پاکستان سے اتنی نفرت کیوں؟


ایک عمر راول پنڈی شہر کی نذر ہوئی، ایک عمر لاہور میں بیت گئی۔ ایک بار کسی عزیز نے پوچھا، نگری نگری گھومے ہو، کون سا شہر پسند آیا۔ میرا عزیز جواب سوچے بیٹھا تھا، کہ میں لاہور کا نام لوں گا، کیوں کہ وہ لاہور سے میری انسیت سے خوب واقف تھا۔ میں نے اس کے سوال کے جواب میں کراچی کا نام لیا، تو وہ حیران رہ گیا۔ آپ اتفاق کریں یا نہ کریں، کراچی ایک لت کا نام ہے۔ یہاں کی فضاؤں میں زندگی رچی بسی ہے۔ کراچی کے بدن پر کیا کیا ستم نہ ڈھائے گئے، لسان کے نام پر جھگڑے ہوئے، فرقہ واریت کے نام پر لہو بہایا گیا، باز پھر بھی نہ آئے۔ یہ شہر پھر بھی زندہ ہے۔ آدم کے تعصبات کا زہر پی پی کر بھی زندہ ہے، بیمار ہوتا ہے، شفا یاب ہو جاتا ہے۔ کیا جادو ہے اس میں، یہ بتانا مشکل ہے۔ جادو کو بیان کیا جا سکے تو وہ جادو ہی کیوں کہلائے۔

شوبز انڈسٹری میں میرے اولین اساتذہ میں ایک کا نام جمال شاہ ہے۔ وہ اسلام آباد میں ”ہنر کدہ“ کے نام سے آرٹ سکول چلاتے ہیں۔ پاکستانیی انہیں اداکار کے طور ہر جانتے ہیں، لیکن وہ بہ ترین مصور اور مجسمہ ساز ہیں۔ پاکستان سے باہر ان کا یہی تعارف مضبوط ہے۔ نوے کی دہائی میں جمال شاہ ایک ڈراما بنا رہے تھے، میں بھی اسی ٹیم کا حصہ تھا۔ ایک دن بلوچستان سے آئے ایک اداکار کو یہ بات بری لگی کہ مجھے توجہ دی گئی ہے، اور اس نے پنجابیوں کی صفات گنوانا شروع کر دیں۔ ایسے کم ظرفوں کے نام یاد رکھنے کی ضرورت نہیں؛ جمال شاہ کا تعلق بھی کوئٹہ سے ہے، لیکن وہ تعصب نام کی شے سے بے نیاز ہیں، اور پھر میرا دوست اداکار حمید شیخ وہ بھی تو کوئٹہ سے ہے۔

2010۔ 11ء میں لگ بھگ ڈیڑھ سال کوئٹہ میں رہا۔ پہلی بار حمید شیخ سے ملاقات کرنے پہنچا، تو اس نے خوب سنائیں، میری سکونت سمنگلی ایئر بیس تھی وہاں سے سوئی گیس کے دفتر تک زیادہ فاصلہ نہیں ہے، جہاں حمید شیخ کا گھر تھا۔ مجھے پینٹ شرٹ میں دیکھ کر کہا، ایک تو تم پنجابی اور دوسرا جہاں سے آ رہے ہو، یہ دونوں حوالے خطرناک ہیں؛ محتاط رہو، اور شلوار قمیص پہن کر نکلا کرو۔ انہی دنوں چار جوڑے شلوار قمیص سلوائے، جب جب بازار جانا ہوتا شلوار قمیص استری کرنے کا عذاب جھیلتا۔

