کراچی سے اتنی محبت کیوں؟


پاکستان سپر لیگ اپنے اختتام کو پہنچی۔ لاہور پاکستان کی سیاست میں ایسا غالب ہے کہ کچھ دوست التزام سے ’تخت لاہور‘ کی اصطلاح استعمال کرکے شکوہ کرتے ہیں۔ کراچی ملک کا صنعتی اور تجارتی مرکز ہے ۔ بندرگاہ یہاں ہے۔ تعلیم یہاں ہے۔ ملک کا واحد کاسموپولیٹن شہر کراچی ہے۔ پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد وفاقی اکائیوں کے بالمقابل وفاق یعنی مرکز کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان سپر لیگ میں کراچی فائنل میں پہنچا اور نہ لاہور۔ اسلام آباد بھی یہ دوڑ ہار گیا۔ پشاور اور کوئٹہ لاہور میں فائنل کھیلے۔ پشاور زلمی نے یہ فائنل جیت لیا۔ اہل پاکستان کے لیے اس سے زیادہ خوشی کی کوئی بات ہو نہیں سکتی تھی۔ محترمہ مہوش اعجاز نے ایک بلاگ لکھا ہے جس میں یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان کے لوگ کراچی اور کراچی میں رہنے والوں سے عناد رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ سپرلیگ کے میچوں میں کراچی کے بارے میں نازیبا نعرے بھی لگائے گئے۔ کہیں کراچی کے کھلاڑیوں کو کچرا قرار دیا گیا تو کہیں انہیں بوری میں بند کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ کھیلوں کے مقابلے میں جوش و خروش کی فضا کے دوران نوجوان تماشائی بہت دفعہ اپنی حد سے بڑھ جاتے ہیں۔ اس طرح کے نعروں کو تھوڑا تحمل اور ظرف کی وسعت کے ساتھ برداشت کرنا چاہیے بلکہ اگر دل چاہے تو خود پر تھوڑا بہت ہنس بھی لینا چاہیے۔ عرض ہے کہ مہوش اعجاز صاحبہ کا تاثر درست نہیں ہے۔ ہم، پاکستان میں رہنے والے، کراچی سے بہت محبت کرتے ہیں اور اس محبت کے لیے ہمارے پاس ٹھوس وجوہات بھی موجود ہیں۔

کراچی کے کھلاڑیوں کو کچرا کون کہہ سکتا ہے ؟ کیا پاکستان کرکٹ کے پہلے بیس برس میں حنیف محمد سے بہتر کوئی کھلاڑی سامنے آیا۔ ظہیر عباس کے بیک فٹ کور ڈرائیو پر کسی کو شبہ ہے۔ جاوید میانداد کی سپورٹس مین سپرٹ پر کسی نے عدم اعتماد کیا۔ اقبال قاسم جیسا بائیں بازو کا سلو آرم باﺅلر کوئی اور ہو گا؟ صادق محمد ہمارے بہترین بائیں ہاتھ سے کھیلنے والے اوپننگ بلے باز تھے۔ مشتاق محمد ہمارے کامیاب ترین کپتان تھے۔ سکندر بخت اب پاکستان کے بہترین کمنٹیٹرز میں گنے جاتے ہیں ۔ پینتیس برس پہلے دلی کے فیروز شاہ کوٹلہ گراﺅنڈ میں سکندر بخت نے پانچ وکٹیں گرائی تھیں ۔ کیا سکندر بخت کے بارے میں کوئی احترام سے گری ہوئی بات کہہ سکتا ہے۔ کراچی کرکٹ پاکستان کا ہراول دستہ ہے۔پاکستان کی کرکٹ سے محبت کرنے والا کوئی شخص کراچی کرکٹ کی خدمات کو فراموش نہیں کر سکتا۔

کراچی اپنی ایک تہذیبی پہچان بھی رکھتا ہے اور پاکستان بننے کے بعد کراچی نے اہل پاکستان کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے والے سنگم کے طور پر عظمت پائی ہے۔ دنیا میں پشتو بولنے والے افراد کی سب سے بڑی تعداد کراچی میں رہتی ہے۔ جب پاکستان بھر میں پارسی ، ہندو، یہودی اور اینگلو انڈین شہریوں کے لیے کوئی جگہ نہ رہی تو کراچی نے اپنی آغوش ان پر وا کر دی۔ کراچی کے دامن میں پنجاب کے رہنے والوں نے بہت شفقت کمائی ہے۔ ہمارے بلوچ ہم وطن کراچی کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔ کراچی قیام پاکستان سے آج تک ہماری واحد بندرگاہ ہے ۔ پاکستان میں صنعت اور تجارت کے سب دروازے کراچی میں کھلتے ہیں۔ کراچی پاکستان کے وفاق کا نشان ہے۔ ہم پاکستان کے رہنے والے کراچی کے احسان مند ہیں۔

