سیاسی گفتگو منع ہے


تحریک انصاف اور مسلم لیگ (نواز) کے ارکان اسمبلی کی لڑائی اور نا زیبا الفاظ کے استعمال پر ایک نئی بحث کی شروعات ہوگئی ہے۔ کوئی اس لڑائی کو جمہوریت کا حسن قرار دے رہا ہے تو کوئی اسے سیاست دانوں کی جہالت سمجھ رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب ہر ہوٹل کے اندر لکھا ہوتا تھا کہ سیاسی گفتگو کرنا منع ہے، اور ابھی بھی کہیں کہیں کسی بس سٹاپ کے ہوٹل پر یہ الفاظ مل جاتے ہیں۔ شاید یہ الفاظ مارشل لاز کے ادوار کے ڈر اور خوف کی عکاسی کرتے ہیں جب سیاست کو ممنوع اور بری بات سمجھا جاتا تھا۔

ہمارے معاشرے میں یہ بات عام ہے کہ ہر غلط کام کو سیاست کا نام دیا جاتا ہے اور یہ اصطلاح عام ہے کہ تم میرے ساتھ سیاست نہ کرو، اور فلاں سیاست کر رہا ہے۔ ہمارے ہاں سیاست کو اتنا بدنام کیا گیا ہے کہ بچے سے لے کر بوڑھے تک سیاست اور سیاستدانوں کو ممنوع قرار دیتے ہیں۔ ہمیں ہر خامی بس ان سیاست دانوں میں ہی نظر آتی ہے۔ حالانکہ یہ سیاست دان بھی ہمارے اس باشعور معاشرے کا حصہ ہیں۔ جہاں ہم جیسے مہذب، بااصول اور با کردار لوگ رہتے ہیں۔ پھر پتا نہیں کہ یہ سیاست دان کہاں سے بدتہذیب بن کر سامنے آ جاتے ہیں؟ کیا یہ سیاست دان ہمارے پورے معاشرے کو آئینہ دکھا رہے ہیں کہ یہ باکردار لوگ بھی لڑتے رہتے ہیں کبھی گلی محلوں میں، تو کبھی راستوں پر تو کبھی گاڑی چلاتے ہوئے، تو کبھی خریداری کرتے وقت۔ مگر یہ تو کوئی نئی بات نہیں۔ یہ تو فطری بات ہے جب غصہ آتا ہے تو گالی گلوچ نکل ہی جاتی ہے چاہے ایک عام انسان ہو یا سیاست دان۔

تو پھر ہم ان سیاست دانوں کو سپرمین سمجھ کر تنقید کیوں کریں۔ یہ بھی تو انسان ہیں، ان کو بھی غصہ آتا ہے اور یہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں جہاں ہم بھی لڑتے رہتے ہیں۔ فرق صرف یہ وے کہ سیاست داں پارلیمنٹ اور ٹاک شوز میں لڑتے ہیں اور ان کی یہ لڑائیاں ہم ہر روز چوبیس گھنٹے ٹی وی پر دیکھتے اور اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں اور ان سیاست دانوں کی پریس کانفرسز، تقاریر، جلسے جلوس سن سن کر ہم بور سے ہو گئے ہیں۔ اور شاید اسی وجہ سے ہم ان کو زیادہ تنقید کا نشانہ بناتے ہیں یا پھر انہیں منتخب کر کے اپنا رول ماڈل سمجھتے ہوئے ان سے کچھ زیادہ ہی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں کہ یہ ایک روبوٹ کی طرح اپنا برتاو کریں چاہے کچھ بھی ہوجائے یہ سیاست داں اپنے تمیز کے دائرے میں رہیں۔ مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ سیاست دان ہمارے معاشرے کی جیتی جاگتی تصویر ہیں۔

باقی یہ لڑائی جھگڑے، مار دھاڑ تو ان مہذب معاشروں میں بھی ہیں جن کی کچھ جھلکیاں ہمیں کبھی کبھی اپنے میڈیا پر بھی نظر آجاتی ہیں۔ اگر میڈیا ہمارے پورے معاشرے کی عکاسی کرے، معاشرے میں ہونے والے تمام لڑائی جھگڑوں کو ٹاک شوز میں دن رات دکھائے پھر شاید ہم ان سیاست دانوں سے بھی کچھ زیادہ ہی برے لگیں گے۔ اسی لیے صرف ایک طبقہ یا فرد کو مورد الزام ٹھہرانا بھی صحیح نہیں ہے۔ ہم مجموعی طور پر اپنی اقدار کو بھول چکے ہیں اور لگتا ہے کہ یہ الزام تراشی تو ہمارے خون میں رچ بس گئی ہے۔ ہم اپنے آپ کو کم اور دوسروں کو زیادہ دیکھتے ہیں۔ نکتہ چینی تو بہت آسان ہے مگر اصلاح بہت مشکل۔ ہمیں چاہیے کہ ان سیاست دانوں کو نہ فرشتہ سمجھیں، نہ ہی برائی کی جڑ۔ کیوں کہ ہم اس معاشرتی بگاڑ کے مجموعی طور پر ذمے دار ہیں۔ اسی لئے معاشرتی برائیوں کے خلاف ہمیں مل کر کام کرنے کی، اور اپنی اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ ہم سب مل کر ایک صحت مند اور مہذب معاشرے کی بنیاد رکھ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).