انسٹی ٹیوٹ آف سرامکس گجرات میں کبھی غیر پنجابیوں کی تعلیم کا کوٹا ہوا کرتا تھا، اب کا نہیں معلوم ہے یا نہیں۔ وہاں میرے ساتھ پختونن طالب علم بھی تھے، اور سانگھڑ کا ایک سندھی بھی یاد ہے۔ پنجاب میں بیٹھ کر پنجاب سے وظیفہ لے کر تعلیم حاصل کرنے والے میرے یہ دوست پنجاب کو برا بھلا کہتے تھے، اور ہم مسکراتے رہتے تھے۔ دوستوں کی بات پر مسکرایا ہی جا سکتا ہے، اور کیا جواب دیا جائے۔ انھوں نے مجھ سے کیا سیکھا، یہ وہی بتا سکیں گے، لیکن میں نے ان سے پشتو زبان کے چار حروف سیکھ لیے۔ فورٹ ٹائلز حیات آباد پشاور کا دورہ کرتے انھی دوستوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ان فیکٹریوں میں پنجابی ملازمت کرتے ہیں؛ ہم تعلیم مکمل کرتے ہی، ان پنجابیوں کو نکال باہر کریں گے۔ ان میں صوابی سے تعلق رکھنے والا ایک دوست بھی تھا، جو تبلیغی دوروں پر جاتا تھا۔ امت کو یک جا کرنے کے خواب دیکھنے والے جب قومی تعصبات کا شکار ہوں تو ٹھٹھا کیوں نہ اڑایا جائے۔

کوئٹہ کی یادوں میں سے یوں تو بہت سے واقعات ہیں، جنھیں بیان کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ بسوں سے اتار کر مار دیے جانا؛ غالبا چودہ اگست دو ہزار گیارہ کی بات ہے، کوئٹہ شہر میں رنگ روغن کرنے والے مزدورں کو محض اس لیے قتل کر دیا گیا کہ ان کا تعلق صوبہ پنجاب سے تھا۔ مارنے سے پہلے مقتولوں سے پوچھ لیا جاتا تو شاید بتاتے وہ پنجابی نہیں ہیں، انھیں سرائیکی کہا جائے۔ اس سانحے کے وقت میں کوئٹہ میں تھا، اور گھنٹوں سوچتا رہا، کہ بزدلوں کا زور ان بے بسوں ہی پر چلتا ہے، جو مزدوری کے لیے اپنا گاؤں چھوڑ کر آتے ہیں۔

ان دنوں حیدر عباس رضوی کا یہ بیان رکارڈ پر ہے، کہ بلوچستان سے ایک لاکھ پنجابی خاندانوں کو ہجرت کرنا پڑی۔ ان میں سے بیش تر وہ تھے، جو تقسیم پاکستان سے وہاں آباد تھے۔ میں نے کوئٹہ میں رہنے کے لیے جو چار جوڑے شلوار قمیص سلوائے تھے، ان میں سے دو جوڑے بانٹ دیے ہیں، ایک گم ہو چکا، ایک آج بھی میری الماری میں ٹنگا ہے، اگر کسی کو ضرورت ہو، آئے اور لے جائے، ایک تو مجھے شلوار قمیص پہننا پسند نہیں، دوسرا یہ کہ اب میں کراچی میں رہتا ہوں اور دو اڑھائی سال ہونے کو آئے یہاں امن ہے۔ یہاں شلوار قمیص، پینٹ کا امتیاز اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب لسانی فسادات ہوں۔ پینٹ پہننے والا مہاجر اور شلوار قمیص میں ملبوس پٹھان شمار ہوتا ہے۔ یہ خطرہ بھی تب ہوتا ہے، جب آپ ان علاقوں میں ہوں جہاں شورش ہے۔

