گیتا اور منیبہ باغی ہوئیں تو مثال بنیں


 اگر ایک فزیو تھراپسٹ سے کہا جائے کہ ایک سافٹ ویئر بناﺅ یا پھر ایک میکینکل انجینئر سے کہا جائے کہ ہڈی پلاسٹر کرو تو کیا وہ کر پائیں گے؟ نہیں۔ تو پھر ایک لڑکی جس نے کبھی کچن نہیں سنبھالا، کپڑے نہیں دھوئے، سلائی نہیں کی، گھرداری کی شاپنگ نہیں کی، بچے نہیں سنبھالے اس سے یہ سب امیدیں کیوں لگا لی جاتی ہیں کہ وہ اوور نائٹ ایک مشرقی بہو کا کردار بھی نبھائے گی، ایک مثالی ماں بھی بنے گی، ایک تعاون کرنے والی بیوی بھی اور ایک پرکشش محبوبہ بھی۔ کتنی سنگین حقیقت ہے کہ چلو ایک شوہر اپنی بیوی سے بھلے سو فیصد خوش نہ بھی ہو تو گزارا کرلے گا لیکن اگر کوئی سسرال والے سو فیصد مطمئن نہ ہوں تو مجال ہے کہ وہ سکون سے ان دونوں کو رہنے دیں۔ ہمارے معاشرے کی ایک خوبی ہے کہ وہ طلاق نہیں ہونے دیتا۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ وہ کوئی کسر نہیں چھوڑتا کہ میاں کے دل میں بیوی اور بیوی کے دل میں میاں کیلئے عزت، محبت اور برداشت کو رہنے دے۔ اور پھر یوں ہوتا ہے کہ شادی چاہے کتنی ہی محبت سے کیوں نہ کی جائے، پہلے سال سے شروع ہونے والی نوک جھونک، روک ٹوک، اعتراضات، پابندیاں اور مایوسیاں ہوتے ہوتے پانچویں سال تک روٹین بن جاتی ہیں اور پھر ایک چھت کے نیچے دو امی ابا رہتے ہیں محبوب نہیں۔
اس کے علاوہ بھی ایک خصوصیت ہے جو بیوی میں ہونی چاہئے اور وہ یہ کہ وہ سو فیصد تندرست اور بچہ جمورا ہو۔ آنکھ کے اشارے پہ اٹھے، بیٹھے، لیٹے، رقص کرے، عبادت کرے غرض ہر وہ کام کرے جس کا حکم دیا جائے۔ خواتین کو کامیابی حاصل کرنے کیلئے صرف ایک جھٹکا چاہئے جو اسے دن رات دیا جاتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس جھٹکے کو اپنا حق سمجھ کر وصول کرنے کی بجائے چیلنج سمجھ کر قبول کرنے والی بہت کم ہوتی ہیں۔ ایسی ہی دو مثالیں پیش ہیں ایک پاکستان سے اور ایک بھارت سے۔
منیبہ مزاری ہمت کے اس مینار کا نام ہے جو آج نور سے منور ہے مگر کبھی وہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبی اکیس سالہ لڑکی ہسپتال کے بستر پہ کسی معجزے کی منتظر تھی۔ اس کا سایہ بن کر ساتھ رہنے والا اسے معذور پا کر ساتھ چھوڑ گیا۔ اس کے پاس درد کو بیان کرنے کیلئے کوئی فورم نہ تھا تو اس نے کینوس کو چن لیا۔ وہ چل نہیں سکتی تھی مگر وہ اڑنے لگی۔ اس نے آنسو بہانے کے بجائے قوس و قزح کے ساتھ کھیلنا شروع کیا۔ دنیا پیچھے رہ گئی اور وہ آگے نکل گئی۔ آج ویل چیئر پہ بیٹھی اسی معذور لڑکی کے ساتھ سیلفی کھنچوانے والے بہت ہیں کیونکہ وہ حسین لڑکی جسمانی معذور ہے۔ اس معاشرے کی طرح اخلاقی معذور نہیں۔
گیتا ٹنڈن کی شادی 15 سال کی عمر میں ایک بڑی عمر کے مرد کے ساتھ کر دی گئی۔ مرد ہاں مرد۔ کیونکہ وہ گیتا کو مار پیٹ کر بھی جب تسلی نہ پاتا تو اس کی ماں کی جانب سے فرمان آتا۔ تو کیا ہیجڑا ہے جو تجھ سے ایک عورت قابو نہیں آتی؟ جا جا کر اس کے کپڑے پھاڑ۔ میریٹل ریپ اور وحشیانہ تشدد کا شکار گیتا جب گھر سے نکلی تو اس مرد نے کہا۔ کہاں جائے گی؟ یا تو جسم فروشی کرے گی یا واپس یہیں آئیگی۔ اور یہی وہ لمحہ تھا جب ان پڑھ گیتا نے خود سے وعدہ کیا کہ وہ ان دونوں میں سے کچھ نہیں کرے گی۔ وہ بے آسرا لڑکی آج بالی ووڈ کی نمبر 1 اسٹنٹ وومن ہے۔ وہ بلند و بالا عمارت سے کودتی ہے تو کترینہ دکھائی دیتی ہے، آگ سے گزرتی ہے تو دپیکا۔ اس کی ہمت اور اس کی جرات کے آگے ’مرد‘ بھی نہیں ٹک پاتے اور آج جب اسے کوئی ایوارڈ دیا جاتا ہے یا جب وہ ریمپ پہ چلتی ہے تو اس کے ہر قدم کی خوداعتمادی اس کی زندگی میں آئے برے کرداروں کو کہیں بہت نیچے پاتال میں بھیجتی ہے۔
یہ دو مثالیں دو الگ الگ ممالک سے اس لئے دی گئیں کیونکہ ان دونوں ممالک کے ناظرین ہم ہیں۔ ہمیں میڈیا میں دکھایا جاتا ہے کہ حالات بدل گئے، عورت آگے نکل گئی، آج دنیا اس کے لئے محفوظ ہو گئی مگر نہیں۔ دہلی میں نربھایا اور کراچی میں طوبیٰ کے ساتھ جو ہوا وہ اہل درد کا دل دہلا دینے کیلئے کافی تھا۔ ہم نے کبھی اپنے بچوں کو محفوظ کرنے کا سوچا ہوتا، اس ضمن میں سنجیدہ ہوتے تو ہمارے جوان بھی محفوظ ہو جاتے مکاری، فحاشی اور زنا۔ سب سے۔ خواتین کے عالمی دن کا چرچا ہوا۔ خوب ہوا۔ اگلے ہی دن اعلیٰ ایوان میں ٹھینگا دکھا دیا بڑے لوگوں نے کہ یہ ہے خواتین کی عزت اور ہم نے اتنا محفوظ رکھا ہے انہیں۔ ابھی ابھی وہاڑی کی طرف کا ٹکر پڑھا ہے کہ ایک شوہر نے کلہاڑی کے وار کر کے بیوی کو مار ڈالا۔ چلو یہ بھی خوب ہینگ اوور اترا یوم خواتین کا۔ ابھی سوشل میڈیا پہ ہر طرف سے آئے گالیوں کے طوفان میں بھی ’ماں‘ اور’بہن‘ کو اعزاز بخشا جا رہا ہے۔ یہ بھی سہی ’بااختیار‘ بنایا جا رہا ہے۔
قصہ المختصر کہ ہم ان سیاستدانوں سے توقع رکھ رہے ہیں کہ وہ ماں، بہن، بیٹی کو بخش دیں جبکہ ہم گھر میں موجود بچوں کے سامنے کرکٹ میں کیچ چھوٹ جانے پر بھی ’اس کی بہن کی….‘ سے کم بات نہیں کرتے۔ بڑوں سے امیدیں لگا لیں اور بچوں کو تربیت نہ دی۔ عیب لگانا پسندیدہ مشغلہ اور بغیر تنقید کے تہمتوں کو آگے بڑھانا عادت ہے پورا سال مگر ایک دن ہم میں خوب جوش بھر جاتا ہے۔ میری نظر میں اس کا حل صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ مائیں اپنے بیٹوں کی تربیت شروع کر دیں۔ بچپن کا علم پتھر پہ لکیر ہوتا ہے۔ جب انہیں یہ سکھا دیا جائیگا کہ عزت صرف گھر کی نہیں بلکہ باہر کی خواتین کا بھی حق ہے تو خود بخود معاشرے میں عورت کو اس کا مقام مل جائیگا۔ گیتا اور منیبہ دونوں نے اس منافق معاشرے کی روایتوں کی پاسداری نہ کر کے بغاوت کی۔ انہوں نے اپنی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے کسی مرد کا انتظار نہیں کیا بلکہ خود پہ بھروسہ کیا۔ یہ ہم سب کے لئے ایک مثال ہے کہ عورت کو صرف آسمان چاہئے۔ پرواز کا تعین، آشیانے کا تحفظ اور کامیابی کا حصول اس کے اندر بھرپور موجود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).