پاکستان کے بانی قائداعظم کراچی میں دفن ہیں۔ پاکستان کے پہلے شہید وزیراعظم لیاقت علی کا مدفن کراچی میں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا 70 کلفٹن کراچی میں ہے۔ پاکستان کی ایک بڑی جمہوری قوت ایم کیو ایم کا مرکز کراچی میں ہے۔ کلفٹن کراچی میں ہے۔ الفنسٹن سٹریٹ کراچی میں ہے، چاکیواڑہ کراچی میں ہے۔ ملیر کی ندی کراچی میں بہتی ہے۔ لیاری کے فٹ بال کھیلنے والے کراچی میں ہیں۔ معراج محمد خان اور فتح یاب خان کراچی سے تھے۔ واحد بلوچ کراچی میں رہتا ہے۔ مکران سے تعلق رکھنے والے سونے سے بنے دل کراچی میں رہتے ہیں۔ شہیدی قبیلے کے دمکتے ہوئے چہرے کراچی میں رہتے ہیں۔ پاکستان کے رہنے والے ایسے کم علم نہیں کہ کراچی کی عظمت کو پہچان نہ سکیں ۔

پاکستان بننے سے بہت پہلے لاہور برصغیر کا علمی اور ثقافتی مرکز تھا۔ پشاور کے قصہ خوانی بازار کی خوشبو میں صدیوں کی تاریخ بولتی ہے۔ بلوچستان کی وادیاں اور پڑاﺅ تاریخ میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ کراچی اور پاکستان لیکن ایک ساتھ پیدا ہوئے۔ پاکستان نے کراچی کو پیدا کیا اور کراچی نے پاکستان کو پہچان دی۔ محمد خالد اختر نے کراچی میں ٹھکانہ بنایا تھا۔ مشتاق احمد یوسفی نے اپنی آب دار نثر میں کراچی کو دستاویز کیا ہے۔ ابن انشا کراچی کے رہنے والے تھے۔ جون ایلیا کراچی سے محبت کرتا تھا۔ فہمیدہ ریاض اور افضال احمد سید کراچی میں بستے ہیں۔ آصف فرخی کی عینک سے چھنتی بصیرت میں کراچی کی ریت کا عکس ملتا ہے۔ پاکستان کے رہنے والے ابھی میر اور غالب کو نہیں بھول پائے ۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کراچی کی رگوں میں بہتے ادب ، تہذیب اور ثقافت کے سرچشموں کو بھول جائیں۔ کراچی میں نور الہدیٰ رہتی ہیں۔ راحت کاظمی اور ساحرہ کاظمی کراچی میں ہیں۔ فاطمہ ثریا بجیا کراچی میں ڈرامہ لکھتی تھیں۔ حسینہ معین کراچی کی رہنے والی ہیں۔ طلعت حسین اور معین اختر کو پاکستان سے کاٹ پھینکنے کا تصور کیسے کیا جا سکتا ہے۔ کمال احمد رضوی کے قلم کی کاٹ میں کراچی کے پانیوں کی روشنائی تھی ۔ شاید آپ کو یاد دلانا غیر ضروری ہو کہ انور مقصود اپنی تلوار کی دھار جیسی نثر کے نشتر کراچی میں ارزاں کرتے ہیں۔ زاہدہ حنا کراچی میں بیٹھ کر اپنا کالم لکھتی ہیں۔ شکیل عادل زادہ کی اردو میں پاکستان کے سب رنگ پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں تعقل، خرد اور توازن کی آواز وسعت اللہ خان کراچی سے بلند کرتے ہیں۔ کراچی نے پاکستان کو مالامال کیا ہے۔ پاکستان کے رہنے والے کراچی والوں کے بارے میں برا سوچنے کا خیال بھی دل میں نہیں لا سکتے۔

پاکستان کی صحافت کا ضمیر ، ضمیر نیازی تھے۔ کراچی میں لکھتے تھے اور کراچی میں دفن ہوئے۔ کراچی نے ہمیں حسین نقی جیسا صحافی دیا۔ پاکستان کی خاتون صحافیوں میں رضیہ بھٹی کو کوئی کیسے بھولے گا ۔ ’مرر‘ کی خاتون ایڈیٹر زیب النسا حمیدہ اللہ کراچی کی رہنے والی تھیں۔ شیما کرمانی نے ابھی سہون شریف کی زمین پر پاکستان کا نام بلند کیا ہے۔ انیس ہارون کراچی کی رہنے والی ہیں۔ قائداعظم کی بہن فاطمہ جناح جب پورے پاکستان میں صدارتی انتخاب ہار گئیں تو کراچی میں فتح یاب ہوئی تھیں۔ حکیم محمد سعید کراچی میں شہید ہوئے تھے۔ ملا واحدی کراچی میں آن کر قیام پذیر ہوئے تھے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق کراچی میں دفن ہوئے۔ شاہد احمد دہلوی نے ساقی اور نیاز فتح پوری نے نگار کی ازسرنو رونمائی کراچی سے کی تھی۔ اتنی روشنی اور اتنے چراغ؟ کراچی پاکستان کا سائبان بھی ہے اور پاکستان کی پناہ بھی۔ کراچی پاکستان کی سرحد بھی ہے اور پاکستان کا مورچہ بھی۔ کراچی پاکستان کا اعزاز بھی ہے اور پاکستان کا فخر بھی۔ محترمہ مہوش اعجاز کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ ہم پاکستان بھر کے رہنے والے کراچی سے ہرگز نفرت نہیں کرتے۔ ہم کراچی سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).