ٹیلی ویژن پروڈیوسر کی ذمہ داریاں کیا ہیں، ان میں سے اساتذہ سے ایک سبق یہ سیکھا، کہ حالات کیسے بھی ہوں، show must go on۔ کراچی 2008ء کے ہنگاموں کا ذکر ہے، میں کورنگی سے سائٹ ایریا کے لیے جا رہا تھا، جہاں اے آر وائے نیوز کا دفتر ہے۔ ڈیفنس موڑ پر ایک پختون جوان سراسیمہ دکھائی دیا۔ ہنگامے کی وجہ سے بسیں اپنا روٹ پورا نہیں کر رہی تھیں، مزدو طبقے کے اس پختون کو جس علاقے سے گذرنا تھا، وہ مہاجروں کا علاقہ تھا۔ میں نے اسے حوصلہ دیتے کہا کہ مجھے ٹیکسی لینی ہے وہ میرے ساتھ ہولے۔ اس نے انکار کر دیا، کیوں کہ ایک دوسرے سے اعتماد اٹھ جائے تبھی تو انارکی پھیلتی ہے۔ ایسے میں اس نے بڑے دکھ سے کہا، وہ کراچی میں پیدا ہوا ہے، لیکن ابھی تک اس دیس میں اجنبی ہے۔ مجھے شرمندگی محسوس ہوئی، میں پینٹ شرٹ میں ملبوس تھا، اور میں ہی وہ مہاجر تھا جو اسے قتل کرنا چاہتا ہے۔

کراچی میں مہاجر کہلانے والے ایک دوست کے ساتھ کار میں بیٹھا محو سفر تھا، فرنٹ سیٹ پر دوست کی اہلیہ تشریف فرما تھیں۔ دو تلوار کےے پاس ایک دوسری کار خطرناک طریقے سے موڑ کاٹ کر گذری۔ حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ دوست کی زبان سے بے اختیار نکلا، ”سندھی ہوگا سالا۔ “ میں نے اور ان کی اہلیہ نے ایک ساتھ احتجاج کیا، کہ اتنی گری ہوئی بات کیوں کی۔ جواب ملا کہ یہ دیہات سے اٹھ کر آ جاتے ہیں، تمیز نہیں ہے، سڑک پر کیسے چلنا ہے۔ ان کی اہلیہ بھی مہاجر کہلائی جا سکتی ہیں، لیکن راول پنڈی میں پلی بڑھی ہیں، اس لیے مہاجر بھی انھیں مہاجر نہ مانیں۔ پھر میں نے اور موصوفہ نے اپنے دوست کا جو حشر کیا، اس کا بیان یہاں ضروری نہیں۔

ایک سندھی دوست سینیٹر کے بھائی ہیں، ان کے بھائی اس وقت سندھ صوبائی اسمبلی کے رکن ہیں۔ ایک بار فرمانے لگے، ہم چاہتے ہیںں سرائیکی صوبہ بنے، کیوں کہ پنجاب نے سرائیکیوں سے نا انصافی کی ہے۔ اسی طرح ہزارہ صوبہ کے حق میں دلائل دینے لگے۔ میں نے کہا، ایک ہی صوبہ کیوں؟ میرا خیال ہے، پنجاب میں تین صوبے بننے کی گنجائش ہے؛ وہ بہت خوش ہوے، لیکن جب میں نے کہا، کراچی حیدر آباد بھی ایک صوبہ ہو جائے تو کیا حرج ہے، تو برہم ہو گئے، کہ ہم سندھ کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔ میں نے کہا، جب آپ پنجاب کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں، تو سندھ کی تقسیم پر کیوں برافروختہ ہوتے ہیں؟ بہت دیر تک انھیں چپ لگی رہی۔

سندھ صوبائی حکومت پر اندرون سندھ کے سیاست دانوں کا تسلط ہے؛ یہ کراچی میں ترقیاتی کام کریں بھی تو ووٹ بنک نہیں بڑھتا، سو کوئیی دو ماہ ہوئے شاہ راہ فیصل کی ادھڑتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ ادھر یونیورسٹی روڈ کی سڑکوں کا نشان باقی نہیں رہا، گٹروں کے پانی نے ان گڑھوں کو بھر دیا ہے۔ شہر کچرا کنڈی بنا ہوا ہے۔ مستزاد یہ کہ پنجاب سے خبریں آتی ہیں، اِس شہر میں میٹرو بس کا روٹ بن گیا، اس شہر میں میٹرو بس کا افتتاح ہوا۔ ایک دوست کہنے لگے، پنجاب حکومت کی ترجیح غلط ہے، یہ میٹرو ویٹرو ناکام منصوبے ہیں، پہلی ترجیح غربت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ میں نے اعتراف کیا آپ درست کہتے ہیں، یہاں کراچی میں تو کوئی میٹرو نہیں بنی، تو کیوں نہ غربت ختم کی گئی؟ اس بات کا کوئی جواب نہ ملا۔

