‎اپنا بڑھاپا اور اپنا جرم قبول کرنا آسان نہیں


بڑھاپا پوچھ کر آتا ہے نہ دھکے دینے سے جاتا ہے۔ یہ مشرق میں مرض اور مغرب میں زندگی سے انجوائے کرنے کا اصل وقت سمجھا جاتا ہے۔ بڑھاپے میں دانت جانے لگتے ہیں اور دانائی آنے لگتی ہے۔ اولاد اور اعضاء جواب دینے لگتے ہیں۔ بیوی اور یادداشت کا ساتھ کم ہونے لگتا ہے۔ خوراک اور صحت آدھی رہ جاتی ہے۔ نظر اور بال بھی کم ہونے لگتے ہیں۔ بڑھاپا آتا ہے تو مرتے دَم تک ساتھ نبھاتا ہے۔

بڑھاپے کی پہلی نشانی یہ ہوتی ہے کہ حسین لڑکیاں ’انکل‘ کہہ کر پکارنے لگتی ہیں۔ ہاتھ میں رعشہ یا چھڑی آجاتی ہے۔ شوگر کا حساب پل پل رکھنا پڑتا ہے۔ میٹھی نظر ڈالنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ چہرے پر چشمہ اور جھریاں جگہ پانے لگتی ہیں۔ بال اچانک کالے سے گورے ہونے لگتے ہیں۔ گھٹنوں اور دل میں درد رہنے لگتا ہے۔

انسان دو چیزیں مشکل سے قبول کرتا ہے۔ اپنا جرم اور اپنا بڑھاپا۔ ہمارا بچپن دوسروں کی دلجوئی اور خوشی کے لئے ہوتا ہے، جوانی صرف اپنے لئے ہوتی ہے اور بڑھاپا ڈاکٹروں کے لئے۔ جب بار بار اللٌہ، ڈاکٹر اور بیوی یاد آنے لگے تو سمجھ لیں آپ بوڑھے ہوگئے ہیں۔ بڑھاپے کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ بےضرر ہوتے جارہے ہیں، اپنے سوا کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ جب بچے آپ کو نانا، دادا کہہ کر اور حسین لڑکیاں انکل کہہ کر پکارنے لگیں تو تردد سے کام نہ لیں، تنہائی پاتے ہی غم بھلانے کے لئےسیٹی بجائیں کیونکہ آپ سیٹی ہی کے قابل رہ گئے ہیں۔ بڑھاپے میں اگر اولاد آپ کی خدمت کرتی ہے، اس کا مطلب ہے کہ آپ نے ان کی تربیت اور اپنی لائف انشورنس پر پورا دھیان دیا ہے۔

’مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا‘ یہ ایک نہیں ہزاروں بوڑھوں کا قول ہے۔ بوڑھا ہونا الگ چیز ہے اور بوڑھا دکھائی دینا الگ۔ ہر بوڑھے میں ایک بچہ اور جوان چھپا ہوتا ہے۔ بوڑھا ہونا آسان کام نہیں، اس کے لئے برسوں کی ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا نہ چل پاتی اگر بوڑھے ہونے کا رواج نہ ہوتا۔ بوڑھے ہونے کے بہت سے فائدے اور کافی سارے نقصانات ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بوڑھے کو دیکھ کر سب سیٹ چھوڑ دیتے ہیں سوائے سیاست دان کے۔ اچھا خاندان اور اچھی حکومت ہمیشہ اپنے بوڑھوں کا خیال رکھتی ہے۔ بوڑھے نہ ہوتے تو چشموں اور دانتوں کا دھندا بالکل مندا ہوتا ہے۔ بوڑھوں کو بندی اور خاندانی منصوبہ بندی دونوں کی ضرورت نہیں ہوتی مگر نیت اور نظر پھر بھی خراب رہتی ہے۔

عورتیں بوڑھی تو ہوتی ہیں مگر ان کی عمر اکثر جوانی والی ہی رہتی ہے۔ مغربی عورت اپنی عمر چھپاتی ہے نہ جسم۔ پاکستان میں جو عورت اپنی عمر پینتیس سال بتاتی ہے وہ پچاس سال کی دکھائی دیتی ہے، کینیڈا میں جو پچپن سال بتاتی ہے وہ دیکھنے میں پینتیس کی لگتی ہے۔ پاکستانی آمدنی چھپانے میں اور چینی عمر چھپانے میں نمبر ایک ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق آج کی دنیا میں پانچ سال کی عمر کے بچے کم اور ساٹھ سال سے زائد عمر کے بوڑھے زیادہ ہیں۔ اگلے پانچ سالوں میں ساٹھ سال سے زائد عمر کے بوڑھوں کی تعداد ایک ارب ہوجائے گی اور ان میں سے اسّی فیصد ترقی یافتہ ممالک میں ہوں گے۔ ہم خوش ہیں کہ ہم اس وقت بوڑھے ہوں گے جب بوڑھوں کی تعداد زیادہ ہوگی۔ کسرت کی عادت کی وجہ سے کینیڈا میں بزرگوں کی کثرت ہوگئی ہے۔

دنیا میں سب سے آسان کام نانا، نانی یا دادا، دادی بننا ہے۔ اس میں آپ کو کوئی کوشش نہیں کرنی پڑتی جو کچھ کرنا ہو، آپ کے بچوں کو کرنا پڑتا ہے۔ انسان کو زندگی میں دو بار رشتوں کی اصلیت کا پتہ چلتا ہے: بیوی کے آنے کے بعد یا پھر بڑھاپا آنے کے بعد۔ زیادہ بوڑھے ہوکر مرنا، اپنے آپ کو رنج پہنچانا ہے۔ ہر بچے کے اندر ایک بوڑھا چھپا ہوتا ہے بشرطیکہ وہ عمر لمبی پائے۔ کیا باکمال دور ہے یہ آغازِ بڑھاپا بھی۔ بچپن میں ہم ٹیسٹ دیا کرتے یا ٹیسٹ دیکھا کرتے تھے، اب ڈاکٹر ہمارے لئے ٹیسٹ لکھ رہا ہے۔ ہمارا تو ہر عمررسیدہ کو یہی پیغام ہے کہ دنیا سے انجوائے کرو قبل اس کے کہ دنیا تم سے انجوائے کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).