنے مرضی حجاب کروا لیں وہ غیر محفوظ ہی رہیں گی کیونکہ آج کے مردوں کو عورت کا پردہ تو یاد ہے مگر اپنی حدود وہ بھول چکے ہیں ۔ زیادہ دور نہیں اپنے مدرسے کے دارالافتاء میں جا کر دیکھ لیں۔ کتنی ہی شادی شدہ خواتین وہاں مسائل بھیجتی ہیں کہ ان کے سسر ان پر گندی نظر رکھتے ہیں۔ اب اس میں کس کا قصور ہے؟ یہاں تو گھر کے کرتا دھرتا ہی بھیڑیے بنے بیٹھے ہیں۔ توکیا اب عورتیں قبر میں جا لیٹیں؟ آخری محفوظ جگہ تو وہی بچتی ہے۔

میں ڈیڑھ سال سے ایک غیر مسلم ملک میں مقیم ہوں اور اس کافر ملک نے مجھے وہ تحفظ دیا ہے جو ایک مسلم ملک نہ دے سکا۔ یہاں سڑک پر چلتے ہوئے مجھے یہ ڈر نہیں ہوتا کہ ابھی کوئی تیز رفتار بائک پر سوار آئے گا اور مجھے چھیڑ کر زَن سے نکل جائے گا۔ آپ نے اپنی تحریر میں غیر ملکی ممالک میں زنا بالجبر کی بات کی تو میں نے آج تک یہاں یہ چیز نہیں دیکھی۔ میں یہ نہیں کہتی کہ یہاں ایسے جرائم نہیں ہوتے لیکن جس شدت سے آپ نے بیان کئے ہیں ویسے تو ہرگز نہیں ہوتے۔ یہاں عورت کا احترام کیا جاتا ہے۔ ہر راہ چلتی عورت کو بکائو مال سمجھ کر آواز نہیں کسی جاتی نہ ہی سنسان راستہ دیکھ کر اس کو ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ یہاں تو کوئی دوسری عورتوں پر نظر ڈالنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ کسی کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا اور نہ ہی ذہن میں ہر وقت جنسی خیالات چھائے رہتے ہیں۔

 میں نے یہاں موجود دوسرے مسلمان ممالک سے آئی ہوئی لڑکیوں سے بھی پوچھا۔ سب نے ایک ہی جواب دیا کہ وہ اپنے ملک واپس نہیں جانا چاہتی، یہیں رہنا چاہتی ہیں کیونکہ یہاں وہ اپنے آپ کو زیادہ محفوظ سمجھتی ہیں اور مولانا یہاں میں آپ کو بتاتی چلوں کہ یہ سب لڑکیاں اسلام کے مطابق حجاب کرتی ہیں۔ مولانا کیا وجہ ہے کہ ایک مسلمان لڑکی ایک غیر مسلم ملک میں اپنے آپ کو زیادہ محفوظ سمجھتی ہے ؟ کیا وجہ ہے کہ ہم مسلمان لڑکیاں اپنے اپنے ملک جانے سے خوفزدہ ہیں۔ ایک ایسا ملک جہاں کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ کبھی فارغ وقت میں ضرور سوچیے گا۔

آپ نے اپنی تحریر میں ذکر کیا کہ عورت کو گھر میں رہنا چاہئے، اس کی معاشی کفالت مرد کے ذمے ہے۔ اس بات پر مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ مجھے بس یہ بتا دیں کیا اسلام عورت کو خواب دیکھنے سے منع کرتا ہے؟ اگر میں صحافی بننے کا خواب رکھتی ہوں تو کیا اسلام کی رُو سے میرا ایسا سوچنا، اس کے لئے محنت کرنا حرام ہے؟ کیا میرا مذہب اتنا ظالم ہے؟ کیا میرے مذہب کے مطابق میری زندگی کا مقصد صرف اپنے شوہر کی جنسی خواہشات پوری کرنا ، اس کا گھر سنبھالنا اور اس کے بچوں کی پرورش کرنا ہے؟ میری اپنی ذات کوئی معنی نہیں رکھتی؟ اور آپ کو کس مسلمان عورت نے کہہ دیا کہ وہ اپنی نوکری کے چکر میں اپنے گھر کو بالکل نظر انداز کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے؟ مولانا ہمارے پاکستان میں ہی ڈھیروں خواتین ایسی ہیں جو اپنی نوکری کے ساتھ ساتھ اپنا گھر بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔

مولانا میں یہ بھی جاننا چاہتی ہوں کہ مردوں کے پاس ایسا کونسا سرٹیفکیٹ ہوتا ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ یہ اپنے گھر کی عورتوں سے لمبی زندگی پائیں گے؟ انہیں کبھی جاب سے نہیں نکالا جائے گا؟ ان کی آمدنی میں کبھی کمی نہیں آئے گی اور یہ ہمیشہ گھریلو اخراجات خوش اسلوبی سے نمٹاتے رہیں گے۔ معاشرے میں ہزار ہا مثالیں بکھری پڑیں ہیں جہاں باپ یا شوہر کے مرنے کے بعد معاشی ذمہ داری کا بوجھ عورت پر آن پڑا اور ایسی عورت جس نے کئی سال گھر سے باہر کی دنیا نہ دیکھی وہ اس دنیا کے فریب دیکھ کر ایک دم چکرا کر رہ گئی۔ کئیوں کو دھوکے ملے تو کئی اپنی قابلیت سے کم درجے کی نوکری کرنے پر مجبور ہوئی۔ اگر یہ ہی عورت تعلیم مکمل کرتے ہی نوکری سے لگی ہوتی تو اس وقت تک ایک اچھی پوسٹ پر ہوتی۔ اتنے برسوں کی وقفے کے بعد جب وہ سب کچھ بھول بھال گئی ہے تب اسے اس کی قابلیت کے مطابق کون نوکری دے گا؟ اور فرض کریں باہر کی دنیا میں صرف مرد کام کر رہے ہوتے تو وہ بے چاری کتنی دیر کسی دفتر میں کام کر سکتی تھی؟ دوسرے ہی دن اپنی عزت لٹوا کر حرام موت کو گلے لگا لیتی۔

(جاری ہے)

مولانا مفتی تقی عثمانی کے نام کھلا خط (2)

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).