غیر متوازن میڈیا کا بگڑا ہوا کردار


دہلی میں تیزی سے بادشاہت بدل رہی تھی، جس کے اثرات عوام کی زندگیوں پر مرتب ہو رہے تھے۔ لوگوں میں انتشار، افراتفری اور ذاتی مفاد پیدا ہوگیا تھا۔ ایرانی اور تورانی امرأ ایک دوسرے سے دست وگریباں تھے۔ اکابرین اور خود بادشاہ بھی معاشرتی اور اخلاقی برائیوں میں مبتلا تھے۔ ہرشخص اپنے کھوکھلے پن کو چھپانے کے لیےفضول خرچی کا شکار تھا۔ سارے معاشرے کے دو رخ قائم ہوگئے تھے۔ ہربات کےدو ر رخ اور دو معنی نظرآرہےتھے۔ اس معاشرے میں وہی بات کامیاب تھی جس کے دو رخ تھے۔ امرأ دربار میں بادشاہ کی محبت کادم بھرتےتھے اور دربار سے باہر باغیوں کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ چنانچہ اس دوغلے پن کا اثر ادب پر بھی پڑا اور اس طرح ادب کی ایک نئی صنف ایہام گوئی کا آغاز ہوگیا۔ ایہام گوئی کا انداز یہی تھا کہ دکھائیں دایاں اور لگائیں بایاں اور یہ تب ہوتا ہے کہ ”جب تفریح کی صحبت میں تمسخر اور ظرافت کے بھانڈ آجائیں“۔

اس دوغلے پن کو اگر موجودہ ماحول میں دیکھیں تو میڈیا پر آنےوالے ٹاک شوز اس کاثبوت ہیں۔ جس طرح ان پروگراموں میں ایک دوسرے کی پگڑی اچھالی جاتی ہے، جو زبان و اندازاختیار کیا جاتا ہے وہ کسی بھی مہذب اور تعلیم یافتہ معاشرے میں نہیں کیا جاسکتا۔ اس پرستم یہ کہ ایک سیاسی جماعت کے لوگ دوسری سیاسی جماعت کے ساتھ دست وگریباں ہوتے ہیں۔ یہ تمام اعمال تاریخ کے اس سیاہ عہد کی یاد دلاتے ہیں جو تاریخ کا بد ترین دور تھا، سیاسی لحاظ سے بھی اور معاشی و معاشرتی لحاظ سے بھی، جب لوگ صرف اور صرف اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے تھے۔ چناچہ اِس وقت بھی صورت حال جوں کی توں دکھائی دیتی ہے۔

اس پر مستزادیہ کہ میڈیا پر آنے والے ٹاک شوز لوگوں میں بدگمانی اور گمراہی پیدا کرنے میں پست کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ ”ہوس حمق تیرہ دماغ ” ہے۔ ان پروگراموں کا ماحول اکھاڑے کی طرح بنایا جاتا ہے جس میں ان پروگراموں کا میزبان دونو ں ٹیموں کو لڑوا کر لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ دونوں کا آمنا سامنا ہو کر ہاتھا پائی تک نوبت آ جاتی ہے۔ اس وقت دروغ دیوزاد اپنی دھوم دھام بڑھانے کے لیے سر پر بادل کا دھواں دھار پگڑ لپیٹ لیتا ہے۔ لاف و گزاف کو حکم دیتا ہے کہ شیخی اور نمود کے ساتھ آگے جاکر غل مچانا شروع کر دو، ساتھ ساتھ دغا کو اشارہ کردیتا ہے کہ دائیں ہاتھ میں طراری کی تلوار، بائیں ہاتھ میں بے حیائی کی ڈھال پکڑ کر گھات لگا کر بیٹھ جاؤ۔

جس طرح اس وقت امرأ اور وزرا ء بادشاہ کے سامنے اس کی جھوٹی محبت کا دم بھرتے تھے بعینہ موجودہ وقت میں ان ٹاک شوز کے میزبان شاہ کے تنخواہ دار یہ کردار ان پروگراموں کی صورت میں پیش کر کے ادا کر رہے ہیں۔

اپنے ان پروگراموں کی وجہ سے انھوں نے عوام میں بدگمانی اور عدم تحفظ کی فضا ­پیدا کر دی ہے اور یہی بد گما نی انتشار اور بد امنی کا سبب بن رہی ہے۔ اپنے ذاتی مفاد اورحرص و ہوس کی وجہ سے یہ لوگ ہر اخلاقی حدود اور سماجی ذمہ داری سے بری الذمہ ہوگئے ہیں۔ نفرتیں اس حد تک بڑھ گئیں ہیں کہ ایک دوسرے کو برداشت کرنا محال ہے۔ ہر طرف سوائےنفرت کی آگ کے کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے اور یہ آگ سوچے سمجھےمنصوبے کے تحت اس طرح بھڑکائی جا رہی ہے کہ ساری فضا دھواں دھواں ہو گئی ہے، جس نے نظر کو یوں دھندلادیاہے کہ کسی کو بھی منظر صاف دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

ان ٹاک شوز کا ایک کمال یہ ہے کہ ان میں جو ڈرامہ دکھایا جاتا ہے وہ میڈیا پر چلنے والے کسی بھی ڈرامے سے بازی لے گیا ہے اور اب ایک عام آدمی بھی ان ڈراموں میں اس حد تک دلچسپی رکھنے لگا ہے کہ جو ڈرامہ تفریح کے لیے دکھائے جاتے ہیں ان سے بھی زیادہ ریٹنگ ان ٹاک شوز کی ہوگئی ہے۔ یہ اتنے بڑے ڈرامے بازہیں کہ ان کے آگے کسی کا ڈرامہ نہیں چل سکتا۔ ان نوٹنکیوں کو اتنی تشہیر ملتی ہے کہ اس سے ہمارا معاشرہ دوہرے معیار اور تضادات کا شکار نظر آتا ہے۔ دکھاوے کے شوق نے عام آدمی سے لے کر ملک تک کو قرضوں کے بوجھہ تلے دبا دیا ہے۔ اس دوہرے معیار کا اثر زندگی کے ہر سطح پر نظر آنے لگا ہے۔ آپ کسی بھی شعبے کو دیکھ لیں بناوٹ اور دکھاوے نے اس طرح جھوٹ کی پردہ پوشی کی کہ اب سچ سچ نہیں لگتا۔ سانچ کو آنچ نہیں، زخم جلدی بھر جاتا ہے۔ پر جھوٹ نابکار جب زخم کھاتا ہے تو ایسے سڑتا ہے کہ اوروں میں بھی وبا پھیلا دیتا ہے اور ذرا انگور بندھے نہیں، یہ پھر میدان میں آن کودا۔

اس وقت جو شخص جتنا زیادہ بول سکتا ہے یعنی دوسروں کی عزت کی دھجیاں اڑا سکتا ہے وہ سب سے زیادہ پڑھا لکھا اورکامیاب انسان سمجھا جاتا ہے، اور ایسے ہی کامیاب انسان بننے کی خواہش میں جعلی ڈگریوں کا حصول کیا جاتا ہے جوکہ جھوٹے نام ونمود اور راتوں رات نام کمانے کے لیے استعمال ہورہی ہیں۔

یہاں جو لوگ جتنا زیادہ ملک سے نام اور شہرت کما رہے ہیں وہی سب سےزیادہ ملک کو گالیاں دیتے نظر آتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ کہ یہ لوگ ہی سب سے سچے اور دیانت دار بنے ہوئے ہیں۔ اور بہ مثل ایہام گوئی کہ دکھاتے دایاں ہیں اور لگاتے بایاں ہیں۔ ان ٹاک شوز کےمیزبان جو بظاہر یہ پروگرام ملکی مفاد میں کر رہے ہوتے ہیں در حقیقت اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کررہے ہیں۔ بلکہ دنیا کے سامنے ملک کی ساکھ کو اس طرح مجروح کیا کہ دیارِ غیر میں محنت اور دیانت سے زندگی گزارنے والوں کو جس شرمندگی اور مشکلات کا سامنا ہے، یہ کوئی ان وطن سے دور رہنے والوں سے پوچھے جو باوجود محنت کش و دیانت دار ہونے کےایک مجرم کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جنھیں شک شبہے سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کی نگاہیں ملک پر ہی لگی رہتی ہیں کہ کب اس ملک کی خوشحالی اور سلامتی کی خبریں سننے اور دیکھنے کو ملیں گی اور کب ہم اس نا کردہ گناہ سے نکل سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).