وینا ملک کی خاموشی پر میڈیا کا احتجاج


رات کے تین بجے ہیں اور ایک ٹی وی چینل پر بریکنگ نیوز چل رہی ہے کہ وینا ملک اور اسد خٹک میں خلع ہو گئی ہے۔ ساتھ ہی وینا ملک سے یہ شکوہ بھی جاری ہے کہ شادی تو بہت دھوم دھام اور شور شرابے سے کی لیکن خلع پر اس قدر خاموشی کیوں؟ تقریبا آدھ گھنٹہ اسی خبر کو چلایا گیا۔ وینا ملک کے وکیل کو آن ایر کال پر لیا گیا اور ان سے پوچھا گیا کہ خلع کی وجہ کیا ہوئی اور وینا ملک خاموش کیوں ہیں۔ وکیل صاحب نے گزارش کی کہ بھائی میں تو سو رہا تھا کہ مجھے فون کال آئی کہ میڈیا پر بریکنگ نیوز چل رہی ہے کہ وینا اور اسد میں خلع ہو گئی ہے اور میں سلسلے میں کوئی بیان دوں۔ وکیل نے یہ بھی عرض کی کہ میرے پاس اس سلسلے میں کوئی اطلاع نہیں ہے اور نہ ہی میں ان وجوہات سے آگاہ ہوں جن کی بنا پر یہ سب ہوا۔ مگر اینکر کا اصرار جاری رہا کہ سکرین پر دیکھیں جو کاغذات دکھائے جا رہے ہیں ان پر لکھا ہے کہ 31 جنوری کو عدالت نے خلع کا حکم دیا۔ آپ یہ مان کیوں نہیں لیتے۔ آخر کیوں انکاری ہیں بھائی؟ کیوں ہماری روزی روٹی پر لات ما رہے ہیں۔ آپ یہ بیان دے کیوں نہیں دیتے کہ وینا اور اسد کی راہیں جدا ہو چکی ہیں اور بحثیت ان کے وکیل کے اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں۔ وکیل صاحب نےپھر استدعا کی کہ جو پرچہ آپ سکرین پر دکھا رہے ہیں وہ اصل معلوم ہوتا ہے لیکن میں پھر بھی اس کی تصدیق نہیں کر سکتا کیونکہ میں اس معاملے سے لا علم ہوں۔

تھوڑی دیر بعد اسی چینل پر بریکنگ ٹکر چلا

“وینا ملک نے اسد خٹک سے خلع لے لی” وینا ملک کے وکیل علی احمد کا دعویٰ۔

پھر چینل کے بیورو چیف کو کال ملائی گئی اور پہلا سوال یہ داغا گیا کہ

“یہ بتائیے کہ وینا ملک کا حق مہر کتنا تھا اور ان کے بچوں کا کیا ہو گا؟”

اور بیورو چیف کا جواب یہ تھا کہ

“اس کی اطلاعات تو نہیں ہیں ہاں مگر وینا ملک سے شکوہ ہے کہ ان کی شادی اور ہنی مون کو ہم نے اتنی کوریج دی مگر پھر بھی خلع کی خبر انہوں نے ہم سے چھپائی”۔

شاید وہ یہ بھی کہنا چاہتے ہوں کہ وینا ملک ہم آپ سے کٹی ہیں۔ اب ہم آپ سے کبھی بات نہیں کریں۔اب ہم آپ کی خلع کی کوریج بھی نہیں کریں گے۔ اور دیکھتے ہیں کہ ہماری کوریج کے بغیر کیسے ہو گی آپ کی خلع؟

