فوجی عدالتیں اور سویلین ٹسوے!


آثار یہی بتاتے ہیں کہ دو برس پہلے کی طرح اس بار بھی ارکانِ پارلیمان اور پارلیمانی لیڈر آنکھوں میں آنسو بھر کے گلوگیر تقاریر کے بعد انتہائی بوجھل دل سے اپنی آئینی و قانونی بلا  گلے سے اتار کے خصوصی فوجی عدالتوں کے سپرد کر دیں گے اور پھر پہلے کی طرح شکر بجا لاویں گے کہ کم ازکم مزید دو برس کے لیے سویلین عدالتی نظام اور تفتیش کاری کو انصاف کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے پہاڑ جیسے کام سے نجات مل گئی۔

پھر اگلے برس انتخابات کا غلغلہ شروع ہو جائے گا، نگراں حکومت آ جائے گی، پھر کوئی منتخب حکومت آ کر دیکھے گی کہ پھٹیچر عدالتی نظام کے لیے نئے کپڑے کے دنوں میں سلیں گے یا پرانے نوآبادیاتی دور کے کپڑوں پر ہی دکھاوے  کو کچھ پیوند اور توپے لگا کے کہا جائے دیکھو ہم نے عدالتی اصلاحات کا وعدہ پورا کر تو دیا۔

ساتھ ساتھ یہ رونا دھونا بھی چلتا رہے گا کہ کیا کریں؟ سویلین فوجی تعلقات کا پلڑا ایک جانب اتنا جھکا ہوا ہے کہ اسے راتوں رات برابر لانے کے لیے ہمارے پاس الہ دین کا چراغ نہیں۔ کیسی اچھی تکنیک ہے کہ پہلے کسی عمل پر تنقید کرو، پھر مشروط عشوے، غمزے دکھاو، بے بسی کی گلیسرین آنکھوں میں ڈال کر ٹسوے بہاؤ اور آخر میں مسائل کی دلہن یہ کہتے ہوئے بیاہ دو جا بنو رانی تیرا خدا ہی حافظ۔

کیا کسی پارلیمانی یا کابینہ کمیٹی یا آل پارٹیز ٹائپ کانفرنس کو توفیق ہوئی کہ فوجی عدالتوں کو توسیع دینے کے معاملے کو قطعی شکل دینے سے پہلے ان کی پچھلی کارکردگی کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے؟ مگر بوجھ کو دوسرے کے کندھوں پر فٹافٹ لادنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دینے کے عادی اتنی محنت آخر کیوں کریں؟ گزشتہ فوجی عدالتیں اس نیئت سے وجود میں لائی گئی تھیں کہ وہ مذہب کے نام پر دہشتگردی کرنے والے جیٹ بلیک مجرموں کو جب تیزی سے کیفرکردار تک پہنچائیں گی تو ان کا انجام دیکھ کر نئے دہشتگرد اور ان کے ماسٹر مائنڈ  اگلی واردات  سے پہلے دس بار سوچیں گے۔ مگر بڈابیرکے رہائشی کمپلیکس، چارسدہ یونیورسٹی، چار سدہ کچہری، گلشنِ اقبال پارک لاہور، واہگہ بارڈر، شکار پور امام بارگاہ، کوئٹہ سول اسپتال، شاہ نورانی کے دربار پر خودکش حملے اور بیسیوں چھوٹی دہشتگرد کاروائیوں میں سینکڑوں شہریوں کو ہلاک کرنے اور سرحدی چیک پوسٹوں پر فوجیوں کو شہید کرنے والوں کو شاید کسی نے بروقت خبر نہیں پہنچائی کہ اس ملک میں نہ صرف آپریشن ضربِ عضب  جاری ہے بلکہ گیارہ فوجی عدالتیں بھی تمہاری اور تمہارے سہولت کاروں کی خبر لینے کے لیے متحرک ہیں۔

ان فوجی عدالتوں کے سامنے دو طرح کے ملزم لائے گئے۔ ایک وہ جن کے مقدمات سویلین انتظامیہ نے جیٹ بلیک قرار دے کر عام عدالتوں سے منتقل کیے۔ دوسرے وہ جو پہلے سے زیرِ حراست یا ایجنسیوں کی تحویل میں تھے۔ گزشتہ فوجی عدالتوں نے اپنی معیاد کے دوران دو سو چوہتر افراد کو سزائیں سنائیں۔ ان میں ایک سو اکسٹھ کو سزائے موت سنائی گئی۔ سترہ کی سزا پر عمل درآمد ہوا۔ باقی اعلی سول عدالتوں میں اپیل کے مختلف مراحل میں ہیں۔ جب کہ ایک سو تیرہ کو مختلف المعیاد قید کی سزائیں سنائی گئیں۔

حالانکہ مقدمات کی سماعت خفیہ طریقے سے ہوئی، دلائل، ثبوت، فردِ جرم اور فیصلے کی تفصیلات بھی عام ملاحظے کے لیے سامنے نہیں آئیں۔ ملزموں کو اپنی پیروی کے لیے سول وکلا کی خدمات بھی میسر نہ ہو سکیں۔ مگر پھر بھی عدالتِ عظمی نے فوجی عدالتوں کو چیلنج کرنے والی  پیٹیشنز یہ رولنگ دے کر نمٹا دیں کہ غیر معمولی حالات میں یہ عدالتیں انصاف کے تقاضے پورے کر رہی ہیں۔

عرض یہ کرنا ہے کہ جن سیاسی جماعتوں اور معزز ارکانِ پارلیمان نے فوجی عدالتوں کے قیام کی یہ کہتے ہوئے بچشمِ نم دو برس پہلے بھی حمایت کی اور اب بھی کر رہی ہیں کہ یہ عدالتیں اگرچہ انصاف کے مروجہ تقاضے مکمل طور پر پورے نہیں کرتیں مگر غیر معمولی حالات کی مجبوری ہے۔ تو یہ آنسو کسی اور دلیل کے لیے بچا  رکھیں۔ ان فوجی عدالتوں پر اعتراض اور پھر حمایت ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی ٹینک کو تھریشر کے طور پر استعمال کریں اور پھر فصل کے کچلے جانے کا رونا پیٹنا بھی ڈال دیں۔

فوجی عدالتیں فیلڈ کورٹ مارشل کے لیے ہوتی ہیں اور ان کے قواعد و ضوابط بھی کورٹ مارشل کے تقاضوں کے حساب سے مرتب ہیں۔ اگر یہ عدالتیں ملزم فوجیوں کو انصاف دینے کے لیے موزوں ہیں تو پھر ان کے روبرو لائے جانے والے سویلینز کے لیے خصوصی سلوک کا مطالبہ کیوں؟ اگر آپ کو اتنا ہی درد ہے تو پھر سویلین عدالتوں پر اعتماد کیوں نہیں؟  کیا آپ میں سے کسی نے بھی ’’سو جوتے سو پیاز‘‘ والی کہانی نہیں سنی۔

کبھی قانون کی بالادستی و مکمل سویلین حکمرانی کے وکیل خود سے یہ بھی تو پوچھیں کہ فوجی و غیر فوجی عدالتوں کی کھکھیڑ سے قطع نظر کیا اس ملک کو واقعی کسی پائیدار مہذب عدالتی نظام کی ضرورت ہے بھی؟ ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب سیہون خود کش حملے کے اڑتالیس گھنٹوں کے اندر اندر یہ اعلان ہوا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ملک کے طول و عرض میں سو سے زائد دہشتگردوں کو مار ڈالا۔

اگر اس ملک کا تفتیشی نظام اتنا ہی فرسودہ ہے جتنا بتایا جا رہا ہے تو پھر اڑتالیس گھنٹوں میں جن سو سے زائد افراد کو مارا گیا، ان کے بارے میں محض ڈیڑھ دو دن میں کیسے اس نتیجے پر پہنچا گیا کہ یہ مجرم ہیں؟ مرنے سے بہتر گھنٹے پہلے تک وہ کہاں چھپے ہوئے تھے ؟ اگر پہلے سے قانون نافذ کرنے والوں کی تحویل میں تھے تو کب سے تھے؟ انھیں اس دوران کسی عدالت میں پیش کیا گیا؟ انھیں کسی عدالت کے حکم پر مارا گیا؟ جنھیں مارا گیا ان پر کوئی فردِ جرم تھی؟ تھی تو اب تفصیلات جاری کر دیں؟ ان دہشتگردوں کا نام، پتہ، سکونت، ولدیت، ہسٹری کچھ تو ہو گا۔ کچھ تو بتائیے؟ اگر بتانے کو کچھ بھی نہیں تو فوجی عدالتوں کی توسیع کے جواز، نتائج  وغیرہ وغیرہ پر اس قدر چپڑ چپڑ کیوں؟ اگر سرسری جعلی مقابلے اور لاشیں ڈمپ کرنا جائز ہیں تو کسی بھی نوعیت کی عدالت غنیمت کیوں نہیں؟

پولیس اور عدالت کی اصلاحات تو جب ہوں گی تب ہوں گی۔ لیکن اس سے پہلے پہلے جس روز واقعی آپ کا دہشتگردی ختم کرنے کا سنجیدگی سے موڈ ہو، اس روز بس دو کام کیجیے گا ایک تو ہر گلی محلے کی خبر رکھنے والے ایس ایچ او کو جان کی امان اور اس کے کام میں مکمل عدم مداخلت کی تحریری ضمانت دے دیجیے گا اور دوسرے اسے یقین دلا دیجے گا کہ فرض کی ادائی کے دوران اگر وہ یا اس کا کوئی سپاہی شہید ہو جاتا ہے تو ان سب کے بچوں کے مستقبل کی پوری ذمے داری ریاست پر ہو گی۔ اور تمام دیگر سیکیورٹی اداروں کو پابند کیجیے کہ پولیس سے مدد نہ مانگیں بلکہ پولیس کو جیسی بھی مدد اور معلومات کی ضرورت ہو ریئل ٹائم میں مہیا کریں۔ پھر دیکھئے ضربِ عضب اور ردِالفساد اور فوجی عدالت کی ضرورت باقی رہتی ہے کہ نہیں۔

(بشکریہ ایکسپریس نیوز)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).