علامہ مرغ اصیل کا خطبہ ٹولنٹن مارکیٹ


 \"salahاس خطبہ میں علامہ مرغ اصیل نے آگاہ کیا کہ اگرچہ مارکیٹ میں سینکڑوں ڈربے ہیں لیکن مرغان پاکیزہ ”نعرہِ ککڑاں“ کے ناطے وحدت کے رشتے میں پرو دیئے گئے ہیں۔ اس وقت ایک برائیلر سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ برائیلران عظام سیمرغ کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بعد کے ادوار میں ان کے آباؤ اجداد نے ہجرت کی تو شتر مرغ قرار پائے۔ سو یوں سمجھ لیں کہ برائیلر ایک چھوٹا سا شتر مرغ اور شتر مرغ ایک بڑا سا برائیلر ہے۔ المیہ یہ ہے کہ عصرِ حاضر برائیلر کی کلغی کے حیات آفریں پیغام کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ باز، بوم، زاغ، نوغن، کُونج، لم ڈھینگ، تیہوگِدھ، مرغ سلیمان نہیں جانتے کہ پرندے کی زندگی کا اصل امتحان تو مقام مذبح ہے۔ روح برائیلر زندہ ہو تو کلغی بلند ہو کر پختہ تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ اور ضبط ککڑوں کوں سے مقامات کلغی کے اسرار و رموز خود بخود منکشف ہوتے چلے جاتے ہیں اور جانبازانِ ڈربہ اپنے پوٹوں کی باڑھ بنا کر وحدت برائیلر کے پیغام کی تفسیر بن کر ڈرم کی گزرگاہوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ (نعرہ ہائے ککڑوں کوں….) مذبح ہے مطلوب و مقصودِ برائیلر….

برائیلران کرام! ڈربے میں جگہ کی کمی کو بہانہ نہ بنائیں بلکہ پوٹوں کے گداز سے اس طرح قریب آ جائیں اس طرح گم ہو جائیں جیسے دریا میں قطرہ گم ہو جاتا ہے۔ نگاہ نیچی رکھیں، بانگ میں دلنوازی، کلیجی پوٹے میں دلسوزی۔ آج کے خطبے کا اصل مدعا یہ ہے کہ وحدت برائیلر کی فکری تحریک کو عملی تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔ سو یہ تجویز پیش کی جاتی ہے کہ تمام ڈربوں کو اندرونی سلاخیں ہٹا کر ”متحدہ برائیلر ڈربہ جات“ قرار دیا جائے۔ تمام ڈربوں کو ایک باطنی نظام سے ہم آہنگ کرنے سے وحدت کا حصول ممکن ہے۔ لیکن جدوجہد کا اصل مقصد تو وحدتِ برائیلر ہے نہ کہ وحدتِ ڈربہ۔ فصیح المرغ مرغ زادہ ٹرکی تو دیسی اور دیگر مرغان کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ لیکن وہ خود روحِ برائیلر سے سرشار نہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ جب ڈربوں کی اندرونی دیواروں کو ہٹا دیا جائے گا تو پیارے پیارے برائیلرپوٹوں کے سوز، گداز کے باعث اور قریب آ جائیں گے۔ اور یوں مقامِ مذبح سے مزید آشنائی کا ولولہ پروان چڑھے گا۔ یہ جذبہ، ولولہ کمزور ہو تو اتحاد بین البرائیلر تحریک کیوں کر فروغ پا سکتی ہے۔ ”رزق ہلال“ کی آگہی، شعور کے بغیر تو برائیلر طبعی یا حرام موت سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔ روحِ برائیلر مقامِ مذبح کی تفہیم کا دوسرا نام ہے۔ (نعرہ ہائے ککڑوں کوں….) اور تم غور کرو۔ ککڑوں کوں کی حقیقت کیا ہے؟ سو یہ تو چھری پھرنے کے بعد تڑپنے پھڑکنے کی تعسیر و حکایت ہے۔ یہ چرغہ، چکن پیس تو بے معنی مادی وجود ہیں۔ روحِ برائیلر ہی پرندے کی زندگی کی معراج ہے۔ اس راستے پر ڈربہ مکاں ہے اور مکاں فانی ہے۔ پھر ڈرم کا مرحلہ آتا ہے۔ جو کہ زماں ہے اے برائیلر: ڈربے کی گُتھیاں نہ سلجھاؤ ۔ بلکہ مکاں سے زماں کی جانب سفر جاری رکھو۔ یہ جان لو کہ ہر برائیلر نے ڈرم کی گزرگاہ پر جانا ہے۔ لیکن چھری کی لذت سے آشنائی کے بغیر اس راہ پر سفر ممکن نہیں جب کوئی پُراسرار ہاتھ تمہیں ڈربے سے ڈرم کی جانب سفر کے لیے منتخب کرے تو نعرہ ککڑوں کوں کو اپنے پوٹے میں تھام لو اور پھر جذبہ کڑکڑاہٹ کو کلغی کی جانب لے جاؤ۔ اس مرحلے پر تمہاری کلغی فولاد بن جائے گی۔ یہ کلغی ہی تو مقام ککڑوں کی لذت سے آشنائی ہے۔ جس مرغے میں جذبہ ککڑوں کوں نہ ہو وہ کلغی بلند نہیں کر سکتا۔ کلغی بلند ہونے پر برائیلر چھری سے ٹکرا جائے تو چھری فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہے۔ اور برائیلر رزق ہلال کی لذت سے آشنا ہو کر مقام مذبح سے گزر جاتا ہے۔

