فیروز سنز، کتابوں کی دکان اور جنگل کا راستہ


سکول کے دنوں میں امتحانی نتائج کے دن کا بے چینی سے انتظار ہوتا۔ اب خامخواہ خاکساری  کیوں دکھائیں۔ الحمدللہ، ایسے اچھے اساتذہ سے فیض حاصل تھا کہ بہرحال پاس ہو جاتے تھے۔ تو دوستو، انتظار اب اس بات کا ہوتا تھا کہ کب ابو شام کو گھر آئیں اورحسب وعدہ شام کو مجھے فیروز سنز لے جا کر ناول دلوائیں! بس، شام پانچ بجے ابا مجھے لے کرگھر سے نکلتے۔ شاہ عالمی سے لوہاری گیٹ تک پیدل اور پھر وہاں سے 27 نمبر ویگن کے ذریعے ریگل چوک۔ وہاں سے چیرنگ کراس تک واک! آپ یقین نہیں کر سکتے، اس سفر کا دورانیہ میرے مطابق چاند پر جانے جیسا لمبا تھا۔ بہرحال فیروز سنز کا نخلستان آ جاتا اور پھر رقص میں سارا جنگل ہوتا۔ تعلیم و تربیت کے شمارے، اے۔ حمید صاحب کے تھرلر ناول، سعید لخت صاحب کی چٹ پٹی کہانیاں، سلیم گمی صاحب کے شمالی علاقہ جات پر مبنی ایڈونچرز۔ اور فیروز سنز میں بسی ہوئی کتابوں کی جادوئی مہک۔ دکان بند ہونے کے وقت نہایت صبر و متانت سے ہمارا انتظار کرتے وہاں کے سٹاف ممبران ۔۔۔ کہ وہ دنیا ہی اور تھی۔

پھر وہ ناول گھر آ جاتے۔ اندرون شہر لاہور میں زیادہ تر آبادی جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتی ہے۔ الحمدللہ، ہمیں یہ نعمت بھی میسر رہی ہے۔ لیکن اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ مطالعہ کے واسطے الگ کمرہ ملنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن ناول کا مزہ تو رات کو پڑھنے میں ہے۔ باورچی خانہ ہی واحد جگہ تھی جہاں بلب بھی رات بھر روشن رہتا تھا اور ہماری آنکھیں بھی۔ گرمی کچھ نہیں کہتی تھی۔ چڑیلوں کا خوف غائب ہو جاتا۔ ناک کی نوک سے ٹپکتے پسینے کے قطروں سے بس اتنی ہی شکایت تھی کہ کتاب سے دور رہیں۔

کچھ بڑے ہوئے کہ خود کتاب خریدنے جا سکیں تو دو نئی باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک تو اقتصادیات کہ جب تک ابا کتابیں دلواتے تھے تب تک پہلا صفحہ پلٹ کر قیمت جاننے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ خیر۔۔۔۔ دوسری اس سے متصل یہ کہ پرانی کتابیں، انارکلی بازار کے قریب سے سستی مل جاتی ہیں۔ فیروز سنز جانا کم ہو گیا لیکن عقیدت میں کمی نہ آئی۔ وہاں سے گزرتے ہوئے نظریں اس محبوب سائن بورڈ کو سلام پیش کرتیں۔

سنا ہے یہ دکان بند ہو رہی ہے۔ وجہ معلوم نہیں۔ بس نہ جانے کیوں کچھ دن پہلے کا سانحہ چیرنگ کراس یاد آگیا۔ ٹی وی پر فوٹیج میں دکھایا گیا کہ سہولت کار بھی حملہ آور کو ریگل چوک سے چیرنگ کراس تک چھوڑنے آیا تھا۔ اسی ریگل چوک کے، 27 نمبر بس کے سٹاپ سے یہی رستہ فیروز سنز بھی تو جاتا ہے۔ بے شک جنگل سے دو رستے نکلتے ہیں۔ لیکن، یہ فیروز سنزکا رستہ ختم نہیں ہونا چاہیے۔ ہم سب کو اس کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).