دہشتگردی کے خلاف میچ اورپھٹیچر ریلو کٹے


پاکستان سپر لیگ کے دوسرے ٹورنامنٹ کا فائنل میچ پاکستان کے دل لاہور میں کروانا اور وہ بھی ان حالات میں جب پنجاب میں بھی ردالفساد پورے زوروشور سے جاری ہے نہ صرف بڑے دل گردے کا کام ہے بلکہ یہ پاکستانی قوم کی طرف سے اس عزم کا اظہار بھی ہے کہ وہ دہشتگردی کو کسی طور قبول نہیں کریں گے اور خوف کے سایوں کو اپنے اوپر مسلط نہیں ہونے دیں گے۔ ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں اگر میں پاکستان سپر لیگ کے فائنل کو دہشتگردی کے خلاف میچ کہوں تو یہ بہت درست بات ہوگی۔ آٹھ برس پہلے جب لاہور میں ہی قذافی سٹیڈیم سے کچھ فاصلے پر سری لنکا کی ٹیم پر دہشتگردوں نے حملہ کیا تھا تو پاکستان میں عالمی کرکٹ کے مقابلے بھی ختم ہوگئے تھے۔ سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ تو میچ شروع ہونے سے چند گھنٹے پہلے تک یہی شور مچا رہے تھے کہ اس طرح کے انتظامات کے ساتھ میچ کروانے کا کیا فائدہ؟ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ عوام کے ایک بڑے طبقے کی حمایت رکھنے والے عمران خان بھی عوام کے موڈ کو نہ سمجھ سکے اور حسب معمول نواز شریف دشمنی میں یہ بیان داغ دیا کہ لاہور میں میچ کروانا پاگل پن ہے۔ خان نے صرف اسی پر بس نہیں کیا بلکہ غیر ملکی کھلاڑیو ں کو ریلو کٹے اور پھٹیچر جیسے توہین آمیز القابات سے نواز ا، جس پر پوری قوم سراپا احتجاج بن گئی سوائے خان کے چند اندھے مریدوں کے جو اس متکبرانہ بیان کی توجیہات پورے خشوع خضوع سے کر رہے ہیں۔

خان صاحب کو کرکٹ سے اتنا ہی پیار ہوتا تو انہیں یاد رہتا کہ ان ریلوکٹوں اور پھٹیچر کھلاڑیوں میں ڈیرن سیمی بھی شامل ہے۔ ڈیرن سیمی دنیائے کرکٹ کا واحد کپتان ہے جس کی سربراہی میں ویسٹ انڈیز ٹی ٹونٹی کے دو ورلڈ کپ جیت چکا ہے اور اس جیت میں کسی اتفاق کا کوئی معجزہ بھی نہیں تھا۔ دکھ کی بات تو یہ ہے عامر سہیل اور چند دوسرے کرکٹرز نے بھی ایک مخصوص لابی کے زیر اثر پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کرانے کی مخالفت کی۔ خداکے بندواگر آٹھ برس بعد کچھ غیر ملکی کھلاڑی پاکستان آرہے ہیں تو آپ کو تو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے اور ان کا گرمجوشی کے ساتھ خیر مقدم کرنا چاہیے نہ کہ آپ اپنے زہریلے بیانات سے ان کو پریشان کرنا شروع کر دیں۔ بنگلہ دیش جیسا کل کا بالک تو آپ کے ہاں آ کر کرکٹ کھیلنے کو تیار نہیں اور جب آپ کے ملک میں غیر ملکی کھلاڑی آرہے ہیں اور انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہونے کے آثار پیدا ہورہے ہیں توآپ اپنے نام نہاد تجزیوں میں لگے ہوئے ہیں۔ میں کرکٹ کا بہت زیادہ کیا بالکل بھی شوق نہیں رکھتا، شاید یہ میر ی زندگی کا پہلا میچ ہے جو میں نے شروع سے آخر تک ٹی وی کی سکرین پر دیکھا۔ لیکن میچ سے بہت پہلے سٹیڈیم کھچا کھچ بھر چکا تھا باوجود اس کے کہ محدودنشستوں کے سبب ہزاروں لوگ ٹکٹ سے ہی محروم رہے، جو ٹکٹ نہ خرید سکے وہ کروڑوں پاکستانی میچ شروع ہونے سے بہت پہلے سانس روکے ٹی وی سکرینوں کے سامنے جم گئے۔ میرے لئے مسرت کی بات تو یہ ہے کہ بلوچستان کے علاقے خضدار میں بھی جہاں ایک وقت میں آئے روز دہشتگردی کی وارداتیں ہوتی تھیں وہاں بھی عوام کی بڑی تعداد نے پی ایس ایل فائنل کا میچ میر غوث بخش بزنجو فٹ بال سٹیڈیم میں بڑی سکرین پر دیکھا۔ اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ بھارت میں پی ایس ایل کا فائنل دیکھنے والوں کی تعداد پاکستان کی آبادی سے بھی زیادہ تھی۔

پاکستان گزشتہ تین برس میں دہشتگردی کے خلاف نبرد آزما ہے اور اس میں ہمیں خاطر خواہ کامیابی بھی نصیب ہوئی ہے تو اب عملی زندگی میں ہمیں اس طرح کے اقدامات بھی کرنے ہوں گے جس سے نہ صرف عوام پر خوف کے سائے مسلط نہ ہوں بلکہ عالمی سطح پر بھی یہ پیغام پہنچے کے پاکستان اب پورے عزم کے ساتھ دہشتگردی کے مکمل خاتمے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ میچ سے پہلے اور میچ کے دوران بہت سے جذباتی مناظر بھی دیکھنے میں آئے کہ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے پاکستانی بلاتفریق مذہب و ملت اس میں پوری طرح شریک تھے بلکہ چینی دوستوں کی ایک قابل ذکر تعداد بھی سٹیڈیم میں موجود تھی۔ میچ سے پہلے پاک فوج کے پیراٹروپرز نے پی ایس ایل کی ٹیموں اور پاکستان کے پرچم لہراتے ہوئے جس طرح سٹیڈیم میں انٹری دی اس سے23مارچ اور14اگست کا قومی جذبہ تازہ ہو گیا۔ بلاشبہ یہ پاک فوج اور دوسرے قانون نا فذ کرنے والے اداروں کی قربانیاں ہی ہیں جن کی بدولت ہم اس قابل ہوئے کہ یہ میچ پاکستان میں کروایا جاسکے، حالانکہ کچھ دن پہلے لاہور میں پنجاب اسمبلی کے سامنے ہونے والے دھماکے کے بعد بہت سے خدشات ظاہرکیے جار ہے تھے۔

فائنل میچ سے کچھ پہلے دو واقعات ایسے بھی ہوئے جس سے پوری پاکستانی قوم جو اس میچ کے دوران متحد اور منظم نظر آتی تھی وہ تشخص کسی حد تک مجروح ہوا۔ شیخ رشید سے سیاسی اختلافات تو ہو سکتے ہیں لیکن زندہ دلان لاہور کے شہر میں ان کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ مناسب نہ تھا۔ اس طرح کے چھوٹے چھوٹے واقعات قوموں کے نظم اور اس کی اخلاقیات کا پتہ دیتے ہیں۔ ایک ایسے موقع پر جب پوری پاکستانی قوم کھیل کے میدان سے دہشتگردوں کو اپنے عزم کے ساتھ شکست دینے کا سچا وعدہ کر رہی تھی اس طرح کے واقعات سے عالمی برادری کو کوئی اچھا پیغام نہیں دیا گیا۔ دوسرا واقعہ گو نواز گو کے وہ نعرے ہیں جو نجم سیٹھی کے خطاب کے دوران لگائے گئے۔ بلاشبہ ہر پاکستانی اپنے سیاسی نظریات قائم کرنے اور اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کی حمایت کرنے میں آزاد ہے لیکن ایسے موقع پر جب سر ویون رچرڈز، ڈیرن سیمی اوردوسرے غیر ملکی کرکٹرز گراونڈ میں موجود تھے اس طرح کے نعرے ہر گز نہیں لگنے چاہیے تھے۔ یہ ایک ایسا موقع تھا جب ہمیں بھرپور قومی جذبے اور منظم انداز میں پوری دنیا کو اتحاد کا مظاہر ہ کر کے دکھانا تھالیکن ہم اپنے سیاسی گند کو اٹھا کر کرکٹ کے گراونڈ میں لے آئے۔ ہم بھارت سے شاکی رہتے ہیں کہ وہ سیاست اور کھیل کو گڈ مڈ کر دیتا ہے اور کھیل کے میدان میں بھی پاکستان کے خلاف اوچھے ہتھکنڈے استعما ل کرتا ہے تو پھر ہمیں خود بھی اپنی ’’ منجی تھلے ڈانگ پھیرنی ‘‘چاہیے۔ بہتر ہوگا ہم مستقبل میں کھیل کے میدان کو سیاست سے پاک ہی رکھیں۔

پی ایس ایل کے فائنل میچ کے لاہور میں انعقاد پر پی ایس ایل کی انتظامیہ اور نجم سیٹھی کی تعریف نہ کرنا بخیلی ہوگی۔ ذاتی طور پر مجھے پی ایس فائنل کی تقریب متاثر کن نہیں لگی، خاص طور پر حامد علی خان، راحت علی خان اور عابدہ پروین جیسے سکہ بند اور بے مثال گلوکاروں کو اگر پی ایس فائنل میں بلایا جاتا تو تقریب کا رنگ ہی اور ہوتا، علی عظمت اچھا گلوگار ہے لیکن وہ دمادم مست قلندر گانے میں عابدہ پروین کا مقابلہ ہر گز نہیں کر سکتا، دما دم مست قلندر اگر عابدہ پروین گاتیں تو ڈیرن سیمی کی دھمال دیکھنے لائق ہوتی۔ نجم سیٹھی سے اور بھی اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن جو کام پی ایس ایل نے ان کی سربراہی میں کیا ہے وہ شاید کوئی اور نہ کرسکتا۔ پنجاب اور مرکزکی حکومتیں، پولیس، رینجرز اور پاک فوج بھی لائق تعریف ہیں کہ انہوں نے ایک بہت مشکل کام کا بیڑا اٹھایا اور پھر اسے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔ خدا کا شکر ہے کہ میچ سے پہلے، میچ کے دوران اور میچ کے بعد بھی سیکورٹی کے حوالے سے تمام خدشات غلط ثابت ہوئے، خدانخواستہ اس دوران اگرکوئی پٹاخہ بھی پھوٹ پڑتا تو پاکستان کی ساکھ اور وقار بری طرح مجروح ہوتا، لیکن مقام شکر ہے کہ پاکستان نے یہ مرحلہ بھی کامیابی کے ساتھ عبور کیا، دہشتگردی کے خلاف یہ میچ پاکستان نے جیت لیااور دہشتگرد ہار گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).