لڑکی کا ماضی اور دقیانوسی سوچ، آخر کب تک؟


ہمارے پڑھے لکھے آگہی والے طبقے میں بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر ہی سمجھا جاتا ہے یا کم از کم سمجھنے کا تاثر ضرور دیا جاتا ہے اوران کی تعلیم اور خوراک وغیرہ پر بھی یکساں توجہ دی جاتی ہے۔
میری ایک دوست کی لڑکی تو اب پڑھائی مکمل کر کے نوکری کرتی ہے مگر شام کو ایک راﺅنڈ سائیکل کا باہر گراونڈ میں لگا آتی ہے اور اپنی بلڈنگ کے باقی چھوٹے بچوں کے ہمراہ کرکٹ اور فٹ بال بھی کھیلتی ہے۔ جب نوکری سے کچھ پیسے جمع ہو جائیں تو سیر و سیاحت کے لیے اپنی ایک، دو دوستوں کے ہمراہ باہر کے ملکوں کے چکر بھی لگا لیتی ہے۔ یورپ کے ممالک سمیت بہت سے ملک گھوم چکی ہے۔ وہ بہت نیک اور صالح خاندان کی، بھلی صورت کی سلجھی ہوئی بچی ہے۔ گاڑی بھی چلاتی ہے اور اپنا ہر کام خود ہی کرتی ہے۔ دو روز قبل جب اس کی ماں سے میں ملی تو وہ سخت پریشان تھیں، نیند بھی پوری نہیں کر پا رہی تھیں آج کل۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ پچھلے دو سال سے بیٹی کے لئے رشتے کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ خاندان میں تو لڑکا ہے نہیں اس لئے شادی دفاتر کی وساطت سے لوگ لوگ آتے ہیں جو کبھی ان کے رہن سہن کی سادگی پر معترض ہو جاتے ہیں تو کبھی لڑکی کے قد کاٹھ میں کمی بیشی پر۔ بیٹی باوجود نوکری کرنے کے اور والدین کے آزادی دینے کے کسی لڑکے کے قریب نہیں ہوتی اور خود سے میل ملاپ نہیں کرتی کیونکہ وہ پوچھتی ہے کہ اگر ایک لڑکا بات چیت کرنے پر برا نکلے یا اسے پسند نہ آئے تو پھر دوسرے کے بعد کیا تیسرے سے میل جول رکھے؟ کیا معاشرہ اسے ایسے جینے دے گا؟ کیا معاشرہ پھر بھی اسے ایک اچھی اور نیک لڑکی سمجھے گا؟ وہ ایک ایسی لڑکی کے طور پر مشہور ہونا نہیں چاہتی جو لڑکوں سے آزادانہ میل جول رکھتی ہے کیونکہ ایسی لڑکیوں کو بہت برا سمجھا جاتا ہے، اس لئے ماں باپ سے کہتی ہے کہ وہ رشتہ تلاش کریں اور اس کی والدہ کہتی ہیں کہ لوگ ہیں کہ شکل و صورت اور ظاہری چیزوں سے آگے جانے کو تیار ہی نہیں۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ لوگوں کے نزدیک شادی اور شادی کا مقصد ہے کیا ؟ چائے کی پیالی پر مائیں ایک لڑکی کو سر سے پاﺅں تک دیکھ کر، چائے کی ٹرالی سے اس کے خاندان کی معاشی حیثیت کا اندازہ قائم کر کے اپنے ہونہار سپوت کے لئے اکثر اوقات صرف شکل کی بنیاد پر ایک لڑکی پسند کر لیتی ہیں اور لڑکی کے ماں باپ صرف اس دفتر سے جس میں وہ لڑکا کام کرتا ہے،اس لڑکے کی نوکری کی بابت دریافت کر کے رشتہ پکا کر دیتے ہیں۔
اگر ہم انگریزی کی پرانی بچوں کی کہانیاں بھی کھنگالیں تو علم ہو گا کہ اکثر کہانیوں کا مرکزی کردار سلیپنگ بیوٹی یا سنو وائٹ جیسی ایک لڑکی ہوتی ہے اور کہانی کے پہلے دو صفحات میں صرف اس کی خوبصورتی اور سیبوں جیسے لال گالوں کا تذکرہ ہوتا ہے پھر ایک شہزادہ آتا ہے جو اس کوبس ایک نظر دیکھتے ہی فریفتہ ہو جاتا ہے، چاہے لڑکی سوئی ہو یا جاگی ہو، بس اس کا حسن معنی رکھتا ہے جس کی بنیاد پر ان کی شادی ہو جاتی ہے اور وہ ساری زندگی ہنسی خوشی گزار دیتے ہیں۔
میں بھی کسی بھی اور انسان کی طرح خوبصورتی کو پسند کرتی ہوں اور ایک خوش شکل انسان دیکھ کر خدا کی قدرت کی معترف ہوتی ہوں، مگر ایک انسان کی شخصیت بہت سے مختلف عناصر کا مجموعہ ہوتی ہے اور ایک رشتے کو لمبے عرصے تک نبھانے کے لئے شاید ہی شکل و صورت کی کوئی اہمیت رہ جاتی ہو۔ ذہنی ہم آہنگی ایک اچھی شادی کا بہت ضروری عنصر ہے۔ اگر میاں بات کرے اور بیوی نہ سمجھے یا بیوی کی بات میاں نہ سمجھے، یا دونوں میں بات چیت کا کوئی رشتہ بن ہی نہ سکے تو بس ایسی شادی تو محض ایک سمجھوتہ ہی ہوتی ہے۔آخر شادی کو محض بچے پیدا کرنے کی غرض سے ایک جسمانی تعلق کے رشتے کے طور پر کیوں لیا جاتا ہے؟ شادی تو ایک ایسا رشتہ ہونا چاہیے جس میں میاں اور بیوی، دونوں کو بطور انسان اپنی اپنی صلاحیتوں کو اپنے منتخب کردہ شعبے میں بھرپور طریقے سے بروئے کار لانے کا موقع ملے، دونوں ساتھ میں آگے بڑھیں، محنت کریں، ترقی کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ ایسے چلیں کہ کسی کو حق تلفی کا احساس نہ ہو بلکہ ایک دوسرے کا سہارا حاصل ہو۔ اگر بچے اس دنیا میں لائیں تو باہمی رضامندی سے اور اس وقت جب ان کی بہترین تربیت کر سکتے ہوں۔