ویسے میری خواہش ہے کہ وہ ایسا کہہ دیتے اور وینا ملک کی اور ان کے خاندان کی جان چھوڑ دیتے ۔ پھر بھلے ان کی خلع ہو نہ ہو ۔مجھے حیرت ہے کہ ہماری ترجیحات کس سمت جا رہی ہیں ؟ مانا کہ وینا ملک ایک سلیبریٹی ہیں اور لوگ ان کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ مگر ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ سلیبریٹی بھی انسان ہیں۔ ان کے بھی جذبات ہیں۔ کسی بھی خاندان کے لیے طلاق ایک تکلیف دہ عمل ہے ، خاص طور پر جب بچے بھی ہوں۔ اس صورتحال میں اگر فریقین تھوڑا سا وقت اور پرائیویسی چاہتے ہیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ میڈیا کسی کی ذاتی زندگی کو اس طرح نشانہ نہیں بنا سکتا۔

ریٹنگ کے چکر میں انسانیت اور اخلاقیات کہیں دب کر رہ گئے ہیں۔ یہ بھی سمجھنے کو کوئی تیار نہیں کہ اس طرح کی روایات قائم کر کے معاشرے کو انحطاط کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ اس معاشرے میں کسی کی بھی عزت محفوظ نہیں۔ حالانکہ معاشرہ قائم کرنے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ انسان نیچرل سٹیٹ میں خود کو محفوظ نہیں سمجھتے تھے۔ ان کی جان ، مال اور عزت داؤ پر لگی رہتی تھی اور انسان اپنے سے کمزور کو دباتے تھے اور اپنے سے طاقتور سے ڈرتے تھے۔ اسی ضمن میں تھامس ہوبز اپنی شہرہ آفاق کتاب لیویاتھن میں لکھتے ہیں کہ

“نیچرل سٹیٹ میں انسان خود غرض، ظالم اور دوسروں کے حقوق سلب کرنے والا تھا۔ ہر کسی کو دوسرے سے خطرہ تھا۔ اسی خطرے کے سدباب، اور اپنی جان، مال کے تحفظ کے لیے انسانوں نے معاشرہ قائم کیا جہاں ایسے قوانین ہوں جو سب پر لاگو ہوں اور جن کی مدد سے معاشرے کے افراد کی جان ، مال اور عزت کی حفاظت کی جا سکے”۔

یہیں سے “سوشل کانٹریکٹ” کا تصور سامنے آیا۔ انسانوں نے اپنے کچھ حقوق ایک مشترکہ اتھارٹی کو دے دیے تاکہ وہ اتھارٹی یا طاقت ان کی حفاظت کو یقینی بنا سکے۔ جان لاک اور روسو جیسے عظیم فلسفی بھی سوشل کانٹریکٹ سے متعلق کم و بیش یہی خیالات رکھتے تھے۔

لیکن افسوس ہے کہ انسانی معاشرے کی بنیاد جس اصول پر کھڑی ہے ہم اسی کو توڑنے پر تلے ہیں۔ ہم بضد ہیں کہ کسی کی بھی جان یا عزت ہمارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ معنی رکھتا ہے تو ہمارا ذاتی مفاد ۔ بالکل ایسے ہی جیسے نیچرل سٹیٹ میں ہوبز کے نزدیک انسان صرف اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے تھے۔ وینا ملک کی خلع پر میڈیا کا یہ انداز اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہم ایک مہذب معاشرے کے بنیادی اصولوں سے ناآشنا قوم ہیں۔ ہم یہ جانتے ہی نہیں کہ اخلاقیات کسے کہا جاتا ہے۔ خاص طور پر ایک صحافی جسے ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے وہ اس بات سے نابلد ہے کہ وہ ریاست اور معاشرے کی بنیادوں کو کس قدر کمزور کر رہا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ قوانین، اخلاقیات اور ان کے یکساں اطلاق کے بغیر نہیں چل سکتا ۔نہ صرف ریاست بلکہ معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فرائض ادا کرے۔ہم میں سے ایک کا فرض دوسرے کا حق ہے ، ہم اگر فرض ادا کرتے رہیں گے تو دوسروں کو ان کے حقوق ملیں گے اور ایسے ہی یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔

ہمارے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم کسی کی ذاتی زندگی کو نشانہ نہ بنائیں کیونکہ آگر آج ہم اپنا یہ فرض پورا کریں گے تو کل کوئی ہمیں ہمارا حق دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).