ایسا ہی منظر میں گزشتہ سال دیکھ چکا جب ایبٹ آباد مانسہرہ کے بیچ میں چھبیس کلومیٹر کا سفر چار چار گھنٹوں میں طے کرتا آیا، کیوں کہ سڑک اتنی تنگ ہے، کہ روز ٹریفک جام ہو جاتی ہے؛ وہاں ہسپتالوں کا بھی ایسا احوال نہیں دیکھا کہ داد دی جاسکے۔ ان سب محرومیوں کی ذمہ داری پنجابیوں پر ہے۔ یہاں صوبائی حکومتیں پنجابیوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ پیپلز پارٹی کے منتخب پنجابی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ملتان کو پلوں کا شہر بنا دیا، لیکن پیپلز پارٹی کے منتخب سندھی صدر نے لاڑکانہ اور نواب شاہ کو کتنی ترقی دی، یہ لاڑکانہ اور نواب شاہ کے شہری بتا سکیں گے۔ شاید ان باتوں سے لگے کہ شہباز شریف کی کارکردگی کی توصیف کی جا رہی ہے، لیکن نہیں یہ پنجابی کی داستان ہے۔ پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی نے جو کام کیے، وہ کسی طرح کم نہ تھے۔

کبھی وہ زمانہ تھا، جب فلم انڈسٹری لاہور میں تھی۔ محمد علی، غلام محی الدین، نذیر بیگ عرف ندیم، شبنم، روبن گھوش، زیبا، بابرہ شریف، اظہار قاضی، یوسف خان، اسماعیل شاہ، بدر منیر، لالہ سدھیر اور سیکڑوں نام ہیں، جن کا تعلق پنجاب سے نہیں تھا، لیکن لاہور میں انھیں غیر پنجابی ہونے کے طعنے نہیں دیے گئے۔ آج کراچی ٹیلے ویژن پروگرام پروڈکشن کا گڑھ ہے، یہاں پنجابیوں کے لیے ”لاہوریے“ جیسی اصطلاح محبت میں نہیں گھڑی گئی۔ کبھی نیوز چینل کے پروگراموں پر غور کیجیے، پنجاب کا واقعہ ہو، تو ہر کوئی تبصرہ کرنے اٹھ کھڑا ہوگا، کہ پنجاب میں یہ ہوا، وہ ہوا۔

یہ ہر پاکستانی کا حق ہے، کہ وہ پاکستان کے مسائل پر گفت گو کرے، لیکن کراچی کے واقعے پر پنجاب سے آواز آئے تو سیدھا جواب دیا جائے گا، کراچی سے باہر بیٹھ کر کراچی کے مسائل کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ گویا پنجاب سے باہر بیٹھ کر پنجاب کو سمجھ لیا گیا ہے۔ تعصب کے لیے کسی دلیل کی کیا ضرورت۔ کرکٹ تو پاکستانیوں کا پسندیدہ ترین موضوع ہے۔ حالت یہ ہے، پاکستانی کرکٹ ٹیم میں کراچی کے کھلاڑی کم ہوں، تو شور مچ جاتا ہے، حتا کہ جب تک کپتان کراچی سے نہ ہو، کراچی کے میڈیا کے بزرجمہروں کو چین نہیں پڑتا۔ کبھی کبھی دل کرتا ہے مطالبہ کر دیا جائے، پاکستانی فٹ بال ٹیم میں پنجاب کا کوٹا رکھا جائے، یہ کیا کہ لیاری کی ٹیم ہی پاکستان کی ٹیم کہلاتی ہے۔ پھر شکر ادا کرتا ہوں، فٹ بال کی ٹیم پنجاب کی نہیں، ورنہ پنجاب فٹ بال ٹیم کہلاتی۔