اے برائیلر! تم نے کبھی غور کیا ہے کہ رزق ہلال کی چونچ پر کیسا نور برس رہا ہوتا ہے؟ میرے مجموعہ ہائے کلام ”پیامِ مذبح“، ”ضربِ چوزہ“، ”کاروانِ برائیلر“ میں مقام مذبح سے آشنائی کے لیے کلغی کی تشریح کر دی گئی ہے۔ (اس مرحلے پر ڈربة العلوم کے مرغ زادہ ٹرکی تشریف لے آئے تو امیر البرئیلران علامہ مرغ اصیل اپنی نشست سے کھسک کر آ گے بڑھے اور ڈربہ شگاف کڑکڑاہٹوں، کٹ کٹاہٹوں سے ڈربہ گونج اٹھا) الچوزہ کے جانبازوں نے پوٹوں کی فصیل بنا کر انہیں گھیرے میں لے لیا۔ اور ایک مرحلے پر علامہ مرغ اصیل سوز و گداز، اور وجد و مستی کی کیفیات میں ڈوب گئے۔

علامہ مرغِ اصیل نے مقامِ مذبح کی وضاحت کرتے ہوئے مرغان پاکیزہ کو آگاہ کیا کہ روحِ مرغ جب کاتی سے نبرد آزما ہوتی ہے تو اس حد پر برائیلر زمان و مکاں کی حدود سے تجاوز ہو جاتا ہے اور کلغی خود ماورائے ڈربہ مقاصد کی تخلیق کرتی ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جب چوزہ ”فوق المرغ“ کے منصب پر فائز ہو جاتا ہے۔ (نعرہ ہائے ککڑوں کوں….) فوق المرغ کی کلغی کاتی پر حاوی ہو جاتی ہے ظاہر ہے کہ کلغی کی پختگی ایک طویل ریاضت کے بغیر ممکن نہیں۔ فی زمانہ تو ہر محلے میں انکوبیٹر ماڈل پولٹری فارم بنا دیئے گئے ہیں۔ لیکن کلغی کی پختگی کا عمل تو اسی وقت شروع ہو جاتا ہے جب مرغِ پاکیزہ انڈے کی دیواروں سے ٹکراتا ہے۔ لیکن برائیلر العلوم کا اصل موضوع، محور تو وحدت کا حصول ہے۔ ہمارے پیش نظر ایک منزل ہے اور اس کی سمت نمائی کے لیے ایک کلغی ہے۔ ہمارے سینے جذبہ ککڑوں کوں سے سرشار ہیں لیکن پنجوں کو آزمانے سے ڈربے میں راستہ نہیں ملتا۔ اس راستے پر چلنے سے منزل گنوا بیٹھو گے۔ بس اپنے پوٹوں میں اس جذبے کو مضبوطی سے تھام لو، ایک دوسرے کلغیوں ، منقاروں اور ان کے نیچے لٹکتے گوشت کے گچھوں اور پروں کی وحدت ، رنگت پر غور کرو تو تم جان جاؤ گے کہ مقامات مذبح سے آشنائی ہی اصل راستہ ہے۔ یہ بات بخوبی سمجھ لینی چاہیے کہ مرغ پاکیزہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس کے نفاذ کے لیے ڈربة العلوم ایک قلعہ ہے۔ جب برائیلر چھری کے ناطے جام شقاوت نوش کرتا ہے تو روحِ بریلر زمان، مکاں کو مغلوب کر لیتی ہے۔ اطاعتِ قانون ڈربہ کو پیش نظر رکھ کر برائیلر ماورائے مذبح مقاصد تخلیق کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments