میں دہشت گرد ہوں یا لبرل؟


ایسا بھی ہوا ہے کہ میں یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں اور ذہن میں یہ سوچ کلبلانے لگی ہے کہ آخر اس سے کیا فائدہ ہے؟ یہ جانتے ہوئے کہ یہ الفاظ ملک کے سب سے بڑے اخبار میں شائع ہوں گے یہ خیال بھی تنگ کرتا ہے کہ ہمارے ملک میں لوگ بڑے شوق اور توجہ سے نہ اخبارات اور رسائل پڑھتے ہیں اور نہ کتابیں، یہ میرا صدقہ جاریہ ہے۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ کسی یونیورسٹی میں صحافت پڑھنے والے طالبعلم بھی باقاعدگی سے اخبارات کا مطالعہ نہیں کرتے، کتابوں کی تو بات الگ ہے۔ سو میں اپنے آپ سے پوچھتا رہتا ہوں کہ کیا یہ کام جاری رکھنا چاہیے۔ اس کا جواب ’’ہاں‘‘ میں اس لئے بھی ہے کہ یہ تو میرا پیشہ ہے، وہ شعر آپ نے سنا ہوگا کہ

کروں گا کیا جو محبت میں ہوگیا ناکام

مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

ویسے یہ بھی ہمارے معاشرے اور ماحول کی کہانی ہے کہ بے شمار لوگ اپنی روزی کے لئے ایسے کام کرنے پر مجبور ہیں جو انہیں پسند نہیں یا جنہیں اچھی طرح کرنے کی ان میں صلاحیت نہیں۔

میرا معاملہ یہ ہے کہ میں نے اپنے پیشے سے اور اپنے کام سے نہ صرف دل لگایا ہے بلکہ اس کا صلہ مجھے توقع سے کہیں زیادہ ملا ہے اور اس کا مادی اور مالی اجرت سے کوئی تعلق نہیں۔ میں خود کو ایک بہت خوش قسمت صحافی تصور کرتا ہے پھر بھی یہ غم اپنی جگہ ہے کہ میری آواز، تیز ہوا کے شور میں اگر سنی بھی جاتی ہے تو بہت کم۔ میرے اپنے دوست اور جاننے والے کبھی مشکل ہی سے میرے کسی اردو کالم کا ذکر کرتے ہیں۔ کچھ کو یہ گمان ہے کہ یہ میرے انگریزی کالم کا ترجمہ ہوتا ہے، ایسے چند کالم اس صفحے پر چھپتے ہیں۔ اگر موقع ملے تو میں یہ وضاحت کرتا ہوں کہ اگرچہ انگریزی صحافت میری پہچان ہے، میری پہلی محبت تو اردو ہے اور اس بیوفائی کا صرف یہی جواز ہے کہ انگریزی پر عبور حاصل کیے بغیر کوئی کیسے اپنی جگہ بناسکتا ہے۔ اردو اخبارات یقیناً زیادہ پڑھے جاتے ہیں لیکن انگریزی کا اعتبار اور اس کی پہنچ بہت زیادہ ہے۔بہرحال میری پریشانی زبان سے بالاتر ہے، میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ مجھ جیسے لکھنے والے یا کہنے والے اپنا اثر کھوتے جارہے ہیں یا شایدبالکل کھوچکے ہیں۔ مطلب یہ کہ اب کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کونسی بات، کس دلیل کے ساتھ اور کتنے شائستہ انداز میں کہی گئی ہے۔ ہاں اگر تھوڑے بہت ہم خیال پڑھنے والے تالی بجادیں تو اس سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ یہ میں آپ کو بتائوں کہ میں نے پوری زندگی جو خاصی طویل ہے، صحافت میں گزاری ہے اور یہ سفر آسان نہیں تھا، اپنے ضمیر اور اپنے اصولوں سے وفاداری نبھانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ایسے دن بھی تھے جب لگتا تھا کہ صحافت کی آزادی اور عزت کے لئے کی جانے والی جدوجہد بار آور ہوگی۔ ابلاغ عامے کے شعبے میں ایسے انقلابات رونما ہوئے کہ یہ امید بندھی کہ اب تو پیغام ہر کونے تک پہنچے گا اور ایک ذمہ دار الیکٹرانک میڈیا عوام کو ایک نئے شعور اور عزم سے روشناس کرائے گا۔ لیکن جو کچھ ہوا، جو ہورہا ہے اسے دیکھ کر دل کڑھتا ہے کہ یہ میں نے اپنی پوری زندگی کیسے گنوادی۔ یہاں تو انتہا پسندی، عدم برداشت اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کی پامالی کا بول بالا ہے۔ نفرت اور تعصب کے علمبرداروں نے خوف اور عدم تحفظ کی فضا قائم کردی ہے۔ وہ جو خود کو روشن خیال اور ترقی پسند سمجھتے تھے پسپائی کا شکار ہیں کیونکہ عقل اور دلیل اور معروضی حقائق کی بنیاد پر رسان سے کی جانے والی گفتگو مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں سوچتا ہوں کہ کالم لکھوں یا نہ لکھوں۔ لکھوں گا تو کتنے لوگ پڑھیں گے، نہیں لکھوں گا تو کیا فرق پڑے گا۔ پتہ نہیں برمحل ہے یا نہیں لیکن مجید امجد کا وہ شعر یاد آگیا

میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے

میں جب ادھر سے نہ گزروں گا، کون دیکھے گا

ان تمام وسوسوں سے قطع نظر اور جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ تو میرا کام ہے اسے تو کرنا ہے۔ سوچتا ہوں کہ اس طرح چند ایسے موضوعات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے جو عوامی میڈیا کی توجہ سے محروم ہیں۔ ایک بات میں نے کہی مطالعے کے شوق میں کمی کی۔ اصل مسئلہ ہمارا فکری، تہذیبی، تعلیمی اور اخلاقی بحران ہے، ایسا لگتا ہے کہ اس کا کوئی سنجیدہ اور گہرا تجزیہ حکمرانوں اور میڈیا دونوں کے بس کی بات نہیں۔ ادھر ادھر تقریریں سننے کومل جاتی ہیں، گزشتہ ہفتے میں نے حبیب یونیورسٹی میں لائبریری اور کتابوں کے بارے میں ایک مذاکرے میں شرکت کی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی امینہ سید اور دانشور استاد راحت کاظمی بھی گفتگو میں شریک تھے جس کی نظامت آصف فرخی نے کی، میں نے اپنا رونا رویا۔ مستقبل کا دارومدار لائبریری، مطالعے اور جاگتے میں خواب دیکھنے پر ہے۔ اب ذرا اس صورتحال پر نظر ڈالئے کہ ایک طرف تو ملک کی معاشی ترقی کی سرخیاں لگ رہی ہیں اور عظیم الشان تعمیرات کا سلسلہ جاری ہے کہ جس میں چین کی معاونت نمایاں ہے لیکن دوسری طرف اس ملک کے سب سے بڑے، امیر اور کہنے کو سب سے زیادہ تعلیم یافتہ شہر کراچی میں کوئی ایک بھی باقاعدہ پبلک لائبریری نہیں ہے کہ جہاں سے شہری کتابیں مستعار لے سکیں۔ یہ ہماری پسماندگی کے آئس برگ کی وہ نوک ہے جو سمجھیے کہ دکھائی دے رہی ہے۔ امکان یہ ہے کہ حکمرانوں کو یہ بھی دکھائی نہیں دے رہی کیونکہ میڈیا کے آئینے میں میں دکھائی دینے والے مناظر بہت مختلف ہیں۔ ایک مثال میں دوں اور خدا کرے آپ میں اتنی ہمت ہو کہ اس کی معنویت کو سمجھ سکیں۔ گزشتہ اتوار کو لاہور میں پی ایس ایل کا فائنل کھیلا گیا… واہ واہ کرکٹ نے جیسے پاکستان کا مطلب واضح کردیا۔ کتنے ہزار فوجی، رینجرز اور پولیس والے حفاظتی انتظامات میں شریک ہوئے، پورا ملک جیسے ہل گیا۔ ٹھیک ہے کہ اس طرح ایک اہم پیغام دنیا کو دیا گیا اور کرکٹ نے قومی اتحاد کے جذبے کو ابھارا۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر نے لاہور کو بھی چھوا تھا اسی لئے وہاں ایک بڑا کرکٹ میچ کھیلنا گویا دہشت گردوں کی وکٹ اڑانا تھا۔ لیکن اسی لاہور میں کرکٹ میچ سے ٹھیک ایک ہفتے قبل وہ سالانہ ادبی میلہ منعقد ہونا تھا جو اس شہر کی علمی اور ثقافتی پہچان بن گیا ہے، اس میلے میں بھی بین الاقوامی ادبی شخصیات مدعو تھیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ ایسی کسی تقریب کی تیاری میں مہینے لگ جاتے ہیں۔ شہر بلکہ ملک کے پڑھے لکھے باذوق افراد بے صبری سے اس کا انتظار کرتے ہیں۔ معاشرے کی ذہنی نشوونما کے عمل میں ایسی سرگرمیاں ایک خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ لیکن کیا ہوا، جس جگہ اسے منعقد ہونا تھا اس کی اجازت صرف دو یا تین دن پہلے واپس لے لی گئی۔ کچھ نہ کچھ کرکے تین دن کے پروگرام کو ایک دن میں سمیٹا گیا۔ حکومت کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ ادبی میلے کی حفاظت بھی کرلیتی۔ سو ہم اس دنیا میں جی رہے ہیں اور آخر میں ایک اردو اخبار کی ایک بڑی خبر کی چھوٹی سرخی جو میں نے جمعرات کو پڑھی۔ ’’لبرل ازم دہشت گردی سے زیادہ خطرناک ہے۔‘‘ اس کا حوالہ اسلام آباد کی ایک عدالتی کارروائی ہے۔ میں یہ سوچتا ہوں کہ اگر کوئی کسی سنسان جگہ رات کے وقت مجھے روک کر پوچھے کہ بتائو تم دہشت گرد ہو یا لبرل تو میں کیا جواب دوں گا۔

(بشکریہ روز نامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).