حالیہ دہشت گردی کی لہر کے بعد سے یہ شور و غوغا ہے، کہ پنجاب میں پختون کو شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ جی بالکل ایسا ہی ہو رہا ہوگا، کہ چائے کے کھوکھوں سے لے کر، ٹرانسپورٹ تک کے کاروبار میں خیبر سے کراچی تک انھی کا راج ہے۔ ذات پات میں بٹے اس معاشرے میں بوٹ پالش کرنے والے پختون کو بھی خان صاحب کہ کر بلایا جاتا ہے، لیکن ایک انتظامی مسئلے کو پنجابیوں کا تعصب کہا جائے تو کہیے۔ پنجابیوں نے تمام عمر لاشیں اٹھانے کی قسم تو نہیں کھائی۔ جب وہ ایسا نہیں بھی کرتے تھے تو آپ نے کب ان پر انگلی نہ اٹھائی۔ پھر انھوں نے ایسا کوئی عہد بھی نہیں کیا، کہ جب جب کسی سکندر مقدونی، کسی محمود غزنوی کا جی چاہے انھیں لوٹنے آ جائے، اور وہ سلامی پیش کرتے رہیں۔

مجھے پاکستانی ہونے کا سبق جس نے بھی پڑھایا تھا، وہ معافی کے قابل نہیں، میں اس سبق کو بھول جانا چاہتا ہو۔ کیوں کہ مجھے تو ہر جگہ یہی بتایا گیا، کہ میں پنجابی ہوں، گر چہ اب میں یہ وضاحت کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتا کہ میں نسلا پنجابی نہیں ہوں۔ ہاں یہ ہے کہ صرف پنجاب ہی ایسا خطہ ہے جہاں مجھے کسی اور صوبے کا طعنہ نہیں ملتا، تو پھر میں پنجابی ہوں۔ یہاں پاکستانی کون ہے، وہ جو اخبار میں کالم لکھتا ہے، محبت بھائی چارے کا درس دیتا ہے، لیکن نجی محفلوں میں وہ ایسے ہی واقعات دہراتا ہے، جیسے میں نے لکھے ہیں۔ بس ان واقعات میں سب کا اپنا اپنا ورژن ہے۔

مجھے کوئٹہ سے محبت ہے، وہاں میرا دوست حمید شیخ رہتا ہے۔ میرے استاد کا تعلق بھی اسی مقدس شہر سے ہے، جو اب اسلام آباد میں درس دیتے ہیں۔ مجھے پشاور سے انس ہے، جہاں سے میری ممانی کا تعلق ہے۔ مجھے مانسہرہ کیوں پسند نہ ہو، کہ میری ماں کا دیس ہے۔ مجھے کوہاٹ نہیں بھولتا کہ میری تیسری محبت وہیں رہتی ہے۔ (آہ! نہ جانے اب وہ کتنے بچوں کی ماں ہوگی) میں نے تھر نہیں دیکھا، لیکن تھر دیکھنے کی تمنا ہے، کہ پنجاب کی تقسیم کا متمنی میرا دوست وہیں کا رہنے والا ہے۔ مجھے کراچی نہیں چھوڑنا کہ مجھے اس کمینے دوست سے دوری قبول نہیں، جو مجھے پنجابی کہ کر پکارتا ہے، اور میں اسے بہاری کہ کر بلاتا ہوں، پھر ہم دونوں بغل گیر ہو جاتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا، ہمیں پاکستان سے اتنی نفرت کیوں ہے، کہ ہم سندھی پختون بلوچ پنجابی تو بن بیٹھے، پاکستانی ہونا گوارا نہیں۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran