مشہور سندھی گیت ’ہو جمالو‘ کا خالق ایک لاوارث پل ہے


اربوں روپے کا تاریخی، خوبصورت، روہڑی، سکھر، سندھ بلکہ پاکستان کا لینڈ مارک پل، 500 روپے کا ڈرین پائپ نہ ہونے کی وجہ سے تباہ ہو رہا ہے۔

تبت کے پہاڑوں سے لے کر عربی سمندر کے ساحل تک دریائے سندھ کے تین ہزار ایک سو اسی کلومیٹرکے سفر میں کہیں بھی اتنا خوبصورت تاریخی پل دیکھنے کو نھیں ملے گا جیسا سندھ میں روہڑی اور سکھر کو ملانے والا لینڈس ڈائون پل ہے۔ اگر کہا جائے کہ یہ پاکستان کا ابھی تک سب سے خوبصورت پل ہے تو شاید غلط نہیں ہوگا۔

اب تو نہیں مگر 1889 میں جب بغیر کھمبے والا لوھے کا یہ ریلوے پل بَنا ہوگا تو بلا شبہ یہ دنیا کے انجنیئرنگ کے کچھہ شاھکاروں میں سے ہوگا۔ دنیا تو بہت آگے جا چکی ہے، مگر کم از کم آج بھی ہمارے ملک میں ایسا پل اور کہیں بہی نہیں۔

سندھیوں کی خوشی کی ہر تقریب کا اختتام مشھور لوک گیت۔ ہو جمالو۔ پے ہوتا ہے۔ اس گیت کی تخلیق کا سبب بھی یہی پل ہے۔ تصدیق شدہ روایت ہے کہ جب ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریائے سندھ پر لوہے کا دیو ہیکل پل تعمیر ہوچکا تو، ریلوے کا کوئی انجن ڈرائیور اس پر ریل گاڑی چلانے کواس لئے آمادہ نہیں ہوا کہ پل بغیر کھمبے کے تھا۔

اس کا حل انگریز انتظامیہ نے یہ نکالا کہ سکھر جیل میں قید سزائے موت کے قیدی جمالے کے ساتھہ یہ معاہدہ کیا کہ وہ اس پل پر سے ریل گاڑی چلا کر جائے گا تو اس کی موت کی سزا معاف کرکے اس کو آزاد کیا جائے گا۔


پل کے ٹرائل کی تقریب ہوئی، ریل گاڑی کو جمالا، پل پر سے کامیابی سے گذار کر دوسری طرف لے گیا۔ بڑا میلا اور جشن لگا، اور اس جشن میں جمالے کی بیوی نے یہ گیت گانا شروع کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہو منھنجو کھٹی آیو خیر ساں، ہو جمالو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہو جیکو روہڑی واری پل تاں، ہو جمالو، ۔ ۔ ۔ ۔ ہو جیکو سکھر واری پل تاں، ہو جمالو، ( وہ میرا جیت کے آیا خیر کے ساتھ، ہو جمالو، وہ جو روہڑی والی پل سے۔ ہو جمالو، وہ جوسکھر والی پل سے۔ ہو جمالو ) اور یہ گیت سندھی ثقافت کی روح اور سندھ کی پہچان بن گیا۔

سندھ کی کسی خوشی کی تقریب میں جب یہ اعلان ہو کہ اب ہو جمالو ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تقریب کا آخری ایونٹ ہے۔ ہو جمالو گیت پہ سب حاضرین ناچتے ہیں۔

لیکن سندھ بلکہ پاکستان کا لینڈ مارک بننے والا یہ پل کرپشن کی نظر ہوکر تباہ و برباد ہے۔

اس تباہی کو دیکھ کر میں نے صدرِ پاکستان، وزیراعظم پاکستان اور چیئرمین نیب کے دفاتر میں شکایت درج کروائیں۔ پریزیڈنٹ ہائوس سے پٹیشن نمبر 4271 بتاریخ 29 ستمبر 2016 وفاقی سیکریٹری پاکستان ریلوے سے ہوتی ہوئی ڈویزنل سپرینٹنڈنٹ پاکستان ریلوے سکھر سے جواب طلبی کی گئی تو، کچھہ ماہ بعد وفاقی سیکریٹری کے توسط سے ڈی ایس سکھر کی رپورٹ پریزیڈنٹ ہائوس اسلام آباد پنہچی، جس کی کاپی مجھے بھی بھیجی گئی۔ اس میں تو قصہ ہی اور بیان کیا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ، وزیراعظم پاکستان کی طرف سے 2010 میں اس پل کی مرمت کے لئے ڈھائی کروڑ منظور کیے گئے۔ 2012 میں اس پل کی مرمت کا کام دو کروڑ بیس لاکھ روپے کی رقم میں مکمل کیا گیا۔ جس میں سب سے زیادہ خرچ ایک کروڑچالیس لاکھہ صرف رنگ و روغن پر خرچ ہوئے۔ یہ پل اب ریلوے ٹریفک کے لئے نہیں مگر روڈ ٹریفک کے لئے استعمال ہوتا ہے اس لئے سندھ حکومت کو ڈپٹی کمشنر سکھر اور سیکریٹری ورکس اینڈ سروسز کے توسط سے کئی بار لکھا گیا ہے کہ پل کی مرمت پر توجہ دیں مگر آج تک کوئی جواب نھیں آیا۔

اس خط کے آخر میں صاف لکھا گیا ہے کہ یہ پل اب پاکستان ریلوے کے استعمال میں نھیں اور نہ ہی پاکستان ریلوے میں اس پل کی مرمت کے لئے کوئی بجٹ رکھا جاتا ہے۔ اس لئے وہ مرمت نھیں کروا سکتے۔

اس پل کی مرمت بھی ایسی کی گئی تھی کہ رونا آتا ہے، پل پر روڈ کے دونوں طرف پیدل چلنے والوں کا رستہ ہے جس پر انگریزوں کا لگایا ہوا لکڑی کا فرش ایک سو سال چلا، مگر گذشتہ مرمت میں وہ قیمتی لکڑی نکال کر نئی لکڑی لگائی گئی، صرف ایک سال گذرا کہ اپنے والدین کے آگے پیدل چلنے والا 12 سالہ بچہ لکڑی ٹوٹنے کی وجہ سے دریاہ سندھ میں جا گرا، دہ دن کی تلاش کے بعد پاکستان نیوی والوں نے اس کی لاش نکالی۔ نہ کیس ہوا، نہ ٹھیکیدار سے کسی نے باز پرس کی۔

یہ پل ان دنوں مکمل طور پر لاوارث ہے، پل کی خوبصورتی اور مرمت تو دور کی بات، نیچے دی گئی تصویر میں پل کی برجی کی تباہی نظر آرہی ہے جس پر صرف پانچ سو روپے کا ڈرین پائپ نھیں لگایا جا رہا مگر اربوں روپے کا تاریخی اثاثہ تباہ کیا جا رہا ہے۔

یہ میرے شہر کا پل ہے، میں پانچ سو روپے تو کیا، پانچ ہزار روپے اپنی جیب سے لگا سکتا ہوں مگر اس برجی کو اٹیچ باتھ کمرا بنا کر رہنے والے پولیس والوں کو کچھ کہنا شیر کے منہ میں بانس ڈالنے جیسا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).