میرے میاں اکثر کسی کا قول سناتے ہیں کہ ایک اچھی شادی میں میاں بیوی تانگے میں جتے ایسے گھوڑوں کی مانند ہوتے ہیں جو ایک ہی سمت میں چلیں۔ اگر ایک گھوڑا شمال اور دوسرا جنوب کی جانب جانا چاہتا ہو تو ان کی زندگی کی گاڑی بس ایک ہی جگہ جامد رہتی ہے۔
یہ سب جاننے کے لئے کہ کیا آپ مل کر چل سکتے ہیں یا نہیں، کیا بہتر نہیں کہ ہمارے معاشرے میں ایسا ماحول ہو کہ شادی سے پہلے لڑکا اور لڑکی خود ایک دوسرے کو جانیں، تاکہ سطحی شکل و صورت سے بڑھ کر شخصیت کے کچھ اور پہلو جو اصل میں زندگی ساتھ گزارنے کے لئے ضروری ہیں وہ سامنے آ جائیں؟
آخر اس بات کو اتنا برا کیوں سمجھا جاتا ہے اور ہمارے معاشرے میں ہر نئی سوچ کے ساتھ ایک کلنک کا ٹیکا کیوں جوڑ دیا جاتا ہے؟ غیر تعلیم یافتہ طبقے کی سوچ کو تو تبدیل ہونے میں وقت لگے گا مگر مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ آخر ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ بھی اس دقیانوسی ذہنیت کو بدلنے پر آخر کیوں تیار نہیں؟ میرے میاں تو کہتے ہیں کہ لوگ جھوٹ بہت بولتے ہیں اور دھوکہ بازی اور فریب سے کام لیتے ہیں اس لئے وہ اپنی بیٹی کو کل کو کسی کے نزدیک نہیں جانے دیں گے مگر پھر اس طرح تو لوگ من حیث الخاندان بھی جھوٹے ہوتے ہیں اور والدین سے بھی ان لڑکوں کے والدین جھوٹ بول سکتے ہیں بلکہ بولتے بھی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں طلاق میں اضافے کی ایک بڑی وجہ یہی جھوٹ ہی تو ہیں تو بہتر نہیں کہ ایک بندھن میں بندھنے سے پہلے ایک دوسرے کو جان لیا جائے؟
اگر آپ کو ایک ایسی لڑکی ملتی ہے جو آپ سے پہلے ایک لڑکے سے جذباتی طور پر وابستہ رہ چکی ہے مگر کسی بھی وجہ سے وہ اسے چھوڑ کر زندگی میں آگے بڑھ چکی ہے تو اس میں آپ کو آخر کیا اعتراض ہے؟ اگر وہ ایک اچھی انسان ہے تو ظاہر ہے وہ آپ سے تعلق جوڑنے کے بعد اسے پوری ایمانداری سے ہی نبھائے گی مگر اس کے ماضی میں بھی کوئی شخص چاہے جذباتی وابستگی کی حد تک بھی نکل آئے تو یہ بات مسئلے کا باعث کیوں ہے؟ ایک لڑکی تعلیم یافتہ بھی ہو، اٹھنے بیٹھنے کے سلیقے قرینے سے بھی واقف ہو مگر کسی بھی لڑکے سے اس نے کبھی بات بھی نہ کی ہو تو یہ بہتر ہے۔ آخر کیوں؟
مجھے نہیں لگتا کہ ہم جس شخصیت کے مالک ہوتے ہیں کل کو ہمارے بچے بھی اسی شخصیت کے مالک ہوں گے تو پھر ان کے بارے میں ہم فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں اور وہ بھی شادی دفاتر کی وساطت سے؟
اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے ذہنوں کو کسی قدر کھولیں۔ اپنی بچیوں کی تعلیم، تربیت اور ان کو شعور دینے کے ساتھ ساتھ اپنے ذہنوں میں بھی وسعت پیدا کریں۔ اپنی بچیوں کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کی بچیوں کے بارے میں بھی اچھا سوچیں اور اگر ایک لڑکی ایک صحیح لڑکے کو ملنے سے پہلے چار ایسے لوگوں کو مل چکی ہوتی ہے جن سے وہ شادی کرنا نہیں چاہتی یا جو شادی کے لئے موزوں نہیں ہیں تو اس کے ساتھ بدگمانیاں اور بہتان مت باندھیں کیونکہ میرے نزدیک تو یہ عمل ایک اندھے کنوئیں میں چھلانگ لگانے سے بہت بہتر ہے۔ بس لڑکیاں ایک اندھے کنوئیں میں چھلانگ لگا کر ساری زندگی سسک کر برداشت کر کے اس لئے گزار دیں کیونکہ یہی نیکی اور اچھائی کی سند ہے؟ میں سمجھتی ہوں کہ اس تبدیلی کو لانا اور ذہنی آزادی کے ایک نئے درجے پر جاناایک مشکل امر ہے مگر اگر کچھ مسائل کا سامنا ہم اجتماعی طور پر کر رہے ہیں تو ان کا خاتمہ بھی ایک اجتماعی کوشش سے ہی ہو گا۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim