یہ ادبی میلے ٹھیلے !


میری نسل بس کتابی میلوں سے واقف تھی جہاں دس سے پچیس فیصد رعایت پر کتاب ملنے کا لالچ ہمیں کھینچ لے جاتا تھا۔کبھی ایسی کتاب بھی دل و دماغ کو لڑ جاتی کہ یہ خواہش انگڑائی لینے لگتی، کاش کبھی زندگی میں اس کے مصنف سے ملاقات ہوجائے تو پوچھیں بھائی ایسے کیسے لکھ لیتے ہو ؟ اب سے دس برس پہلے کسی اخبار کے اندرونی صفحے پر کونے میں چھپی یہ خبر نظر سے گذری کہ  راجستھان کے دارلحکومت جے پور میں  لٹریچر فیسٹیول ہو رہا ہے جس میں عالمی شہرت یافتہ بدیسی لکھاری بھی آ رہے ہیں۔اک ہوک سے اٹھی یہ سوچ کر کہ کیا دہشت گردی سے جوجے پاکستان میں بھی ایسا کوئی میلہ ممکن ہے جہاں لوگ اپنے پسندیدہ مصنفوں سے مل سکیں ، سن سکیں اور چلتے پھرتے ایک آدھ اچھی کتاب بھی خرید لیں۔

پھر دو ہزار دس میں خبر آئی کہ کراچی کے کسی کارلٹن ہوٹل میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے کراچی لٹریری فیسٹیول (کے ایل ایف ) کا اہتمام کیا ہے۔ سنا کہ اس میں کوئی چار پانچ ہزار لوگ شریک ہوئے۔اتفاقاً میں اس زمانے میں کراچی میں نہیں تھا۔مگر چونکہ ذات کاصحافی ہوں اس لیے دل میں پہلا خیال برا ہی آیا ’’دیکھنا اس کا بھی وہی حشر ہو گا جو ہمارے دوست حسن زیدی کے کراچی فلم فیسٹیول (کارا) کا ہوا۔بڑے جوش میں شروع ہوا تھا۔جب ہر سال ہونے لگا تو لگا کہ سروائیو کر گیا ہے مگر چند فیسٹیولز کے بعد سپانسرز ہانپ گئے اور کارا پارہ پارہ ہوگیا۔دیکھنا یہی حشر کراچی لٹریچر فیسٹیول کا بھی ہوگا۔فلم تو سب دیکھ لیتے ہیں کتاب کون پڑھتا ہے اور وہ بھی نئی نسل۔کارا تو جیسے کیسے سات آٹھ برس نکال گیا۔کے ایل ایف دوسرے برس بھی ہو جائے تو بڑی بات ہے‘‘…

مگر پھر ہوا یوں کہ کے ایل ایف ہوتا ہی چلا گیا اور اس برس آٹھ کا ہندسہ بھی پار کر گیا۔کہاں شرکا  پہلے میلے میں پانچ ہزار سے شروع ہوئے کہاں آٹھویں میں ڈیڑھ لاکھ پار کر گئے۔دو ہزار گیارہ سے آکسفورڈ والوں نے چلڈرن فیسٹیول کی سالانہ بدعت اور دو ہزار تیرہ سے اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول (آئی ایل ایف)شروع کر دیا۔ سنا ہے اب مئی میں لندن بھی جا رہا ہے کراچی لٹریری فیسٹیول۔

مجھے لگتا ہے کے ایل ایف کا آئیڈیا جے پور لٹریری فیسٹیول سے لیا گیا ہوگا۔مگر پاکستانی زمین اس آئیڈیئے کے لیے اتنی زرخیز ثابت ہوئی کہ معاملہ کئی ہاتھ آگے چلا گیا۔

دو ہزار تیرہ میں لاہور میں رضی احمد نے لاہور لٹریری فیسٹول ( ایل ایل ایف ) منعقد کیا۔سرکار نے بھی کچھ فراخ دلی کی اور یہ شہر کے کیلنڈر کا سالانہ ایونٹ بن گیا یعنی ہر فروری کے آخری ہفتے میں ایل ایل ایف ہوگا۔مگر اس برس چوبیس تا چھبیس فروری جو پانچواں ایل ایل ایف ہونے والا تھا اس کے ساتھ صرف ایک دن پہلے کے خودکش حملے نے ہاتھ کردیا۔ ہاتھ تو دراصل حکومتِ پنجاب کے فول پروف حفاظتی دعووں کے ساتھ ہوا مگر انتظامیہ کی بد حواسی کا نزلہ ایل ایل ایف پر گر گیا۔ پہلے جگہ بدلوائی گئی۔

پھر تین دن کم کرا کے ایک دن کرایا گیا۔وجہ یہ بتائی گئی کہ تین دن میں اگر پچھلے ایل ایل ایف کی طرح ایک لاکھ لوگ امڈ آئے تو خود کش بمباروں کی تو چاندی ہو جائے گی۔ایل ایل ایف کو بند جگہ میں اپنے سیکیورٹی انتظامات خود کرنے کی شرط پر صبح سے شام تک منعقد ہونے کی اجازت دینے کے بعد حکومتِ پنجاب نے یکسوئی سے دہشت گردی کا قلع قمع کرنا شروع کیا۔اور ایک روزہ ایل ایل ایف کے صرف گیارہ دن بعد ( پانچ مارچ ) قذافی اسٹیڈیم میں ہر دو تماشائیوں کی حفاظت پر اوسطاً ڈیڑھ سپاہی تعینات کر کے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔

حکومت ِ پنجاب کو یہ بھی نہ یاد رہا کہ یہ وہی ایل ایل ایف ہے جو پچھلے برس نیویارک اور لندن میں بھی منعقد کیا گیا تاکہ دہشت گردی کی گرد سے آلودہ پاکستان کا شفاف علمی و ادبی چہرہ بھی سامنے آ سکے۔اور یہ وہی ایل ایل ایف ہے جس کے بارے میں خادمِ اعلیٰ شہباز شریف گذشتہ برس کہہ چکے ہیں کہ ایسے میلے پاکستان کی اچھائیوں کا آئینہ ہیں۔

بات پتہ نہیں کیا ہو رہی تھی اور میں کہاں سے کہاں بہک گیا۔ عرض یہ کرنا تھا کہ پچھلے سات برس میں کراچی لٹریری فیسٹیول سے جو نئی علمی و ادبی روایت شروع ہوئی اس نے جانے کہاں کہاں تک جڑیں بنا لی ہیں۔ پچھلے تین برس سے کچھ مقامی جنونی فیصل آباد لٹریری فیسٹیول کرا رہے ہیں۔اس میں زیادہ زور اردو اور علاقائی لکھاریوں اور ادب کی حوصلہ افزائی پر ہے۔

بلوچستان سے میڈیا اچھی خبریں بہت کم اٹھاتا ہے مگر گوادر کے نوجوانوں نے مسلسل تین برس سے گوادر بک فیسٹیول کی روایت برقرار رکھتے ہوئے نام نہاد قومی میڈیا کو اپنی بے ساختہ کوریج پر مجبور کردیا۔میں نے اب تک کتاب کی جتنی بھوک اور للک گوادر بک فیسٹیول میں دیکھی شائد ہی کسی اور لٹریری میلے میں نظر آئی ہو۔حالانکہ گوادریوں کی جیب میں اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے جتنے بڑے شہروں کے کتابی کیڑوں کے کھیسے میں پائے جاتے ہیں۔

سندھ میں کے ایل ایف کی دیکھا دیکھی دیگر علم دوستوں نے بھی لٹریری فیسٹیولز منعقد کرنے شروع کر دیے ہیں۔ پچھلے دو برس سے حیدرآباد میں گلوکار سیف سمیجو ، ثنا خوجہ اور بیسیوں نوجوان رضاکار لاہوتی میوزک اینڈ لٹریچر فیسٹیول کا علم بلند کیے ہوئے ہیں ( میوزک اور لٹریچر ایک ساتھ ! وٹ این آئیڈیا سر جی )۔

کراچی میں گذرے نومبر میں پہلا سندھ لٹریری فیسٹیول بخشن مہرانوی اور علی آکاش نے دوستوں سے مل کر اور عین وقت پر کچھ سپانسرز کے پھسل جانے کے باوجود کروایا اور اس برس بھی کمر بستہ ہیں۔اور تو اور پچھلے برس ٹنڈو آدم میں سانگھڑ لٹریچر فیسٹیول بھی مقامی لوگوں نے منظم کر ہی لیا ( اگر کہیں اور بھی اس طرح کی سرگرمی ہو رہی ہو تو مطلع فرمائیے )۔

ان تمام علمی سرگرمیوں کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ منتظمین نے سرکار پر مکمل تکیہ کرنے کے بجائے اپنے سپانسرز خود پیدا کیے ہیں۔لہذا ان میلوں میں لمبی زندگی پانے کے امکانات زیادہ ہیں۔اب تو ان فیسٹیولز پر تنقید بھی ہونے لگی ہے جیسے کے ایل ایف ، آئی ایل ایف اور ایل ایل ایف پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ انھیں اشرافیہ کے علمی زوق کے اعتبار سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔اردو اور علاقائی ادب و لکھاریوں کے بجائے مغربی و دیگر بدیسی مصنفوں کو زیادہ جگہ ملتی ہے۔زیادہ تر اجلاسوں کی زبان انگریزی ہوتی ہے۔فوڈ اسٹالز پر کتابوں کے اسٹالز سے زیادہ رش ہوتا ہے۔ایسے ایسے فیشن نظر آتے ہیں گویا کتابوں کا میلہ نہیں ڈربی ریس ہو رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔

ایسی تنقید کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اب بڑے میلوں میں اردو اور علاقائی زبانوں کی نمایندگی سال بہ سال بڑھ رہی ہے۔جوں جوں صارف کا اصرار بڑھتا جائے گا توں توں ان میلوں کی شکل بھی بدلتی چلی جائے گی۔سارا کھیل ڈیمانڈ اور سپلائی کا ہے۔ مجھے تو یہ میلے طبقاتی دکھائی نہیں دیتے۔ مثلاً کے ایل ایف میں اب ہر سال ایسے نوجوانوں سے پہلے سے زیادہ ملاقات ہو رہی ہے جو اندرونِ سندھ سے بسوں میں بیٹھ کر کراچی صرف اس میلے میں مصنفین کو سننے اور کتابوں سے ملنے آتے ہیں۔

اور جو مطمئن نہیں ہے وہ اپنے ذوق کے اعتبار سے میلہ منعقد کرالے۔جیسے سندھ لٹریچر فیسٹیول نے سندھ کی تاریخ اور ادب پر گفتگو کی کمی کو پورا کیا۔لاہوتی میلے نے میوزک کے متلاشیوں کے لیے کتاب اور گٹار کا ایک ساتھ انتظام کردیا۔اصل بات یہ ہے کہ روایت مسلسل پھیلنی چاہیے۔کسی شعلہ بار اجتماع میں شرکت کر کے اپنا خون ابالنے سے کہیں بہتر ہے کہ دو تین دن کے ان میلوں میں ہر رنگ و نسل و طبقے کے درمیان ٹھنڈے ٹھنڈے وقت گذار دیا جائے۔وگرنہ وقت تو ہمیں گذار ہی رہا ہے۔

اتنی سی بات کب سمجھ میں آئے گی کہ اس سماج کو کلاشنکوف سے زیادہ ملاقات ، مکالمے اور کتاب کی ضرورت ہے۔ایسے چوروں کی ضرورت ہے جو جیکٹ میں چوری چھپے بارود بھر کے لانے کے بجائے کتابیں بھر کے اڑ جائیں۔

(بشکریہ ایکسپریس نیوز)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).